جامشورو سے تعلق رکھنے والے والے مراد علی شاہ کو سیاست وراثت میں ملی ہے اور اسمبلی کی رکنیت کے لیے انھیں ذیادہ ہاتھ پیر نہیں مارنے پڑے۔ان کے والد اورسابق وزیر اعلیٰ سندھ عبداللہ شاہ جس نشست سے مستعفی ہوئے تھے اسی نشست پر دوبارہ انتخاب میں مراد علی شاہ کامیاب قرار پائے۔جبکہ 2013 کے انتخابات سے قبل دوہری شہریت رکھنے کی وجہ سے انھیں نااہل قرار دیا گیا تھالیکن بعد ازاں وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ انھوں نے کینیڈا کی شہریت پہلے ہی چھوڑ دی تھی، جس کے بعد وہ دوبارہ منتخب ہو کر اسمبلی پہنچے۔مراد علی شاہ کوجہاں صوبے میں کئی بڑے مسائل وراثت میں ملے ہیں وہیں ایک اور چیز بھی وراثت میں ملی ہے وہ ہے کراچی آپریشن۔ماضی میں جب ان کے والد وزیر اعلیٰ تھے تو اس وقت بھی کراچی میں جاری آپریشن اپنے عروج پر تھا اور موجودہ وقت بھی شہر قائدکو اس آپریشن کا سامنا ہے۔ مراد علی شاہ کراچی میں قیام امن کو اپنے لیے سب سے بڑا چیلینج سمجھتے ہیں۔
مراد عل شاہ کے لئے ایک اور امر بھی پریشان کن ہے کہ ان کے والدعبداللہ شاہ کے دور حکومت میں بی بی شہید کے بھائی مرتضیٰ بھٹو، ان کے سگے چچا احسان علی شاہ اور ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کے بھائی ناصر حسین اور بھتیجے عارف حسین کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔بعدازاں جب سیاسی رنجشیں ختم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نائن زیرو پہنچے تھے تو مراد علی شاہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس وفد نے ایم کیو ایم کے ’شہدا قبرستان کا بھی دورہ کیا‘ جس میں وہ کارکن بھی مدفون ہیں جو کہ آپ ریشن کے دوران ہلاک ہوئے اس موقع پر وفد نے شہداء قبرستان کے مدفون سیاسی کارکنان کیلئے فاتحہ خوانی بھی کی۔،
مراد علی شاہ دو بچوں کے والدبھی ہیں اور اپنا زیادہ تر وقت کراچی میں گزارتے ہیں۔گزشتہ ادوار میں بھی بہت سرگرم رہے ہیں اوربالخصوص ارباب غلام رحیم کے دور حکومت میں بطور اپوزیشن پارلیمینٹیرین کافی سرگرم رہے۔اسمبلی قوانین و ضوابط پر عبور کی وجہ سے وہ سینیئر پارلیمینٹیرین اسپیکر مظفر شاہ کو بھی پریشان کردیتے تھے اور اس وقت حکومت اور موجودہ اپوزیشن میں شامل ایم کیو ایم کے اراکین سے بھی ان کی نوک جھونک چلتی آئی ہے۔
سید عبداللہ شاہ کی طرح مراد علی شاہ ملنسار اور میڈیا دوست نہیں اور وہ انتہائی کم بات کرتے ہیں۔ سوائے بجٹ پریس کانفرنسوں کے انھیں شاذ و نادر میڈیا کا سامنا کرتے دیکھا گیا تھا۔محکمہ مالیات اور توانائی کے قلمدان ان کے پاس ہونے کے باوجود ان کا کبھی بھی کوئی ترجمان نہیں رہا ۔میڈیا سے دور رہنے کی بنیادی وجہ ان کے قریبی احباب یہی بتاتے ہیں کہ مراد علی شاہ کے نزدیک میڈیا بات کا بتنگڑ بنادیتا ہے اور الٹی سیدھی خبروں کی وجہ سے کسی کی بھی ساکھ خراب کردی جاتی ہے اس لئے میڈیا سے دوری ہے بہتر ہے۔
اسمبلی میں بجٹ تقریر سے قبل نجی چینلز پر بجٹ منظر عام پر آنے کی دوڑ شروع ہوجاتی ہے، بطور وزیر خزانہ انھوں نے اس کا سختی سے نوٹس لیا اور اس روش کو تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔سندھ کے سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کی بانسبت مراد علی شاہ جزباتی شخصیت ے مالک ہیں۔این ای ڈی یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے والے مراد شاہ امریکہ کی سٹینفرڈ یونیورسٹی سے بھی سول سٹرکچرل انجینئرنگ اور اکنامک انجینئرنگ کے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔حصولِ تعلیم کے بعد انھوں نے اپنے کریئر کی ابتدا واپڈا میں بطور جونیئر انجنیئر کی اور پھر پورٹ قاسم اتھارٹی، حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور کراچی ہاربر پر بھی مختلف عہدوں پر فائز رہے۔وقت کے پابند ہیں اور صبح 9بجے ہی دفتر پہنچ جاتے ہیں۔قریبی زرائع بتاتے ہیں کہ مراد علی شاہ کسی سیکشن افسر کی طرح اپنے محکمے کے بارے میں اپ ڈیٹ ہوتے ہیں، ہمیشہ ٹیبلٹ ان کے ساتھ ہوتا ہے، جس کی مدد سے وہ کسی بھی گلے شکوے کا اعداد و شمار کے ساتھ جواب دیتے ہیں۔ وہ وزیرِ اعلیٰ نامزد ہونے سے قبل صوبائی وزیر خزانہ، وزیرِ توانائی اور وزیرِ آبپاشی بھی رہ چکے ہیں۔ سنہ 2010 میں سندھ میں جب سیلاب آیا تو اس وقت مراد علی شاہ ہی وزیر آبپاشی تھے اور انھیں ہٹا کر جام سیف اللہ دہاریجو کو یہ وزارت دی گئی تھی۔
مراد علی شاہ اپنا زیادہ تر وقت کراچی میں گذارتے ہیں جہاں ان کا خاندان بھی مقیم ہے، جبکہ ان کے حلقے کے لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ وہ ان سے کم ملتے ہیں۔ان کے اس رویے کی وجہ سے انھیں انتخابات میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جب مخالف امیدوار حبیب رند نے انھیں ’ٹف ٹائم‘ دیا تھا تاہم اس کے بعد انھوں نے حلقے میں اپنے نمائندے تعینات کر دیے ہیں جو لوگوں کی شکایت سنتے اور ان کے حل کی کوشش کرتے ہیں۔سندھ کے سبکدوش ہونے والے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کے مقابلے میں مراد علی شاہ کو نسبتاً ایک جذباتی شخصیت سمجھا جاتا ہے۔ ملنسار نہ ہونا اور جلد ناراض ہونے کی عادت وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے ان کی اپنی جماعت کے ارکان اسمبلی آنے والے دنوں میں خود کو ان کے ساتھ ’کمفرٹیبل‘ محسوس نہیں کرتے۔ سندھ کی عوام کو مراد علی شاہ سے کافی امیدیں وابستہ ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ اپنے پیشرو کی طرح مراد علی شاہ بھی وقت گزرتے ہیں یا پھر سندھ میں ایک سرگرم اورقابل وزیراعلیٰ کے طور پر خود کو منواتے ہیں