ریاست ہو گی ماں کے جیسی

آج شاید مائیں گھروں سے نکلتے بیٹوں پر آیت الکرسی کا ورد کر کے پھونک مارنا بھول گئی تھی۔ بہنیں شاید دعاؤں میں اپنے بھائیوں کی لمبی حیاتی کی دعا مانگنا فراموش کر گئی تھی۔ ننھے منے بچے آج اپنے بابا سے جلدی واپس آنے کا وعدہ بھی نہیں لے پائے تھے۔ دروازے تک چھوڑنے آنے والی دلربا کی شرمیلی مسکراہٹ بھی گھر واپس آنے پر مجبور نہ کر پائی۔۔

دوسروں کو انصاف دلانے والے اپنی موت کی دلیل تک نہ ڈھونڈ پائے۔ ہنستے مسکراتے گھروں سے نکلتے وقت کس کافر نے سوچا تھا کہ ہر اٹھتا قدم موت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ زندگی کی پلاننگ، خواب اور خواہشات سب مٹی ہونے کو ہیں۔ صبح سویرے یہ چمکتی دھوپ سرخ لہو میں ڈوبے دن کو لیے رخصت ہو گی۔

زندگی کا ہر گزرتا دن نئی خواہش نئے خواب کو جنم دیتا ہے جن کو پورا کرنے کی تگ و دو میں زندگی کے روزوشب گزرتے جاتے ہیں۔ ہماری پلاننگ میں سبھی کچھ ہوتا ہے سوائے موت کی پلاننگ کے۔۔ ان کے ساتھ بھی تو یونہی ہوا ہوگا۔ بہت سے خوابوں خواہشوں کے تعاقب میں ابھی موت کا تذکرہ نہیں ہو گا۔

کوئی گھر میں سب سے بڑا ہو گا جس پر پورے گھر کی ذمہ داری ہو گی اور کوئی سب سے چھوٹا سب سے لاڈلا۔۔ کوئی ماں باپ کا اکلوتا سہارا ہو گا اور کوئی بہنوں کا واحد آسرا۔۔ کسی کے ننھے منے بچے ہوں گے اور کوئی اپنی جوان ہوتی اولاد کو دیکھ کر رب کا شکر بجا لاتا ہو گا۔۔ کسی نے مزید پڑھنا ہو گا۔۔ کسی نے آگے بڑھنا ہو گا۔۔

سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے دوران اعتزاز احسن نے نظم لکھی تھی جس کا ہر شعر ایک نئی امید کا پیغام دیتا تھا مجھے یاد ہے انہوں نے وعدہ کیا تھا
ریاست ہو گی ماں کے جیسی
ہر شہری سے پیار کرے گی
پر معذرت کے ساتھ اعتزاز احسن صاحب آپ جھوٹے تھے یہاں ماووں کی گودیں اجڑ رہی ہیں یہاں خواب بکھر رہے ہیں یہاں نسلیں تباہ ہو رہی ہیں۔۔

چودہ اگست بھی قریب ہے اراکین پارلیمنٹ تو کہہ رہے تھے اب کی چودہ اگست بہت عرصے بعد ہم امن و امان کی بحالی کے بعد منائیں گے ہم نے قربانیاں دے کر ملک میں امن و امان کے کی کوشش کی مگر سب جھوٹ کہتے ہیں قربانیاں کا سلسلہ تو اب بھی جاری ہے کدھر ہے امن کہاں ہے وہ تحفظ جس کو یقینی بنانے کی کوششیں جاری تھی۔۔

سانحہ پشاور، سانحہ چارسدہ، سانحہ لاہور اور اب سانحہ کوئٹہ۔۔ مرنے کا خوف ہی ختم ہو گیا شاید ایسے ہی دھماکے میں ہم بھی مر جائیں کہیں بھی آتے جاتے۔۔ مگر کاش یہ بہتا خون کبھی تو رنگ لے آئے۔۔ سیاست کرتے کرسی کے پیچھے لڑتے مرتے اور خود پروٹوکول کے ساتھ سفر کرتے، گرمی میں مری اور لندن بھاگتے حکمران کچھ تو سبق سیکھ لیں۔ مرنے والوں کے جنازوں پر جا کر تسلی دلاسے دینے کے بجائے زندہ رہنے والوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنا دیں۔۔ کاش یہ آخری سانحہ ہو کاش اس کے بعد کسی کی ماں کی گود نہ اجڑے کاش کسی بہن کا بھائی ایسی ناگہانی موت نہ مرے کاش کسی کا سہاگ نہ اجڑے کاش کوئی بچہ یوں یتیم نہ ہو۔۔ کاش۔۔ کاش۔۔ کاش۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے