ایک دور تھا… جب پرنٹ میڈیا سنبھالنا مشکل تھا ، اس پہ آفت آ گری الیکٹرانک میڈیا کی ، ابھی ہم اس نئی آفت کے حوالہ سے چوکنا ہو رہے تھے کہ اوپر سے ایک اور قیامت کا سامنا ہو چلا ۔
سوشل میڈیا : اور سوشل میڈیا پہ بھی من پسند نیوز ویب سائٹس اور نیوز پیچز… ٹیبل پہ بیٹھا ایک فرد دھڑا دھڑ خبریں گڑے جا رہا ہے ، نہ سر ہے نہ پیر جو سوچا اسی کو خبر بنا ڈالا کوئی احساس نہیں ، کوئی فکر نہیں ، کوئی جوابدہی نہیں ، نہ کریڈیبلٹی ، نہ ساکھ اور نہ ہی ریپوٹیشن گرنے کا اندیشہ… چل سو چل ! میری رائے میں اس وقت اگر ایک ویب سائیٹ ایسی بنائی جائے جو اس طرح کی نیوز ویب سائٹس اور نیوز پیچز کو واچ اور ان کے جھوٹ کو لوگوں پہ آشکار کرنے کا کام کرے تو سب سے زیادہ وہ ہٹ ہو!
معذرت کیساتھ ! صحافی حضرات تو اپنی نشر کی خبر کیلئے مہینوں انتظار کرتے ہیں کہ کب وہ سچ ثابت ہو؟ یہاں تو چوبیس گھنٹے میں چوبیس بار موقف بدلنا اور اس پہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنا بنیادی حق سمجھا جا رہا ہے ! احساس ذمہ داری شاید اب اس موسمی جنرنلزم کے دائرہ اخلاق میں آتی ہی نہیں ! الیکشن کا مرحلہ گزرا ، وزارت عظمی کے نام پہ جو لو دو ہوا ، سبھی اس سے واقف ہیں ! ہر کوئی اپنے اپنے وزیراعظم کیلئے کام کر رہا تھا ! ان نام نہاد صحافی برادران نے کوئی عہدہ ایسا چھوڑا نہیں جو اپنے سابقہ پیٹی بھائی مشتاق منہاس کو نہ دیا یا دلایا ہو… پہلے وزارت عظمی کیلئے ہارٹ فیورٹ ! … پھر عہدہ وفاقی وزیر کے برابر… پھر سینئر وزیر ، پھر وزیر تعمیرات اور ابھی پلان بی اور سی کے مطابق سال چھ ماہ بعد وزیراعظم ! کابینہ کی تشکیل کے معاملات میں بھی وہ وہ اندازے پیش کئے گئے کہ نہ پوچھیں !
ہر کسی نے اپنی مرضی کا وزیر اور اس کو مرضی کی وزارت بھی الاٹ کر دی غیر سنجیدگی کی انتہا دیکھیں… فلاں قبیلہ کے اتنے وزیر بن گئے ، فلاں قبیلہ بالکل نظرانداز ، فلاں ڈویژن اور فلاں فلاں اضلاع بالکل نظر انداز !
ہم تو کہتے ہیں یہ نو وزراءبھی زیادہ ہیں ! بجٹ کتنا ہے ؟ آبادی کتنی ہے ؟ اضلاع کتنے ہیں ؟ آپ کے پاس اختیارات ہی کس قدر ہیں ؟
اور ابھی کابینہ میں توسیع کے مژدے سنائے جا رہے ہیں ! خداخوفی کیجئے ! وزیراعظم آزادکشمیر گزشتہ ہفتہ بھر اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا کہ اطراف سے طعنوں کی زد میں رہے ! حقائق بینی کا مظاہرہ کرنا ہو گا ، گراو¿نڈ ریالیٹیز کیا ہیں ؟ ہماری پوزیشن کیا ہے ؟ ہم کس حد تک جا سکتے ہیں ؟ یہ اور اس جیسے دیگر سوالات سے یہ احباب خوب واقف ہوتے ہوئے بھی جانے کیونکر عدم واقفیت کا ناٹک کر رہے ہیں ! بریکنگ نیوز کی دوڑ لگی ہوئی ہے ! اطراف کا موقف جانے بغیر پورا پورا دن خبریں وائرل ہوتی رہتی ہیں ۔ کے بی خان اور راجہ نصیر سے موقف جانے بناءپورا دن خبریں گردش کرتی رہیں ! اور زبان و بیان ایسا کہ نہ پوچھیں ” فلاں کے بیٹے نے رسوا کر دیا “
فلاں قبیلہ کو نظر انداز کر دیا گیا…
او بھائی لوگو ! اگر خبر چلانے کا اس قدر بخار ہے تو کے بی خان سے یا راجہ نصیر سے رابطہ کر لیں وہ کونسے برمودہ ٹرائی اینگل میں چلے گئے ! ادھر ہی تو ہیں ،ان کا موقف سامنے آ جاتا ، آپ کی کریڈیبلٹی بڑھ جاتی ! پھر وہی ہوا دوسرے دن دونوں لوگوں نے تردید ہی نہیں بلکہ یہاں تک کہا کہ ایسا کچھ ری ایکشن انہوں نے دیا تک نہیں بلکہ سوچا تک نہیں ! حکومت کو ہفتہ عشرہ دیں ، ایک آدھ ماہ دیکھیں !
پھر شکوہ شکایات اور احتساب کی باتیں بھی بھلی لگیں گی ! میڈیا کے کام اور طریقہ کار میں اور ایک سوکن کے طریقہ کار میں فرق ہونا چاہیے ! براہ مہربانی ! وزیراعظم فاروق حیدر کو کام کرنے دیں !