خواب سے تعبیر تک

میں اُس آ ہنی کنٹینر میں داخل ہوا تو رات کا وقت ہونے کے باوجود اسکی دیواروں سے نکلتی حدت ناقابل برداشت تھی۔میں آناََ فاناََ مزید پسینے میں شرابور ہوگیا۔ چند کرسیاں اور ایک چرمی نشست اس کنٹینر کی کل متاع تھی۔ داہنے کونے میں ایک انتہائی مختصر باتھ روم اور بائیں کونے میں ایک تنگ زینہ جو چھت پر جانے کا ذریعہ تھا۔ یہ زینہ اتنا تنگ تھا کہ ایک وقت میں ایک ہی آدمی بمشکل گزر سکتا تھا۔ چند منٹ میں ہی میں اس جیل نما کمرے سے گھبرا کر باہر نکل آیا۔
اگلا پورا دن جھلسا دینے والی دھوپ میں اِس کنٹینر پر اُس آدمی نے پشاور سے اٹک تک کا سفر کرنا تھا جس کے پرستار دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں۔ جس کے ایک اشارۂ ابرو پر لاکھوں حسینائیں نثار ہوتی تھیں۔ جو چاہے تو گرمیا ں سوٹزرلینڈ میں اور سردیا ں دنیاکے کسی بھی سمندر کے ساحل پر گزار سکتا ہے۔ جسے اللہ نے وہ شہرت اور عزت دی جس کا تصور شائد ہی دنیا میں کوئی کرسکتا ہو۔ وہ چاہے تو دنیا کی ہر آسائش اس کے تلووں میں ہو۔ لیکن اس نے دنیا کے سب عیش و آرام اپنے ملک اور اپنے لوگوں کی خوشحالی کے لیئے تج دیئے۔

صبح اس نے زکوڑی پل سے اپنی ریلی کا آغاز کرنا تھا۔ اس کے آنے سے پہلے میں وہاں موجود تھا۔ اس نے جب سے اس ریلی کا اعلان کیا تھا میں نے تیاری پکڑ لی تھی کہ میں بھی جاؤں گا ۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ کتنے لوگ شریک ہونگے اور کیوں شریک ہونگے۔ زکوڑی پل پر اس کے آنے سے پہلے ہی اس قدر ہجوم تھا کہ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ ہر عمر کا آدمی وہاں تحریک انصاف کا جھنڈا گلے میں ڈالے آگ برساتے سورج سے بے نیاز عمران خان کی آمد کا ایسے منتظر تھا جیسے مرید اپنے مرشد کے لیئے۔ کچھ ہی دیر میں کنٹینر وہاں پہنچ گیا۔ اس کی چھت سے عمران خان نے لوگوں سے خطاب کیا اور پھر اپنے اگلے پڑاؤ کی جانب روانہ ہوگیا۔ اگلا منظر میرے لیئے نہ صرف نیا تھا بلکہ انتہائی حیران کن بھی تھا۔ ہزاروں لوگوں کنٹینر کے ساتھ ساتھ پیدل چل پڑے۔ اور کنٹینر کے پیچھے ٹرکوں ویگنوں بسوں اور کاروں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسہ۔ میں بھی پیدل چل پڑا۔ میرا خیال تھا کہ پیدل میں بہتر مشاہدہ کر سکوں گا۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد میرے مشاہدے کے سب منصوبے ہوا ہو گئے۔میں سر تا پا پسینے میں شرابور ہو چکا تھا۔ گرمی اتنی کہ جیسے سورج محاورتاََ نہیں حقیقتاََ سوا نیزے پر ہو۔ حدت سے مجھے اپنا سانس بند ہوتا ہو امحسوس ہوا۔ لیکن پیدل چلنے والے لوگ عمران خان کے نعرے لگاتے یوں شاداں و فرحاں چلے جارہے تھے جیسے مارننگ واک کر رہے ہوں۔ اور کنٹینر کی چھت پر گرمی سے بے نیاز عمران خان مسلسل ہاتھ ہلا کر ان کے نعروں کا جواب دے رہاتھا۔میری حالت مگر غیر ہو چکی تھی اور میرے ساتھیوں کی گاڑی اس اژدھام میں کہا ں تھی کچھ معلوم نہ تھا۔ اس پہلے کہ میں غش کھا کر گر جاتا میں نے سامنے سے گزرنے والی ایک گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا۔ ڈرائیور کی طرف سے مثبت جواب پا کر میں لپک کے گاڑی میں سوار ہو گیا۔ اُف ۔۔۔ یخ بستہ گاڑی میں جیسے مجھے چین مل گیا ہو۔ ڈرائیو کرنے والے نے فوراََ مجھے پانی دیا جسے پی کر جان میں جان آئی اور میرے اوسان بحال ہوئے ۔ میں نے ڈرائیور کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ رش میں میرے دوست آگے نکل گئے ۔ اگر آپ ریلی کے اگلے پڑاؤ تک مجھے ساتھ لے جائیں۔۔۔۔ ان صاحب نے اپنا نا م خالد کمال بتایا۔ وہ کسی پینٹ بنانے والی کمپنی کے ریجنل مینیجر تھے اور ان کا دائرۂ کار کے پی کے سے افغانستان تک تھا۔ کہنے لگے آپ آرام سے بیٹھیں اچھا ہے مجھے بھی کمپنی مل گئی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ ریلی میں شریک ہیں یا کہیں اور جا رہے ہیں ۔ بولے میں اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہنے آیا ہوں۔ میں نوشہرہ تک ان کے ساتھ آیا اور نوشہرہ تک میں نے جو دیکھا اور خالد کمال سے جو میری باتیں ہوئیں میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔ مجھ پر ایک نئی دنیا کے دروازے وا ہوئے۔ اور مجھے ان چیزوں پر یقین ہو گیا جن کا میں عملاََ تصور نہیں کرتا تھا۔

خالد کمال پشاورکا رہائشی اور ایک ادھیڑ عمر شخص تھا۔ وہ ایک خوشحال اور آسودہ آدمی تھا۔ ایئر کنڈیشند ہونڈا سٹی میں سوار تھا۔ وہ چاہتا تو اپنے گھر میں اے سی لگا کے اتوار کی چھٹی آرام سے گزار سکتا تھا۔ لیکن وہ عمران خان کی آواز پر گھر سے نکل آیا تھا۔ اس نے گاڑی کا ٹینک پٹرول سے فل کرایا اور ریلی میں شریک ہوگیا۔ وہ عمران خان کے کنٹینر سے بہت پیچھے تھا۔ اسے معلوم تھاکہ نہ وہ عمران خان کو دیکھ سکے گا اور نہ ہی وہ اس کی جگہ جگہ ہونے والی تقریریں سن سکے گا۔ لیکن وہ صرف اس لیئے اتنا تردد کر کے آیا تھا کہ اسے یقین تھا کہ عمران خان ہی وہ شخص ہے جو پاکستان اور پاکستانی عوام کے حالات بدل سکتا ہے۔ اور اسے یہ یقین اس لیئے تھا کیوں کہ اس کے خیال میں عمران خان ایک ایماندار اور مخلص رہنما ہے۔ اس نے آج تک کسی قسم کی کوئی کرپشن نہیں کی۔ اسے عمران خان کے الفاظ میں سچائی اور درد نظر آتا ہے۔ مجھ سے بات کرتے ہوئے اس کے لہجے میں بلا کا کرب تھا۔ اس نے جب سے ہوش سنبھالا اسے ہر حکمران دھوکہ باز اور فریبی ملا۔ ہر حکمران کو اس نے اس امید پر ووٹ دیاکہ ملک کی تقدیر بدلے گی لیکن بدلی تو صرف حکمرانوں کی تقدیر۔ وہ ملک کے ہسپتالوں سکولوں اور اداروں کو بہترین دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ ملک کو رشوت اور کرپشن سے پاک دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ پاکستان آزاد خودمختارہو اوراسے بیرونی قرضوں نجات ملے۔ اور اس کے خیال میں یہ سب تب ہی ممکن ہے اگر ملک کی باگ ڈور عمران خان کے ہاتھوں میں ہو۔

میں عمران خان پر اس کا اس قدر مضبوط یقین دیکھ کرخوفزدہ بھی ہوا اور مجھے ایک اطمینان بھی محسوس ہوا۔ مجھ پر یہ عقدہ بھی کھلا کہ خواب وہ نہیں جو سوتے میں دیکھے جاتے ہیں بلکہ خواب وہ ہیں جو سونے نہیں دیتے۔ اور خالد کمال یہی خواب دیکھ رہا تھا جو اسے نہ سونے دے رہے تھے اور نہ آرام کرنے دے رہے تھے۔ اور اس ریلی میں ایک خالد کمال نہیں تھا لاکھوں خالد کمال تھے۔ اس دن مجھے محسوس ہوا کہ جب ایسے خواب دیکھے جا رہے ہوں تو جلسے یا ریلی میں لوگوں کو لانے کے لیئے پیسے نہیں دینے پڑتے۔ لوگوں کوبلانے کے لیئے ان کے گھروں میں گاڑیاں نہیں بھیجنی پڑتیں۔ ریلی میں رش کرنے کے لیئے کھانے نہیں کھلانے پڑتے۔ کیوں کہ میں اور خالد کمال جب پیر پائی کے مقام پر پہنچے تو ایک سائیڈ پر گاڑی کھڑی کر کے وہ بھاگ کے ایک ٹھیلے کی طرف گیا اور دس دس روپے والے نمکو کے پیکٹ اور پانی کی بوتلیں لے کر آگیا۔ مجھے دے کر کہنے لگا لو کھاؤ آپ کو بھی بھوک لگی ہوگی۔

نوشہرہ پہنچ کر میرا اپنے دوستوں سے رابطہ ہو گیا اور میں خالد کمال کا شکریہ ادا کرکے اس سے رخصت ہو گیا۔ وہ اس سفر کے دوران بھی میری خاطر خواہ مہمان نوازی نہ کرسکنے پر ملول تھا۔ اور اس نے مجھ سے وعدہ لیا کہ میں جب دوبارہ پشاور آؤں تو اس سے ضرور ملوں تاکہ وہ اپنی مہمان نوازی کی کسر پوری کرسکے۔

مجھے ریلی کے ساتھ اب مزید نہیں رہنا تھا۔ خالد کمال سے مل کر مجھے اور کچھ دیکھنے ، جاننے یا سمجھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ میں اب محسوس کر سکتا تھا کہ کیسے لوگوں نے قائد اعظم کی آواز پر تحریک پاکستان میں حصہ لیا ہوگا اور کیسے پاکستان بنا ہوگا۔ میں اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ ملک بدلنے کے لیئے جو جذبہ جو طاقت اور لوگوں کا جو بے لوث مگر مخلص ساتھ درکار ہے وہ عمران خان کو حاصل ہے۔ عمران خان کا خواب اسے بھی سونے نہیں دے رہا اور اس کی آواز پر لبیک کہنے والوں کو بھی سونے نہیں دے رہا۔ وہ خواب سے اپنا سفر شروع کرچکا ہے اور جلد ہی اس کی تعبیر تک پہنچے گا۔ انشاء اللہ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے