میں ڈاکٹر کیوں نہیں بنی ؟

لفظ مسیحا سنتے ہی آپ کے اندر نرمیاں سی اترنے لگتی ہیں۔۔۔ اور ہمارے معاشرے میں مسیحا ڈاکٹرز کو کہتے ہیں۔۔۔۔ بچپن سے ہی میں نے اپنے اردگرد مسیحاؤں کو دیکھا۔۔ ہمیشہ جب بھی میں بیمار ہوتی۔۔ امی ڈاکٹر کے پاس جانے کا کہتیں تو میں ڈر جاتی لیکن جب ڈاکٹر یعنی مسیحا سے ملتی تو حقیقتا ڈر خوف بھول جاتی۔۔۔ تو میرے ذہن میں ایک نقش بنا ہوا تھا مسیحا اور مسیحائی کا۔۔۔ خیر اتوار کے روز بنی گالہ میں پاکستان تحریک انصاف کا مشاورتی اجلاس تھا۔۔ جہاں پر ساتھی رپورٹر زارا قاضی اپنے فرائض انجام دینے کے لئے موجود تھیں۔۔۔ گھر سے جلدی نکلنے کے باعث ناشتہ نہ کر سکیں۔۔۔ تو وہاں پر ان کی طبعیت خراب ہو گئی۔۔۔ بروقت میں زارا کو اسپتال لے گئی۔۔ اسلام آباد کے سرکاری اسپتال پولی کلینک میں جب ہم پہنچے تو میں نے ایک جاننے والے ڈاکٹر کو فون کیا۔۔۔ اللہ بھلا کرے ان کا جنہوں نے ایمرجنسی کے ڈاکٹر کو ریفر کر دیا۔۔ اور وہ ڈاکٹر بھی خاصے مددگار ثابت ہوئے۔۔۔

انہوں نے زارا کا بلڈ پریشر چیک کیا تو پتہ چلا کہ وہ کافی کم تھا۔۔۔ وہ ڈاکٹر ہمیں لے کر ایک لیڈی ڈاکٹر جو غالبا ایمرجنسی کی انچارج لگ رہی تھیں ان کے پاس آگئے۔۔۔ محترمہ ڈاکٹر صاحبہ نے پہلے تو ہمیں گھور کر دیکھا۔۔ پھر انتہائی بدتمیزانہ روئیے کے ساتھ پوچھا: کیا مسئلہ ہے آُپ کو؟۔۔۔ ابھی میں نے بولنا بھی شروع نہیں کیا تھا کہ ہماری بیماری سنے بنا ہی ڈرپ اور انجیکشن لکھ دیا۔۔۔ زارا اور میں نے اس بات کو محسوس کیا کہ محترمہ بہت اکتائی ہوئی ہیں۔۔۔ خیر۔۔ اللہ اللہ کر کے زارا کو ڈرپ لگ گئی۔۔۔ ایک روتی چلاتی ماں اندر داخل ہوئی۔۔ اس کے سات سالہ بیٹے کو کار نے ہٹ کیا تھا اور وہ بچہ کافی تشویشناک حالت میں تھا۔۔۔ محترمہ ڈاکٹر صاحبہ کہنے لگیں کہ مجھے سخت غصہ آتا ہے جب کوئی یوں شور مچاتا ہے۔۔۔ بہرحال تسلی کے دو لفظ بولنا تو درکنار محترمہ نے اپنی کرسی پر بیٹھ کر آرام سے پیپسی انجوائے کی۔۔۔۔ اور وہی ڈاکٹر صاحبہ جو کہ مریضوں کے آنے پر بہت غصہ کر رہی تھیں۔۔ ان سے بہت برے طریقے سے پیش آرہی تھیں۔۔۔ اپنے ساتھی ڈاکٹرز کے ساتھ ہنسی مزاق اور خوشگوار میٹھے لہجے میں باتیں فرما رہی تھیں۔۔۔ اتنے میں زارا کی طبعیت تھوڑی خراب ہونے لگی۔۔۔ میں نے گبھرا کر ڈاکٹر صاحبہ کو کہا کہ اسے دیکھیں کیا ہو رہا ہے۔۔۔ تو انہیں میری بات سخت بری لگی۔۔۔۔ جواب دیا : میں کیا کر سکتی ہوں؟۔۔۔ جا کر نرس کو بتائیں: میں نرس کو ڈھونڈنے کے لئے اندر چلی گئی۔۔۔ ایک نرس نظر آئی تو میں کہا کہ میڈیم میری دوست کو ڈرپ لگی ہے۔۔ پلیز آپ دیکھیں ان کی طبعیت خراب ہو رہی ہے۔۔۔ تو نرس نے انتہائی بدمزگی اور ڈانٹنے والے انداز میں کہا: میں کیا کروں؟۔۔ جا کر ڈاکٹر کو بتاؤ۔۔ پتہ نہیں کہاں کہاں سے آ جاتے ہیں منہ اٹھا کے:

اردگرد کے لوگ میری طرف متوجہ ہو گئے۔۔۔ میں حیران ہو کر وہیں کھڑی اس کو دیکھ رہی تھی کہ میں نے ایسا کون سا لفظ بولا جو ان کو ناگوار گزرا۔۔۔ کچھ دیر تو مجھے سمجھ ہی نہ آیا کہ کہاں جاؤں۔۔۔ میں واپس آئی تو زارا نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحبہ نے برملا تبصرہ فرمایا ہے کہ یہ پروٹوکول والی ہیں۔۔۔ ایک تو فلاں فلاں ڈاکٹر کے ریفرنس سے ہیں دوسرے جس ڈاکٹر نے ڈرپ لگائی ہے اس نے انہیں سر چڑھا لیا ہے۔۔۔۔ میری حیرانی کی انتہا نہ رہی جب میں نے یہ سنا۔۔۔ اگر ہم پروٹوکول والے تھے تو ہمارے ساتھ یہ سلوک ہو رہا تھا۔۔۔ تو اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عام لوگوں کے ساتھ یہ محترمہ کیا کرتی ہوں گی۔۔۔ ابھی میں اسی کشمکش میں تھی کہ ایک تقریبا چالیس سے پینتالیس سال کا آدمی اندر داخل ہوا اور کہا کہ ڈاکٹر صاحبہ مجھے بائیں جانب سینے میں درد ہے اور بایاں بازو بھی درد کر رہا ہے۔۔ اور دل بھی بہت گبھرا رہا ہے۔۔۔ ابھی اس کے الفاظ منہ میں ہی تھے کہ ڈاکٹر صاحبہ کے چہرے کے زاوئیے بدلنے لگے اور وہ مریض پر پھٹ ہی پڑیں۔۔۔ کہنے لگیں:یہ کیا مسئلہ ہوا:میں کیا کروں؟: گھر جا کر دو تین گلاس پانی پئیں:

مریض اس طرح کے روئیے کی توقع نہیں کر رہا ہو گا۔۔ اسی لئے فوری طور پر آنکھوں میں آنسو لئے واپس پلٹ گیا۔۔۔ پاس بیٹھے دوسرے ڈاکٹر کو شاید تھوڑا ترس آگیا۔۔۔ اور وہ کہنے لگا کہ آپ ڈسپرین کی گولی کھا لیں۔۔۔ یہ علامات فالج کے اٹیک کی تھیں۔۔۔ جس کو محترمہ ڈاکٹر صاحبہ نے بے دردی سے نظر انداز کر دیا۔۔۔ ڈاکٹر صاحبہ کے خراب روئیے کے باعث مریض اپنی بیماری بتانے کا حوصلہ نہیں کر پا رہے تھے۔۔ کہ پتہ نہیں کس بات پر محترمہ چلانے لگ جائیں۔۔۔ ڈاکٹر صاحبہ کی گفتگو کے مطابق انہوں نے اپنا کوئی امتحان چھے سو نمبروں سے پاس کیا۔۔۔ مجھے ان کا روئیہ اور مریضوں کے ساتھ سلوک دیکھ کر شدت سے احساس ہوا کہ کاش یہ محترمہ اخلاقیات اور انسانیت کے مضامین میں چھے نمبر ہی لے لیتیں تو آج حالات کچھ اور ہوتے۔۔۔۔

محترمہ ڈاکٹر صاحبہ جس تیزی سے زبان کے جوہر مریضوں پر چلا رہی تھیں اس کا ایک فیصد بھی اگر مریضوں کی بات سننے میں صرف کر لیتیں تو انہیں کچھ افاقہ ہوتا۔۔۔ ایسا نہیں ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ خوش اخلاق نہیں تھیں۔۔ حیران کن طور پر وہ اپنے کولیگز کے ساتھ بے حد شیریں لہجے میں گفتگو فرما رہی تھیں۔۔۔ اس کے بعد میں زارا کو لے کر وہاں سے نکل آئی۔۔ کیونکہ مجھ میں مزید برداشت کرنے کی سکت نہیں تھی۔۔۔ پولی کلینک کی ڈاکٹر جو ایمرجنسی میں کل ملی۔۔ اس کا روئیہ دیکھنے کے بعد مجھے شدت سے محسوس ہوا کہ ہم اپنے بچوں کو اعلی تعلیم تو دلوا رہے ہیں۔۔ لیکن ان کی اخلاقی تربیت کرنا بھول گئے ہیں۔۔۔ وزیر مملکت برائے ہیلتھ سائرہ افضل تارڑ اور وزیر کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کو اس بات کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہئیے ۔۔۔ خاص طور پر ڈاکٹرز کے بدتمیزانہ روئیے جو کہ قطعی ناقابل قبول ہیں انہیں سب سے پہلے اخلاقی تربیت دلوانے کے لئے اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔۔۔۔ خاص طور پر پولی کلینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کو ڈاکٹرز کے مریضوں کے ساتھ روئیے کو ذاتی طور پر دیکھنا چاہئیے۔۔۔ میرے اور زارا سمیت جن مریضوں کے ساتھ پولی کلینک کی ایمرجنسی کی ڈاکٹر نے بدتمیزانہ اور اکتاہٹ بھرا روئیہ رکھا مجھے یقین ہے کہ دوبارہ کبھی یہاں کا رخ نہیں کریں گے۔۔۔ سرکاری اسپتالوں میں سہولیات کا فقدان کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اب تو سرکاری اسپتالوں میں اخلاقیات کا بھی جنازہ نکل چکا ہے۔۔ پاکستان کے تقریبا پچاس فیصد سے زیادہ بچوں کی طرح میری بھی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں۔۔۔ لیکن اگر ڈاکٹر پولی کلینک کی ایمرجنسی کی لیڈی ڈاکٹر جیسے ہوتے ہیں تو شکر ہے کہ میں ڈاکٹر نہیں بنی۔۔۔۔ کیونکہ کل کے واقعے کے بعد مجھے محسوس ہوا ہے کہ مسیحا اب مسیحائی بھول بیٹھے ہیں جو کہ افسوسناک اور شرمناک ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے