بچپن سے ہی اسکا شمار اپنی کلاس کے نما یاں طالب علموں میں ہوتا تھا۔جسمانی طور پر کمزور اور اپنے ساتھی کلاس فیلوز سے عمر میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس کو سکول میں تضحیک کا نشانہ بنایا جانا معمول کی با ت تھی۔اپنی جسمانی ہیئت تو اسکے اختیار میں نہ تھی ،ایک محنت ضرور اسکے ہاتھ میں تھی جس کی انگلی پکڑ کر اس نے بہت حد تک اپنے آپ کو طنز کے ان تیروں سے بچا نا شروع کردیا جوہر وقت اسکا کلیجہ چھلنی کئے رکھتے تھے۔وقت گزرتا گیا اس کا امیج ایک کتابی کیڑے کے طور پر بنانا شروع ہوگیا۔امتحانات میں پے در پے کامیا بیوں اور ان پر بجنے والی تالیوں نے اس پر ایک نئی طرح کا دبا ؤ ڈالنا شروع کردیا ۔اب اسے اپنا امیج قائم رکھنے کے لئے ان تمام غیر نصابی سرگرمیوں سے دست بردار ہونا پڑ رہا تھا جو عمر کے اس حصہ میں جسم کے لئے بہت ضروری ہوتی ہیں۔وہ ان توقعات کے بوجھ تلے دبا ہوا ایک کے بعد دوسری امیدیں پوری کرتا گیا جو اس کے والدین ، اساتذہ اور ساتھی طالب علم اس سے باندھے ہوئے تھے ۔زندگی کا یہ فیز اس کے لئے بہت مشکل تھا۔ نمایاں پوزیشن کے ساتھ سکول سے کالج کا سفر تو طے ہوگیا لیکن کالج میں اسکی اس مہین سی کتابی کیڑے جیسی شخصیت کو آئن سٹائن کا خطاب مل گیا جو پھر جب تک وہ کالج میں رہا تب تک یہ میڈسائنٹسٹ ٹا ئٹل اسکی پہچان بنا رہا۔ہر کوئی وہاں اسے تمسخر یا تحسین کے ملے جلے انداز میں مخاطب کرتا رہا۔اس وقت اس نے فیصلہ کیا کہ نارمل زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہے کہ بندہ لو پروفائل (low profile) رہے۔نمایاں اور دوسروں سے مختلف رہنے کی بعض اوقات جو قیمت چکا نی پڑتی ہے وہ بہت مہنگی ہوتی ہے۔اگلے پانچ سے چھ سالہ تعلیمی کیریئر میں وہ اوسط درجے کا طالب علم رہا اور اس کی گردن کسی خاص سٹیریو ٹائپ کے پھندے سے بچی رہی۔
یہ تو صرف ایک لائق سٹوڈنٹ کے زمانہ طالب علمی میں امتیازی سلوک کا شکار ہونے کی کہانی ہے لیکن یہ ہمارے اس معا شرتی رویے کی بھرپور عکاسی کرتی ہے جو ہم اپنے کامیاب،قابل اور اپنے سے مختلف(different) افراد کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔اس طرح خاص قسم کے لوگوں کے بارے میں ایک لگا بندھا تاثر قائم کرنے کو سٹیریو ٹائپنگ (stereotyping)کہا جاتا ہے۔اس کو ایسے سمجھا جا سکتا ہے جیسے ہماری ایک عادت اپنے استعمال کی چیزوں کو درجہ بندی (category)کے حساب سے ترتیب میں رکھنے کی ہے۔ آپ کسی سپر سٹور میں چلے جائیں یا کسی پرچون کی دکان پر، آپ کو ایک ترتیب نظر آئی گی ۔سپرسٹور میں بسکٹس کے لئے ایک علحیدہ سیکشن ہوگا اور پرچون کی دکان میں ایک خانہ مختص ہوگا۔یہ نہیں ہوگا کہ بسکٹس کے ساتھ چاکلیٹس مکس ہوئی پڑی ہیں۔یہ ترتیب ایک تو ہمارا ٹائم بہت بچاتی ہے ، دوسرا یہ کہ ہم کسی قسم کی کنفیوشن کا شکار نہیں ہوتے ہیں اور مطلوبہ چیز ہمیں جگہ سے مل جاتی ہے جاتے ہیں ۔سہولت اور آسانی کے لئیاشیاء کو خانوں میں بانٹنا صرف انھیں تک محدود رہے تو کوئی قابل اعتراض امر نہیں ہے لیکن یہ سلوک اگر انسانوں کے ساتھ روا رکھا جانے لگے اور ہم ان کو بھی خانوں میں بانٹ کر ان کاسٹریو ٹائپ اپنے ذہن میں بنا لیں کہ ان سے بھی طے شدہ منفی یا مثبت پہلوؤں کے حوالے سے ہی پیش آیا جائے تو یقیناًیہ افسوسناک بات ہے۔
ہمارے ہاں یوں تو بہت سے سٹریوٹائپ سماجی سطح پر تضحیک کا شکار ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ لفظ مولوی اور جن پر یہ نام چسپاں ہو جائے ، وہ عتاب کا شکار رہتے ہیں۔ شروعات تو کسی کے شیو بڑھنے اور مذہب کی طرف راغب ہونے سے ہوتی ہے۔صوم وصلاۃ کی پابندی اور حلیہ کی تبدیلی ، دوسروں کو کیا اپنوں کو بھی گوارا نہیں ہوپاتی اور ایسے تاک تاک کر جلی کٹی باتیں لگائی جاتی ہیں کہ مخاطب کے دل پر جو گزرتی ہے وہ یا خود یا اس کا خدا ہی جانتا ہے۔ ایک طرف ان نئے نویلے مولوی صاحب سے تقوی اور پا رسائی کا وہ سنہری معیار(gold standard) توقع کیا جاتا ہے جو شاید بزرگان دین کی منقبتوں میں بھی درج نہیں ہے۔ دوسری طرف بھر پور زور لگایا جاتا ہے کہ بنا سپتی مولوی صاحب کو یہ احساس دلایا جائے کو وہ اس معاشرے کے لئے بلکل مس فٹ(misfit) ہیں ، ان کی عا دات اور حلیہ کی یہ تبدیلی کسی طرح بھی ان کے اردگر د کی کمپنی کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ جب تک ان کی توبہ ریورس نہ ہوجائے اور پرانی روش پر چہل قدمی نہ لوٹ آئے ,تضحیک (mocking) کا یہ سلسلہ جاری رہتاہے۔یہ تو ذکر ہے مذہب کی طرف مائل افراد کے ساتھ رویے کا، اس سے زیادہ حقارت آمیز رویہ اصلی مولوی صاحبان کے ساتھ بر تا جاتا ہے۔ میڈیا ، لٹریچر اور دانشور ملک کی ساری بد حالی ، دقیا نوسیت ،کرپشن، اور دہشتگردی کا زمہ دار اس طبقہ کو قرار دیتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی اکثریت صرف نماز، نکاح ، جنازہ ، قل اور قران شریف پڑھانے سے زیادہ کوئی اور کام نہیں کرتی ہے یعنی اوپر بیان کئے گئے مسائل سے ان کا دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔انتہائی کم تنخو اہ پر فی سبیل اللہ کام کرنے کے با وجود ایک تو ان کو صبر و شکر کا کریڈٹ کوئی دیتا نہیں ہے اوپر سے معاشرے کی ہر گراوٹ اور پستی کا ذمہ دار انھیں قرار دے کردوسرے کر تا دھرتاؤں کو بڑی ڈھٹائی سے بری ذمہ کر دیا جاتا ہے ۔
یہ ذکر تو صرف ایک نمایاں سٹریوٹائپ اور اس سے برتے جانے والے تعصب کا ہے ، اس طرح کے ان گنت سٹریوٹائپ ہمارے ہاں نفسیاتی اور سماجی استحصال کا شکار ہے۔ہمارے ان سے رویہ میں بہتری تب آنا شروع ہوگی جب ہم پہلے ان سٹریو ٹائپس کو ان کے روایتی منفی پہلوؤں کے حوالے سے دیکھنا کم کریں گے۔ان کی انفرادیت کو مذاق کانشانہ بنانے کی بجائے سنجیدگی سے ان کی اہمیت اور افادیت کوتسلیم کریں گے ۔اگر ان کی معاشی یا کسی اور حوالہ سے مدد نہیں کی جاسکتے ہوگے تو کم از کم ان کیعزت نفس مجروح کرنے سے باز رہیں گے۔ حرف آخر یہ کہ جب تک ان کو اپنے معاشرے کا حصہ سمجھنے کی سوچ ہمارے ہاں پروان نہیں چڑھے گی تب تک ہماری سوسائٹی آج کی طرح علحیدہ خانوں میں بٹ کر ہمیشہ نفرت اور انتشار کا شکار ہی رہے گی۔