چیتھم سروے نے اٹوٹ انگ اور شہ رگ تو مکمل کاٹ ڈالی ۔۔۔ اب ان لوگوںکا کیا ہو گا جو نظریہ الحاق پاکستان اور نظریہ الحاق ہندوستان کا سنہرا چمچ لیکر پیدا ہوئے؟۔۔ ۔ وہ لوگ ماتم کناں ہوں گے جنہوں نے اقتدار غلاماں کیلئے ملٹری ڈیمو کریسی کی بنیاد رکھی ۔۔۔ صف ماتم وہاں بھی بچھے گی جو 1947 سے آج تک ہندوستانی اور پاکستانی فوج کے بلا تنخواہ سپاہی بن کر مزے لوٹتے رہے۔۔۔ وہ بھی پریشان حال ہیں جو کشمیر کو مذہبی مسئلہ بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
برطانوی ادارے چیتھم ہاوس نے کشمیر کے بارے میں بہت کچھ بے نقاب کر دیا سروے رپورٹ کے مطابق 66فیصد عوام بھارتی فوج جبکہ 52فیصد عوام پاکستانی فوج کا ریاست سے انخلاءچاہتے ہیں ۔75 فیصد کشمیری یہ سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام پر چھوڑ دیا جائے تو وہ بات چیت کے ذریعے کسی مثبت فیصلے تک پہنچ جائیں گے ۔لاالہ کے نعرے مارنے اور پاکستان پرچم لہرانے والے صرف 15فیصد کشمیری پاکستان سے الحاق جبکہ 21فیصد بھارت کے ساتھ الحاق کے حامی ہیں۔ چیتھم نے یہ سروے 2009میں کیا جس میں لائن آف کنٹرول کے دونوں دونوں جانب 18اضلاع میںسے 3776مقامی باشندوں سے سوالنامہ بھروایا۔دونوں جانب کے 80فیصد عوام نے بیروز گاری کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا جبکہ اس کے بعد سرکاری کرپشن اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی بڑا المیہ بتائی گئی ۔
سروے اگرچہ حقائق پر مبنی ہے مگر الحاق پسند طبقے کے تناسب بارے وضاحت ضروری ہے ۔کیونکہ پاکستان سے الحاق کے بجائے بھارت سے الحاق کرنے والوں کا تناسب زیادہ ہے ۔کشمیر میں شال بافی ،میوجات ، چاول اور ریشم کی پیدوار بکثرت ہوتی ہے ۔کشمیر ی تاجر وں کا تمام کاروبارہندوستان میں ہے جو وہاں کڑورں روپے کی سرمایہ کاری کیے ہوئے ہیں۔جو ہندوستان سے کما رہا ہے وہ وہاں ہی رہنا پسند کر یگا۔الحاق کی دوسری بڑی وجہ بیروزگاری ہے۔پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سرکاری ملازمتوں کے بعد بیروزگاروں کی بھاری تعداد کی کھپت پاکستانی اور ہندوستانی فوج ہے۔
آزاد کشمیر کا کوئی ضلع ایسانہیں جہاںسے نوجوان کی کثیر تعداد پاکستانی فوج میں خدمات سرانجام نہ دے رہی ہو۔شایدآپ کو یا دہو کہ دو برس قبل کراچی میں نوجوان کو سرعام روڈ پر گولی مارنے والا رینجرز اہلکار بھی آزاد کشمیر سے تعلق رکھتا تھا۔رواں برس اسلام آباد میں واپڈا ملازم کو قتل کرنے کے والا پاک فوج کا آفیسر بھی کشمیر کی ہی سرزمین کا باسی ہے۔اور یہی صورتحال بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی بھی ہے پاکستانی اور بھارتی فوج میں خدما ت سر انجام دینے والے ظاہر ہے ان ہی ممالک کی نمائندگی کرینگے۔الحاق پاکستان اور الحاق ہندوستان کے معائدوں پر دستخط کرکے دونوں اطراف اقتدار کے مزے لوٹنے والے بھی رائے شماری کے اعلان تک پاکستان سے بڑھ کر پاکستانی اورہندوستان سے بڑھ کر ہندوستانی ہی کہلانا نا پسند کرتے ہیں مگر رائے شماری کا اعلان ہوتے ہی یہ خود مختاری کشمیر کے سب سے بڑے داعی بن کر ابھریں گے۔
چیتھم سروے چونکہ 7برس قبل کیا گیا اور اس دور میں ریاست جموں کشمیر میں سوشل میڈیا کا استعمال عام نہیں تھا۔پاکستان کی طرح کشمیر کے مذہبی حلقے لبرل کوکا فر اور خود مختار کشمیر کے حامیوں کو غدار مانتے تھے۔مگر سوشل میڈیا آنے کے بعد لوگوں کو ایک دوسرے کے نظریات سمجھنے میں مدد ملی ۔پا بندیوں میں جکڑے میڈیا کی نسبت کھل کر اظہار رائے کے مواقوں نے عوام کی سوچ میںتبدیلی لائی یا یوں کہیے کہ خود مختارکشمیر کے نظریات کو سوشل میڈیا نے اتنا پروان چڑھا دیا جتنا اس سے قبل کئی دھائیوں میں پروان نہیں چڑھ سکا ۔اب اگر سروے کرایا جائے تو نتائج اور بھی حیران کن ہوں گے ۔
سروے رپورٹ کشمیریوں اور بھارت کے لیے تو حیران کن قطعی نہیں مگر پاکستان کے عوام اور اداروں کےلئے ضرور حیران کن ہو گی کیونکہ پاکستان میں لاالہ کے نعرے لگاتے اور پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے کشمیریوں کے صرف اس مذہبی طبقے کو دکھایا جاتا ہے جو اداروں کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں یا یوں کہیے کے ریاست کے دونوں اطراف کے سیاستدان الحاق ہندوستان یا الحاق پاکستان کا معائدہ کر کے اقتدار حاصل کرتے ہیں اور یہ چند مذہبی عناصر لاالہ کے نعرے بازی یا پرچم کشائی کر کے حلال کی روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی مسئلہ کشمیر پر منظور کی گئی قرادادوں میں کہیں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنے زیر انتظام کشمیر میں گڈ گورننس قائم کریں گے مگر ان خطوں میں گڈ گورننس کی ایسی اعلیٰ مثال قائم ہے کہ شیطان بھی پناہ مانگے۔سری نگر کی حکومت ہو یا مظفر آباد کی دونوں طرف لوٹ مار ہی لوٹ مار ہے ۔سری نگر کے سیاستدان مظفر آباد سے زیادہ خوشحال ہیں کیونکہ 1989کی جدوجہدآزادی میں جہاں لاکھوں لوگ کام آئے وہاں ان کے وظیفے بھی اتنے ہی بڑھے ۔
بھارتی خفیہ ایجنسی ”را “ کے سابق سربراہ نے گزشتہ برس انکشاف کیا تھا کہ پیر مرشد سید علی گیلانی بھی آزادی کے متوالوں کی جہادی سرگرمیاں کم کرنے کے لیے نقدی وصول کرتے رہے ہیں ۔بھارت نواز سیاستدان تو زندہ مجاہدکی قیمت تو وصول کر تے ہی رہے مگر کبھی کبھی مردوں کے ریٹ زندوں سے بھی بڑھ جاتے تھے۔
دوسری جانب آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اپنے اقتدار کے آخری برس رقم کی شدید طلب ہونے اور شاید یہ اپنے آقا آصف علی سندھی یا بی بی مائی فریال کی ڈیمانڈ پوری کرنے کے لیے جی اوسی مری کو ایک اجلاس کے دوران کہا کہ آزاد کشمیر کے یہ مسائل وزیراعظم پاکستان اور وفاقی وزارت خزانہ سے حل کراو¿نہیں تو میری آواز کنٹرول لائن کے اس طرف سے بلند ہو گی۔
حریت اور الحاق کی دکانداری اب زیادہ دیر چلتی ہوئی نظر نہیں آرہی ۔ایک لاکھ کشمیریوں کی جانیں ضائع کرنے کے بعد اب عوام کو بھی سمجھ آ گئی ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل کیسااور کیسے ہونا ہے ۔خود ساختہ وکیل 1947سے آج تک اپنی فیس سے ہزار گناہ زائد وصول کر چکے ہیں عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے ۔اب کشمیریوں کو جتنی دیر غلامی میں رکھا جائیگا اتنی ہی نفرت بڑھے گئی اور ایک دن یہ نفرت کا طوفان پھٹے گا تو سب کو ملیا میٹ کر دیگا ۔پاکستان اور بھارت کو جلد فیصلہ کرنا ہو گا۔