جشن آزادی…

میرے بچپن میں اگست کے شروع سے ہی پاکستانی پرچم، جھنڈیاں، بیجز سٹیکر اور اس قسم کے چھوٹ آرٹیکلز کے سٹال لگا کرتے تھے بڑے اہتمام کے ساتھ پاکستانی پرچم خریدا جاتا اور پانی کی ٹینکی کے اوپر ٹی وی ایریل کے قریب جھنڈا لہرا دیا جاتا۔ چودہ اگست سے پہلے پہلے جھنڈیوں کو موسلی سے سوتر کے ساتھ چپکایا جاتا اور لمبی لمبی لڑیاں بنائی جاتیں جو 13اگست کو اپنے صحن میں ٹانکتے۔ بیجز لازمی لگاتے اور 14اگست تک میری سائیکل بھی جھنڈے والی ہوتی تھی بس کوئی پروٹوکول ساتھ نہیں ہوتا تھا۔

پی ٹی وی کا زمانہ ہوا کرتا تھا، اگست کے آغاز سے ہی "نئے” ملّی نغمے نشر کیے جاتے تھے۔ اس وقت چونکہ چھٹیاں ہی ہوتی تھیں اور سکول یکم ستمبر کو ہی کھلتے تھے اس لئے 14اگست کو خصوصی طور پہ پریڈ دیکھنے صبح اٹھنے کا اہتمام کرتے۔ جشن آزادی کی سرکاری تقریب، سہیل رانا اور اس کی بچوں کی ٹیم ملی نغمے گاتی، تقریب کے اختتام پہ ترانہ بجایا جاتا تھا جوکہ ہم اپنے گھروں میں کھڑے ہو کہ سنتے بلکہ ساتھ پڑھتے بھی تھے۔ (کچھ کچھ یاد ہے کہ ٹی وی پہ اعلان کرکے ترانے کا وقت بتایا جاتا تھا کہ فلاں بجے ترانہ ہو گا جو جہاں موجود ہو ترانے کے احترام میں کھڑا ہو جائے۔ )

14اگست کی رات کو ہم چھت پہ دیےجلاتے اور انھیں خاص طور پہ چاند اور ستارے کے ڈیزائن سے رکھتے کہ جب دیے روشن ہوں تو چاند ستارہ نظر آئے۔ پی ٹی وی پہ اس دن خاص طور پہ ان لوگوں کے انٹریوز لگتے جنھوں نے آزادی کی تحریک میں حصہ لیا ہو یا وہ ہجرت کرکے پاکستان پہنچے ہوں۔ ان کے عزم ان کے حوصلے اور ان کی قربانیاں ان کے لہجوں میں بولتی تھیں۔(یا شاید اس وقت ایسا محسوس ہوتا تھا)۔ پی ٹی وی پر بھی آزادی کے حوالے سے خصوصی ڈرامے ہر سٹیشن سے لگتے اور خاص طور پہ طویل درانیے کا ڈرامہ لاہور یا کراچی سٹیشن سے ہو اس کا بہت انتظار ہوا کرتا تھا۔ اورہاں 13 یا14 اگست کو اگر ابو پاکستان موجود ہوتے تو ہم شام کو باہر "بتیاں” دیکھنے بھی جاتے تھے۔ (مخصوص عمارتوں کو لائٹنگ سے سجایا جاتا تھا)۔ ان چودہ دنوں میں ہمارے والدین، ہمارا ٹی وی،ہمارا بازار، ہمارا رسالہ اور کتابیں ہمیں آزادی کی اہمیت سے متعارف بھی کرواتے اور یہ بھی کہ اس آزادی کے لئے کیا جدوجہد کی گئی کتنی قربانیاں دی گئیں اور اس آزادی کو نعمت سمجھ کر اس کی حفاظت ہم نے کرنی ہے۔

پھر ہم بڑے ہو گئے 13اور14اگست کی رات لڑکوں نے ون ویلینگ اور ہلڑ بازی کرنی ہوتی ہے اس لئے ماحول باہر جانے والا نہ رہا، پی ٹی وی کی جگہ چینلز کے سیلاب نے لے لی جو اگست کے آغاز میں اپنے "لوگو” سبز رنگ تو کر لیتے ہیں۔ لیکن آزادی کا تصور، اور آزادی کی جدوجہد کی تاریخ نئی نسل کو منتقل کرنے میں ناکام ہیں اتنے چینلز ہیں جہاں نئے ملّی نغموں کو بنانے اور ریلیز کرنے کا تصور ختم ہو گیا ہے۔ اس دفعہ کوک سٹوڈیو نے پرانے ملی اور جنگی نغموں کو نئے لوگوں سے گوا کر گویا نئی بوتل میں پرانا مشروب ڈال کر کارنامہ کیا۔اس موضوع پہ سنجیدہ ڈرامے بھی بننا تقریباً بند ہو چکے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے داستان ڈرامہ(ناول سے ماخوذ تھا) جدوجہد آزادی پہ بنا لیکن ہو بھی انڈین فلموں کی طرح ایک لو سٹوری میں ریپ کرکے ہی نئی نسل کو دیا گیا۔ کیا نوجوان اتنے کوڑھ مغز ہو گئے ہیں کہ اب موضوعاتی ڈرامے نہیں بن سکتے آپ کو کوئی تاریخ یا پیغام دینا ہے تو لوسٹوری میں پیکٹ میں ہی ڈال کر بیچو؟ اب یوم آزادی کی خصوصی سرکاری تقریبات رات کو ہونے لگیں بلکہ ماضی قریب میں تو یوم آزادی کی سرکاری تقریب ایوان صدر کے بند کمرے میں پہلے ہی ریکارڈ ہو گئی اور 14اگست کو خانہ پری کے لئے سرکاری ٹی وی پر نشر کی گئی ، جبکہ باقی چینلز بتا رہے تھے کہ صدر صاحب ملک سے باہر تشریف لے جا چکے ہیں۔ اس دفعہ تو اغوا کار مافیا سرگرم ہے کوئی غیر سرکاری تقریب ہونا اور وہاں بچوں کو ساتھ لے جانے کا تصور بھی محال ہے۔ جھنڈیاں خریدنا، بنانا اور سجانا بھی کہیں گم ہو گیا، جشن آزادی کے سٹالز اب بھی لگتے ہیں سبز و سفید رنگ کے کف، آستینیں، وگ، کیپ، عینکیں اور پتہ نہیں کیا کیا۔بچوں کے ساتھ ساتھ ہر بڑے کپڑوں کے برانڈ پر خصوصی طور پر لیڈیز اینڈ جینٹس آزادی کُرتے بلکہ مکمل سوٹ دستیاب ہیں ۔اور بس یہی نہیں ہر برانڈ 20%, 25% ڈسکاؤنٹ بھی دی رہا ہے، ہر آؤٹ لیٹ پہ ملی نغمے بج رہے ہیں۔ آزادی کی تقریب کا مطلب سبز سفید لباس پہن کر گانا بجانا اور ناچنا اور ہلڑ بازی ہی رہ گیا ہے۔

عسکری اور سیاسی کشمکش میں ایک دوسرے نیچا دکھانے کی خواہش میں نظریہ پاکستان کھو گیا۔ ایک ضیا الحق کے قائداعظم،نظریہ پاکستان اور تاریخ پاکستان، دوسرا لبرلز کے قائداعظم، تاریخ پاکستان اورنظریہ پاکستان۔ بلکہ اب تو ہم بیانہ بیانہ کھیلتے ہیں۔ کھبی دو قومی نظریہ اساس تو کبھی یہی دو قومی نظریہ شدت پسندی۔ کبھی 1965کی جنگ ہندوستان نے مسلط کی اور ہم نے بھرپور کاروائی سے دشمنوں کے دانت کھٹے کیے۔ تو کبھی 1965 کی جنگ ہماری اپنی کارستانی،انڈیاسرحدیں خالی دیکھ کے دھوکا سے واپس چلا گیا۔ اس کھینچا تانی میں ہم نوجوان نسل کو صرف ہیجان منتقل کر رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے