14 اگست۔۔ تجدیدِ عہد یا تجدیدِجُہد

14 اگست 1947 ہندوستان کی تاریخ کا وہ عہد ساز دن۔۔جس دن جب دو نظریات نے ایک ہی ملک کے باسیوں کو دو الگ الگ مملکتوں میں تقسیم کردیا۔ وہ دن جب ہندوستان میں ہزارسال سے زائد ایک ساتھ رہنے والے ہندو اور مسلمان صرف عقیدے اور نظرے کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ابدی مخالف ہوگئے۔ جب ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں نے اپنے ہی گھروں اور جائیدادوں کو چھوڑ کر اس امید کے سے ملک کے بٹوارے پر لبیک کہا۔ کہ وہ ایک ایسے مملکت کی بنیاد رکھ رہے ہیں، جہاں اسلام کے آفاقی اور انسانی نظرے کی بنیاد پر انسانیت خوشحال اور مذہب کے پالن میں آزاد ہوگی۔ ایک ایسا ملک جہاں اسلام اور قرآن کا آفاقی اعلان… کہ ہم نے انسان کو قابلِ عزت و احترام بنایا۔۔۔ القرآن

ہم اپنی عملی زندگی میں نافذ ہوتا دیکھ سکیں گے۔ ایک ایسا ملک جہاں اللہ کے ماننے والے اللہ کا یہ فرمان کبھی نہ بھولیں گے۔جب اللہ نے اپنے ہی پیارے محبوبﷺ سے مخاطب ہوکر کہا۔۔۔ کہ (اے نبی!!) کہ اگر یہ لوگ( غیر مسلم) اپکے نظریات سے اتفاق نہیں کریں گے یعنی نہیں مانیں گے تو کیا آپ ان سے نفرت کریں گے؟؟؟؟( مطلب آپ ایسا ہر گز نہیں کریں گے)،۔

ان سب امیدوں اور آرزؤں کے ساتھ اس ملک کی بنیاد ایک ایسے انسان نے اپنے رفیقوں کے ہمراہ ڈالی جو کہ اپنوں اور پرایوں کی نظر میں ایک سچا انسان تھا۔ اور انکے اس مقام تک پہنچنے سے پہلے اس فکر و آرزو کے لئے آزادی کے متوالوں نے ۱۸۵۷ کی جنگِ آزادی سے لے کر ۱۹۴۷ تک قربانیوں اور بہادریوں کے کئی تاریخ رقم کردئے تھے۔کہیں شا ملی اور تھانہ بھون کے آزادی کے مجاہد ہیں۔ کہیں فتح علی ٹیپو سلطان ہیں۔کہیں سراج الدولہ کی بہادری کی داستان ہے۔ تو کہیں تحریک ریشمی رومال کے بہادروں کی داستانیں کالا پانی کی کال کوٹھڑیوں میں آج بھی تابندہ ہیں۔کہیں تحریک ترکِ موالات کے جان نثار ہیں اور کہیں جلیانوالہ باغ کے شہید ہیں۔ عملی جدوجہد کی انمٹ داستانیں ۔۔ تب جاکر یہ مملکتِ خداداد معرضِ وجود میں آیا۔

لیکن آج69 سال گزرنے کے بعد بھی ملک کی حالت دیکھ کر مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ ہم نے بحثیت قوم اپنے اکابر اور آزادی کے ان جان نثاروں کے ساتھ وفا نہیں کی۔ ہم نے انکے قربانیوں کو رائیگاں جانے دیا۔ نہ نظریات ملک میں پروان چڑھے۔ نہ ہی اسلام کے آفاقی انسانی اقدار ہم دنیا کو دکھاسکے۔ ہم نے نہ قومی وقار کا پالن کیا اور نہ ہی قائد کے فرمانوں کا لحاظ رکھا۔ شاید یہی تکلیف دہ حالات دئکھ کر مجھے یہ کہنا پڑھا۔

ہم نہ قوم و وطن نہ ہی رب کے ہوئے ظلم یہ ہم مگر باقی سب کے ہوئے۔

ٓآج پھر آزادی کا جشن ہم تجدیدِ عہد کے ساتھ مناتے ہیں جس طرح ہم پچھلے ۶۸ سالوں سے تجدیدِ عہد کا منافقانہ عمل صرف میڈیا میں لفاظی کی حد تک د ہراتے چلے آرہے ہیں۔ لیکن عمل کا نام و نشان تک آزادی کے مفہوم کے حوالے سے کہیں نظر نہیں آتا۔

ہماری آزادی کا جشن صرف میڈیا پر چند ملی نغموں اور ٹی وی اور سیاست کے میدان کے چند تجربہ کار افراد کے مخصوص الفاظ کے اظہار کا نام ہے۔ہماری جشنِ آزادی وزیرِ اعظم اور صدرِ مملکت کے کسی کے قلم سے لکھی ہوئی روایتی پیغامات کا نام ہے۔ ہماری جشنِ آزادی ہماری مسلح افواج کی اپنی فوجی صلاحیتوں کو دکھانے کا نام ہے۔ اور سبز جھنڈیوں اور برقی قمقموں سے گھروں اور محلوں کو سجانے کا نام ہے۔ جیسے 14 اگست گزرا ایسے کہانی ختم جیسے کوئی اس دنیا سے چل بسا اور باقی سب اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔
لیکن آزادی کا جو مقصد اور مفہوم تھا کیا اسکے قریب بھی ہم جانے کے لئے تیار ہیں؟؟؟ کیا اس ملک میں بنیادی اظہارِ رائے کا حق سب کو حاصل ہے۔؟؟کیا ا س ملک میں بسنے والے لاکھوں بلکہ کروڑوں مفلس انسان بنیادی حقوق کے حقدار قرار پائے؟؟؟ کیا قائدکے فرمان کے مطابق یہاں شخصی اور انسانی آزادی جو کہ ہمارے دین کا نصب العین ہے۔ سب کو حاصل ہے؟؟کیا ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے ملک میں ایک پُر امن ماحول اور پُر امن معاشرہ قوم کو دے سکے۔ایک نظریاتی مملکت میں کیا نفرت اور عداوت کی سیاست ختم ہوپائی۔ ہندو سے عقیدے کی بنیاد پر الگ ہوکر کیا سب کلمہ گو یہاں ایک ہیں؟؟؟ کیونکہ یہی پاکستان کا مقصد تھا۔ یا پھر فرقے اور مسلک کی بنیاد پر یہاں کی دشمنیاں دیکھ کر آج اغیار بھی ہم پر خندہ زن ہیں؟

یہ ایک تلخ حقیقت ہے جوکسی کو تو کہنی ہے۔ آزادی کا جشن منانے کا مزہ تب آتا ہے۔ جب قوم حقیقی آزادی کے منزل پر پہنچھ چکی ہو۔ یا پھر اسکی جانب تیزی سے رواں دواں ہو۔ لیکن ہم تو بدقسمتی سے نہ جانے کس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ میں مایوس نہیں۔ کہ ہم اپنی جدوجہد کی بنیاد پر تلاش کرنے والی منزل کھو بیٹھے۔ قوموں کی زندگی میں ایسے موڑ آتے ہیں۔ لیکن ایسے حالات میں اپنی خامیاں اور منزل دونو ں اگر سامنے نہ ہوں تو سفر اور طویل ہوجاتا ہے۔

ہمیں آزادی کے اس مقدس دن پر تجدیدِ عہد نہیں بلکہ تجدیدِ جہد کرنے کا عزم کرنا ہوگا۔ وہ جد و جہد جو ہمارے اسلاف نے کی تھی۔ وہ محنت اور کام کام اور بس کام کا عزم جو قائد کا شیوہ تھا۔ تجدیدِ عہد کرکے ہم خیانت کے کافی مرتکب ہوچکیے ہیں۔ لہذا اب ہمیں تجدیدِجہد کا عزم کرنا ہوگا۔ عملی میدان میں کچھ کرنا ہوگا اور اپنے منزلِ مقصود کی طرف بڑھنے کے لئے اپنے اسلاف کی طرح ملک و ملت کے لئے
قربانی دینی ہوگی۔

ورنہ پچھلے کئی جشنِ آزادی کی طرح یہ بھی راویتی طور پر گانوں، نغموں، وعدوں ، عہدوں اور جذباتی تقریروں سے بھر پور گزرجائیگا۔ لیکن اس قوم کی تقدیر بدلنے میں اس جشنِ آزادی کا کردار رسمی اور لفاظی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ اور مجھے جالب پھر رہ رہ کر یاد آتا رہیگا

کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری کہاں بدلی ہیں تقدیریں ہماری
گھروں کو چھوڑ کر جب ہم چلے تھے ہمارے دل میں کیا کیا ولولے تھے
مسلط ہے سروں پر رات اب تک وہی ہے صورتِ حالات اب تک
نہ چاٹیں گی ہمارا خوں مشینیں بنیں گی رشکِ جنت یہ زمینیں
نہ لوٹے کا کوئی محنت کسی کی ملے گی سب کو دولت زندگی کی
یہ سوچا تھا کہ امنا راج ہوگا سرِ محنت کشا پر تاج ہوگا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے