” سائبر کی دنیا ،اخلاقیات اور ہمارے محراب و ممبر “

میں نے گزشتہ سے پیوستہ ماہ پاکستان قیام کے دوران ایک خطیب صاحب سے انٹرنیٹ کے حوالہ سے استفسار کیا… واپسی جواب کے بجائے ” لا حولہ و لا قوة ” پڑھ لیا. پھر میں نے مزید بحث سے اجتناب میں ہی عافیت جانی !… گزشتہ دھائیوں سے سائبر کرائم کا شور و غوغا ہے… معاشرتی نقصانات کی چارج شیٹ الگ ہے ۔۔۔۔ عالمی سطح پہ کاروباری نقصانات کے اعداد و شمار الگ ۔۔۔ اخلاقی روایات کا رونا الگ رویا جا رہا ہے ۔۔۔۔ سماجیات کی زمین پہ زلزلوں کی الگ داستانیں ہیں ۔۔۔ لیکن ایک ہم ہیں کہ اس کا ذکر کرنا ، وہ بھی کسی مقدس محفل میں یا مقدس جگہ پہ سب اعمال صالح ،اکارت ہونے کے مترادف سمجھتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ نیکیوں کی پوٹلی ہی جل کر راکھ ہونے کا اندیشہ کیے بیٹھے ہیں اور بھلا اس قدر رسک کون کمزور ایمان والا لے سکتا ہے ! سارا معاشرہ اس لت میں مبتلا ہے اور ہم مصلح کاروں نے اس سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند رکھی ہوئی ہیں ! کونسا گھر ہے جس میں انٹرنیٹ داخل نہیں ہو چلا ؟ کس عمر کا کوئی فرد ہے جو اس کی رینج سے محفوظ ہو ؟کیا مرد و زن ، کیا بوڑھا و جوان ، کیا سٹوڈنٹ کیا معلم ؟ سبھی اس کے نشانے پہ ہیں !

ایسے میں ہمارے محراب و ممبر ، ہمارے سکول و کالج اور ہمارے دروس کے حلقوں میں اس موضوع پہ چھائی خاموشی کہیں اس کے مشن میں ساجھے داری کے مترادف نہ ہو ؟ اس کو حکومتی پراسپیکٹس میں ہی نہ دیکھا جائے اور نہ ہی وہ ساری جزئیات ہمارے دائرہ اختیار میں آتی ہیں لیکن کم از کم وہ پوائنٹس ضرور ڈسکس کئے جائیں جن سے ہمیں روزمرہ زندگی میں رابطے کی سائیڈز کے ذریعے واسطہ پڑتا ہے
سائبر کرائم کی ایک عام تعریف یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہر ایسی سرگرمی جس میں کمپیوٹرز یا نیٹ ورکس کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کسی کو ہدف یا مجرمانہ سرگرمیاں کی جائیں یا کمپیوٹر کی دنیا سے جڑی ایسی سرگرمیاں جو یا تو غیرقانونی ہو یا انہیں مخصوص فریقین کی جانب سے خلاف قانون سمجھا جائے اور ان میں عالمی الیکٹرونک نیٹ ورکس کو استعمال کیا جائے انہیں سائبر کرائم سمجھا جائے گا۔

عام فہم انداز میں بات کی جائے تو مختلف سطحوں پر سائبر کرائمز کے ذریعے لوگوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی، ہیکنگ، سوشل نیٹ ورکس میں استحصال، معلومات انفراسٹرکچر پر سائبر حملے، سائبر دہشتگردی، مجرمانہ رسائی، فحش پیغامات، ای میلز، دھمکی آمیز پیغامات و ای میلز، ڈیٹا تک غیرقانونی رسائی وغیرہ وغیرہ۔ بحیثیت قوم ہمارا المیہ بھی عجیب تر ہے ! کسی دور میں بھی ہم بحیثیت قوم ایک پیج پہ نہیں آتے ، ہمارے ہاں محراب و ممبر نے ایک الگ محاذ کھول رکھا ہوتا ہے اور ہماری اسمبلیاں کسی اور فیلڈ میں طبع آزمائی فرما رہی ہوتی ہیں ،ہمارا میڈیا کسی اور ایجنڈے پہ کارفرما ہوتا ہے اور ہمارا مقننہ سانپ گزر جانے کے بعد اس کی لکیر پیٹنے کی مشق کر رہا ہوتا ہے !

بلکہ اکثر اوقات تویہ ادارے ایک دوسرے پہ ہی چڑ دوڑ رہے ہوتے ہیں ۔ یہ سفر ہم نے طے کیا ہے اور یہ ہے ہمارے سفر کا حاصل ! دین مساجد میں اور ہے اور ایوان اقتدار میں اس کا معانی و مفاہیم الگ ! اسی کا ثمرہ ہے کہ قانون سازی کرنے والوں کو صورة اخلاض تک نہیں آتی اور جو دن رات مصلے پہ ہوتے ہیں ان کو ایوان کی راہ داری ہی نصیب نہیں ! سائبر کرائم سے قطعاََ وہ مراد نہ بھی جو حکومت کے پیش نظر ہے ، ہمیں اسے اخلاقی پہلووں سے ضرور ہر فورم پہ زیر بحث لانا چاہیے… اب آئیے ذرا بیدار مغز لوگوں کی محافل دیکھ لیتے ہیں !

مدینہ منورہ میں قیام کے ان چار سالوں میں ہر جمعہ حرم نبوی میں پڑھنے کا موقع قدرت نے نصیب کیا ۔ معاشرتی اخلاقیات سے جڑا کوئی بھی موضوع ہو، اسے ضرور گفتگو کیلئے چنا جاتا ہے ۔ میڈیا کی ذمہ داریوں پہ کئی بار سیر حاصل خطبے دیئے گئے اور حالیہ جمعہ(مورخہ 29جولائی) کا موضوع ”انٹرنیٹ اور اخلاقیات “ تھا خطبہ کا مکمل اردو ترجمہ ملاحظہ ہو… خطیب شیخ ڈاکٹر صلاح البدیر
تمام تعریفیں اللہ تبارک و تعالی کیلئے ہیں جو بہت کرم کرنے والا ہے اور بہت کچھ دینے والا ہے ۔ جس اللہ تبارک و تعالی نے فحش گوئی اور برا بھلا کہنا حرام قرار دیا ہے ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبود برحق نہیں ۔ میں اسی سے دعائیں کرتا ہوں اور اسی کی طرف ٹھکانہ ہے ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔ اللہ کی رحمتیں آپ پہ نازل ہوں اور آپ کے آل اور صحابہ پہ بھی !
حمد و ثناءکے بعد اے مسلمانو ! اللہ تعالی سے ڈرو ، جو اللہ تعالی سے ڈرے گا وہ سعادت مند رہے گا قیامت کے دن ۔۔۔ اور مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھوں اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔ اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو اور درست بات کہو ۔

اے مسلمانو ! مومن خیر کا سرچشمہ ہوتا ہے اور خلق خدا پہ مہربان ہوتا ہے ۔ مکالمہ میں نرمی ،گفتگو میں دھیما پن اور ایک دوسرے کو مخاطب کرنے میں لطافت اپنانا ہی راہ اعتدال ہے ۔ نرمی اختیار کر کے لوگوں کو اپنی طرف مائل کیا جا سکتا ہے ۔ مختلف خواہشات کے حامل لوگوں کو مطمئن کیا جا سکتا ہے ۔ متنفر دلوں اور بھٹکے ہوئے خیالات کو دوبارہ راہ راست پہ گامزن کیا جا سکتا ہے ۔ اللہ تعالی نے موسی اور ہارون علیہ السلام سے فرمایا © ©فرعون کو نرمی سے سمجھاو ¿ تاکہ وہ نصیحت قبول کر لے یا اللہ سے ڈر جائے ابن کثیر رح فرماتے ہیں کہ اس آیت میں ہمارے لئے بہت بڑا سبق ہے اور وہ یہ کہ فرعون انتہائی سرکش اور متکبر تھا جبکہ موسی علیہ السلام اس زمانہ میں اللہ تعالی کے برگزیدہ بندے تھے اس کے باوجود انہیں حکم ملا کہ وہ فرعون سے نرم لہجے میں گفتگو کریں.

اے مسلمانو! سب و شتم تمام فتنوں کی جڑ ہے ، اس سے نہ تو کسی روٹھے کو منایا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی مخالف کو اپنا ہمنواءبنایا جا سکتا ہے ۔ بلکہ اس سے دلوں میں بغض و حسد پیدا ہوتا ہے اور فریق مخالف کی سرکشی ، ہٹ دھرمی مزید بڑھ جاتی ہے ، جو اپنے مخالفین کو برابھلا کہنا ان پہ لعنت طعن کہنا اپنا وطیرہ بنا لیں تو اس کی مخالفتیں کم ہونے کے بجائے بڑھتی جائیں گی ، بد خلق ، بدزبان ، طعنہ زن ، چغل خور پاک دامن لوگوں پہ تہمتیں لگانے والا ، لوگوں پہ ظلم و زیادتی کرنے والا ، غیب جو ، بدگو ، فحش گلامی اور سب و شتم کے مرض میں مبتلا شحض کبھی بھی امت کا مصلح اور معلم نہیں ہو سکتا ۔
ٓ

آج امت میں یکے بعد دیگرے مختلف واقعات رونماہو رہے ہیں ۔ جب بھی لوگ کچھ چیخ و پکار سنتے ہیں ، اپنے قرب و جوار میں یا دور کسی حادثے کی خبر سنتے ہیں ، تو فوراََ انٹرنیٹ کا رخ کرتے ہیں اور ان واقعات کی بنیاد پہ ایک دوسرے کو برابھلا کہتے ہیں اور ایک دوسرے پہ لعن طعن کرتے ہیں ، لوگ سوشل میڈیا کی طرف بھاگتے چلے جا رہے ہیں ، کوئی کسی پہ تہمت لگا رہا ہے کوئی کسی پہ لعن طعن کر رہا ہے اور کوئی دوسروں کو سب و شتم کا نشانہ بنانے میں مگن ہے ان حرکتوں سے صرف وہ محفوظ رہتے ہیں جن پہ اللہ کی رحمت ہو ۔

دوسروں پہ لعن و طعن اور سب و شتم کے الفاظ تحریر کرنے والو ! لوگوں پہ تہمتیں اور فتوے لگانے والو ! تم جو کچھ تحریر کر رہے ہو اس کے بارے میں تم سے اس دن باز پرس ہو گی جس دن ساری خلقت جمع ہو گی جس دن چھوٹے بڑے تمام اعمال تولے جائیں گے جس دن ہر کوئی اس حال میں آئے گا کہ اس کے ساتھ اسے ہانک کر لانے والا فرشتہ بھی ساتھ ہو گا اور اس کے اعمال بد کی شہادت دینے والا فرشتہ بھی ساتھ ہو گا ، سکرین کے پیچھے چھپنے والے ، کسی دوسرے نام کے ذریعے لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رہ کر اوروں کو سب و شتم کا نشانہ بنانے والے کیا تو یہ بھول گیا ہے کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے اور اسے تمہارے ہر راز اور ہر سرگوشی کا بخوبی علم ہے.
مومن نہ تو لعن طعن کرنے والا ہوتا ہے اور نہ ہی فحش گو ہوتا ہے اور نہ بد خلق ہوتا ہے ہمارے نبی نہ کسی کو برابھلا کہتے تھے اور نہ آپ فحش گو تھے اور نہ آپ لعن طعن کرنے والے تھے ، آپ کا فرمان ہے کہ مجھے لعن طعن کرنے کیلئے نہیں بھیجا گیا ۔ مجھے تو صرف رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے ، مزید فرمایا ! مسلمان کو برابھلا کہنا فسق ہے ، آپ نے فرمایا ! باہم گالی گلوچ کرنے والے دونوں شحض شیطان ہیں ، یہ دونوں ایک دوسرے سے غلط بات کر رہے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں ۔

جابر بن سلیمان کہتے ہیں میں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے کوئی وصیت کیجیئے ، تو آپ نے فرمایا ” تم کبھی کسی کو گالی مت دینا “ جابر کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے کبھی کسی کو گالی نہیں دی ، نہ کسی غلام کو ، نہ کسی آزاد کو ، نہ کسی اونٹ کو اور نہ ہی کسی بکری کو ! آپ نے فرمایا : اگر تمہیں کوئی آدمی برا بھلا کہے یا لعن طعن کرے ، یا طعنے دیے تو اس کا وبال اسی کے اوپر ہو گا ،
اے اللہ کے بندے ! جو غلط لکھا ہے اس سے توبہ کر لے اور اللہ تعالی کا یہ فرمان یادرکھ ! میرے بندوں سے کہہ دیجئے شیطان ان کے درمیان دشمنی ڈالتا ہے ، شیطان انسان کا دشمن ہے واضح طور پہ !

اے اللہ ہمیں ہدایت عطا فرما اور ہمیں ہمارے نفس سے محفوظ فرما ، میں اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرتا ہوں تم لوگ بھی اسی سے توبہ طلب کرو ، یقینا وہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔۔ آخر میں امام محترم نے امت مسلمہ کیلئے امن اور بھلائی کی دعائیں فرمائیں !
ٓٓآخری سطور میں اصلاح احوال کے مراکز کے ذمہ داران سے گزارش ہے، گھر کے سرپرست اور والدین سے التماس ہے کہ اس ضمن اپنا کردار ادا کریں تاکہ معاشرہ ممکنہ تباہی سے بچ سکے !

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے