بزرگ سیاستدانوں سے پیشگی معذرت کے ساتھ!!!

مختلف شعبہ ہائے زندگی میں عمر کی ایک بالائی حد مقرر ہوتی ہے۔ اس پر پہنچنے والا ہر شخص ریٹائرڈ ہو جاتا ہے۔ عمر کی بالائی حد مقرر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان چونکہ اب بڑھاپے کی جانب سفر کر رہا ہوتا ہے۔ اور اس میں موجود توانائی کا "بحران” آ جاتا ہے۔ چڑچڑا پن اس کی شخصیت میں آ جاتا ہے۔ اور یوں اس کی اہلیت اثرانداز ہوتی ہے۔ سرکاری اداروں میں یہ قانون ہے کہ عمر کی بالائی حد کو چھونے والوں کو گھر کی راہ دیکھائی جائے۔ مگر یہ قانون صرف سرکاری ملازمین کے لئے نافذ العمل ہے۔ سرکار کے کوچوانوں کے لئے نہیں۔۔۔

ایک سکول کے استاد کی مثال لے لیں کہ جب وہ تیس پینتیس سال کا ہوتا ہے تو اس کا تدریس کا طریقہ بہت ہی اچھا ہوتا ہے۔۔ کسی سوال کی سمجھ نہ آنے پر بار بار بتائے گا اور کوشش کرئے گا کہ جو بھی طریقہ بروئے کار لایا جائے وہ لائے مگر سوال کو احسن طریقے سے سمجھائے۔ مگر جب یہی استاد پچاس سال کا ہو جاتا ہے تو اس کا انداز تدریس تھوڑا بدل جاتا ہے۔ بار بات ایک ہی سوال پوچھنے پر وہ طالب علم کو جھاڑ پلا دیتا ہے۔ یہ اس کا فطری عمل ہے کیونکہ اب وہ بڑھاپے کی طرف سفر کر رہا ہے نہ کہ جوان کی طرف۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے چند سالوں کی بات ہے کہ میں سنٹرل لندن کے ایک کالج میں زیر تعلیم تھا اور بزنس سٹریٹیجیز کی کلاس میں ایک سوال میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ ہمارے بہت ہی قابل پروفیسر صاحب تھے بزنس ایڈمنسٹریشن اور بزنس سٹرٹیجیز پر ان کی بکس بھی اسی کالج سمیت تین اور کالجوں میں پڑھائی جاتی تھیں۔ انھوں نے تین چار بار ایک ہی چیز کو بتایا مگر میرے کند ذہن سمیت تین چار اور لڑکوں کے ذہن میں ان کی بات نہ بیٹھی۔ پروفیسر صاحب بروکس یونیورسٹی لندن سے فارغ التحصیل تھے۔اور 50 سے 55 سال ان عمر تھی۔ انھوں نے کہا کہ اب بریک لیتے ہیں۔ فریش ہو جائیں گے تو ہو سکتا ہے کہ آپ کو کچھ سمجھ آئے ۔۔۔۔ 20 منٹ کی بریک بھی کر لی مگر واپسی پر ہماری سوئی پھر ادھر ہی اڑی رہی۔ کوئی افاقہ نہ ہوا۔ اب پروفیسر صاحب کے کان اور چہرہ لال ہوگیا اور یہ وہ وقت تھا جب وہ غصہ کی انتہائی حالت کو پہنچ چکے تھے۔ مشکل سے انھوں نے اپنے آپ کو کنٹرول کیا۔ بیگ سے پانی کی بوتل نکالی اور دو گھونٹ کے بعد باہر نکل گئے۔

پاکستان میں پروفیسرز چاک بھی مار دیتے ہیں غصے کی حالت میں مگر لندن میں ایسا کرنا جرم ہے۔ شکایت ہر پروفیسر کی چھٹی ہو سکتی ہے۔ اگلا پیریڈ جن پروفیسر صاحب کا تھا انھوں نے نہایت ہی اچھے انداز میں ہمیں متعدد مثالوں کے ساتھ سمجھایا اور ہمیں سمجھ آ گئی۔ ان کی عمر کوئی 35/40 سال کے قریب تھی۔ اور یہ آکسفورڈ سے فارغ التحصیل تھے۔

اب اگر بات زندگی کے دوسرے شعبوں کے متعلق ہو تو وکیل بھی عمر کی بالائی حد تک پہنچ کر ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں یا پھر قابل وکلا کو دشمنی کے سبب راہ سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ لیکن اکثر عمر کی بالائی حد کو چھونے پر پریکٹس چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔ فوجی جوان یا آفیسرز اپنے عہدے کے ایک دورانیہ تک ملازمت کرتے ہیں پھر ان کو بھی ریٹائرمنٹ مل جاتی ہے۔ فوج میں سب سے بڑا عہدہ ایک جنرل کے پاس ہوتا ہے۔ اور پھر وہ بھی ریٹائرڈ ہو جاتا ہے۔ فوج میں آفیسرز انتہائی ذہین اور قابل ہوتے ہیں۔ سٹاف کالج سمیت ملکی اور غیرملکی اداروں سے سند یافتہ ہوتے ہیں۔ مگر ان کی عمر جب بالائی کو پہنچتی ہے تو یہ ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں۔ کھلاڑی 40 /45 سال کے بعد گراونڈ چھوڑ کر کوچنگ شروع کر دیتے ہیں یا پھر سٹیڈیم سے کومنٹری اور کھیلوں پر تبصرے شروع کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔

سیاست ہی دنیا کا وہ واحد شعبہ ہے جہاں عمر کی کوئی حد بندی نہیں۔۔۔۔۔!!۔ ہر عمر میں سیاست ہو سکتی ہے۔ کیا ان سیاستدانوں کا خمیر کسی الگ مٹی سے لیا گیا ہوتا ہے ؟؟؟ کیا اگر ایک استاد، دکاندار، وکیل، فوجی عمر کی مقرر کردہ حد کو چھونے پر ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں تو ان سیستدانوں نے کون سا "آب حیات” پی رکھا ہے کہ ان کے لئےعمر کی کوئی قید نہیں؟؟؟ کیا ان کے دماغ عام انسانوں کی نسبت مختلف اجزا سے تیار کئے ہوتے ہیں ؟؟؟ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک سابق چیف آف آرمی سٹاف کی ایک وڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ ایک ٹی وی کے صحافی کے ساتھ الجھتے دیکھائی دے رہے تھے اور دھمکیاں بھی دے رہے تھے!!! اس کی وجہ ان کی عمر اور پھر برداشت کی کمی جو ڈھلتی عمر کا منہ بولتا ثبوت تھی… مفید اور صحت مند سیاست کے لئے ضروری ہے کہ سیاستدانوں کے لئے بھی عمر کی حدود کا قانون نافذ ہو ۔۔۔۔۔ ہمارے ہاں سیاستدانوں کا المیہ یہ ہے کہ یہ کرسی سے کسی طور اپنی مرضی سے نہیں اترتے۔۔ جب تک ان کو "اتارا” نہ جائے۔۔۔ اس عمر میں خوش قسمت ہوتے ہیں وہ سیاست دان جو طبعی موت مرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے