مسعود خان کی ممکنہ انٹری اورچہ میگوئیاں

آزادکشمیر میں حکومت سازی کا عمل بڑی تیزی سے جاری ہے۔مسلم لیگ نوازکی انتخابات میں لینڈ سلائیڈ وکٹری کے بعد وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے راجہ فاروق حیدر کو وزات اعظمیٰ کے لیے تو نامزد کردیا ہے لیکن ریاست کے سب سے بڑے اور اہم عہدے صدارت کیلئے ابھی تک کسی کا نام سامنے نہیں آیا ہے۔اگر چہ پاکستان کے سابق سفارت کار مسعود خان کو اس آئینی عہدے کیلئے فیورٹ قرار دیا جارہا ہے اورمخصوص حلقہ مسعود خان کی نامزدگی کیلئے لابنگ بھی کررہا ہے تاہم بعض حلقوں کی طرف سے چہ میگوئیاں بھی جاری ہیں.

آزادکشمیر کے علاقے راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والے مسعود خان کی پاکستان کے لیے گراں قدرخدمات سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا ہے تاہم ان کو آزاد کشمیر کا یہ اہم عہدہ سونپنے کی افواہوں پر ملا جلا رد عمل سامنے آرہا ہے۔اگرچہ عوام کا ایک حصہ مسعود خان کی آزادکشمیر کی سیاست میں ممکنہ انٹری کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں تاہم دوسرا حصہ خفا خفا نظر آرہا ہے حتیٰ مسلم لیگ ن میں بھی ایک حلقہ مسعود خان کی صدارت کے لیے ممکنہ نامزدگی سے خوش نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسعود خان بلاشبہ ایک باصلاحیت ٹیکنوکریٹ اور ڈپلو میٹ ہیں مگر سیاست میں ان کی مہارت کوئی زیادہ نہیں ہیں۔مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں بھی ان کا کردار ہے تاہم سیاست کانٹوں کی سیج ہے جہاں پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ آزادکشمیر اسمبلی میں عدم اعتماد کی تاریخیں بھی اپنی ایک تاریخ رکھتی ہیں۔

آزاد کشمیر کے موجودہ صدر سردار یعقوب خان کے عہدے کی مدت 25 اگست کو ختم ہورہی ہے، 26 اگست کو نئے صدر کا انتخاب ہوگا اور اسی روز نیا صدر حلف اٹھائیں گے۔ اس سے قبل 16 اگست کو صدارت کے لیے نامزدگی کی مکمل کی جائے گی۔مسلم لیگ ن چونکہ انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرچکی ہے اور اس کے پاس ریاست کے ہر عہدے کے لیے ایک نہیں بلکہ کئی اہل اور باصلاحیت امیدوار موجود ہیں۔آزادکشمیر میں پہلی بار حکومت بنانے والی اس جماعت کے پاس پانچ ایسی تجربہ کار شخصیات موجود ہیں جو کسی بھی طرح صدرات کے لیے غیر موزوں نہیں ہیں۔ان شخصیات میں سابق صدر سردار سکندر حیات خان، سابق سپیکر شاہ غلام قادر، سابق چیف جسٹس منظور حسین گیلانی، ممبر اسمبلی مشتاق منہاس اورجموں کشمیر پیپلز پارٹی کے سربراہ سردار خالد ابراہیم شامل ہیں۔ اگر ہم ان شخصیات کے سیاسی تجربے ، مسئلہ کشمیر سے متعلق آگاہی اور آزادکشمیر کے مسائل کے ادراک کے بارے میں مختصر سا جائزہ لیں تو ہمیں یہ سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ کیا یہ پانچ شخصیات صدارت کی کرسی کے لیے اہل ہیں یا نہیں؟ اگر اہل ہیں تو ان کو سائیڈ لائن کرکے باہر سے کسی کو لانے کی کیا ضرورت ہے ؟ اور کس لحاظ سے یہ لوگ سفارتکار مسعود خان سے کم تر ہیں یا زیادہ اہل ہیں؟ان تمام سوالوں کا جواب ہمیں اس مختصر سے تقابلی جائزے کے بعد معلوم ہوگا۔

مسلم لیگ ن آزاد کشمیرکے سینئر نائب صدر سردار سکندر حیات آزادکشمیر کے صدر اور وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ انہیں آئینی اور انتظامی دونوں عہدوں کا بھر پور تجربہ ہیں۔ ریاست کی سیاست کے اتار چڑھاؤ سے بھی وہ بخوبی واقف ہیں۔ وہ صدرات کے عہدے کے معیار پرہر طرح سے پورا اترتے ہیں تاہم اس اہم منصب کے فرائض بھرپور طریقے سے انجام دینے میں سالار جمہوریت کی ڈھلتی عمر شاید کچھ رکاوٹیں حائل کرسکتی ہے۔

مسلم لیگ ن آزادکشمیر کے جنرل سیکرٹری شاہ غلام قادر کا ذکر کیا جائے تو وہ بھی صدر ریاست کے عہدے کے لیے موزوں شخصیت ہیں۔ وہ آزادکشمیر اسمبلی کے سپیکر رہ چکے ہیں ،صدر کی غیر موجودگی میں وہ صدارت کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ مہاجرکشمیری ہونے کے ناطے وہ مسئلہ کشمیر اور تحریک آزادی کے ہر پہلو سے بخوبی واقف ہیں۔بیس کیمپ کے علاوہ عالمی سطح پر بھی ان کا ایک اچھا امیج ہیں۔

سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آزادکشمیر منظور حسین گیلانی بھی صدرات کیلئے بہترین چوائس ہے۔ جسٹس (ر) منظور حسین گیلانی آزادکشمیر میں مسلم لیگ ن کے بانی تصورکیے جاتے ہیں۔ دو بار پارٹی کا منشور لکھ چکے ہیں۔ وہ ریاست کی سیاست اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پانچ کتابیں بھی لکھ چکے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے ہر پہلو کو گہرائی سے سمجھتے ہیں۔ریاست کے انتظامی اور آئینی معاملات سے شاید کوئی ان سے زیادہ واقف ہو، وہ آزاد کشمیر کا ایڈووکیٹ جنرل، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اورچیف الیکشن کمشنررہ چکے ہیں۔ کشمیری زبان کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے پاس دہلی اور سرینگر کی وکالت کا وسیع تجربہ بھی ہے۔ وادی کشمیر سے تعلق کی بنیاد پران کا وادی کے ہر گاؤں، جماعت اور لیڈر سے زاتی تعلق ہے۔ عدلیہ بحالی تحریک اور جنرل مشرف کی زیادتی کے خلاف آزاد کشمیر سے جوواحد جج کھڑا ہوئے وہ منظور گیلانی ہی تھے، پاکستان اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے حقوق کی تحریک اور ریاست جموں کشمیر کی آزادی کی تحریک کی تنظیم کے چئیر مین بھی رہ چکے ہیں

مسلم لیگ ن آزادکشمیر میں انٹر ہوتے ہی اسمبلی تک پہنچنے والے سابق صحافی مشتاق منہاس جوان ہیں اور ریاست کی خوشخالی اور ترقی کے لیے کچھ کرنے کی بڑی خواہش رکھتے ہیں۔پاکستان اور آزاد کشمیر کے سیاسی معاملات کا انہیں بھرپور ادراک ہیں۔وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کا اعتماد بھی حاصل ہے اور بول چال کے ماہر ہیں۔ تجربے کی کمی ضرور ہے لیکن انہیں قدرت نے بھرپور صلاحیتوں سے نواز ہے جن کا عملی مظاہرہ انہوں میدان صحافت میں کرکے دکھایا۔ اگر انہیں صدارت کے لیے آزمایا جائے تو وہ لوگوں کی تواقعات پر پورا اتریں گے۔

بے باک ، نڈراور خود دار ایسے الفاظ جونہی کوئی زبان پر لاتا ہے توایک نام ذہن میں ضرور آتا ہے اور وہ ہیں سردار خالد ابراہیم۔ جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے سربراہ ایک بااصول اور کرپشن کے الزامات سے پاک سیاست دان ہیں۔ عالمی سطح پر ان کا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ تحریک آزادی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ریاست کے آئینی اور انتظامی معاملات کی ہر گہرائی کو جانتے ہیں۔دو انتخابات سے مسلم لیگ ن کے اتحادی ہیں۔ اگر ان کا نام بطور صدر لیا جائے تو شاید آزادکشمیر کے کسی شہری کو اعتراض نہیں ہوگا۔

ان پانچ شخصیات کے مختصر تعارت اور ان کی اہلیت و صلاحیت میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ اگر ان میں سے کسی کا بھی مسعود خان سے تقابل کیا جائے تو صرف انیس بیس کا فرق ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ مسعود خان کو کیوں زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔ ریاست کی ان پانچ شخصیات کو نظر انداز کرکے سابق سفیر کو نوازنے کی ترکیبیں ہورہی ہیں۔ یہ وہ سوالات ہیں جو آزادکشمیر کے عوام کے ذہنوں میں جنم لے رہے ہیں۔ فی الحال ان پر اس لئے تبصرہ نہیں کیا جارہا ہے کیوں زیادہ تر لوگ حکومت سازی کے بعد اپنی ایڈجسٹمنٹ کے خواں ہیں۔ رہی عوام کی بات وہ بنیادی ضروریات زندگی کے ساتھ ساتھ خطے کو خوشحالی کی طرف کسی بھی صورت گامڑن دیکھنا چاہتے ہیں اس لئے وہ ان فیصلوں کو کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابل غور ہیں کہ اگر مسعود خان کو صدربنادیا جاتا ہے تو وہ معاملات کس طرح مثبت انداز سے ہینڈل کرسکیں گے جب اسمبلی میں مسلم لیگ (مقامی) ہر طرف چھائی ہوئی ہوگی۔ کیا وہ اپنے فیصلوں پر جاندار طریقے سے عملدرآمد کراسکیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے