دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کی آواز

یہی چند برس قبل اگر ہمیں پتہ چلتا کہ اسلام آباد میں کسی دوسرے شہر سے کوئی شاعر ، ادیب یا دانشور آیا ہے تو دوست ایک قافلے کی شکل میں اس سے ملنے پہنچ جاتے یا پھر اُسے کسی ایک کے گھر میں مدعو کرلیا جاتا ۔ انہی دنوں مجھےبتایا گیا کہ جھنگ کی ایک ا دبی شخصیت اسلام آباد میں ہیں اور اگر کلامِ اساتذہ بطرزِ اساتذہ سننے کا شوق ہے تو ہمارے ساتھ ان سے ملنے ضرور چلیں ۔ باواجی کے نام سے مشہور وہ شخصیت اُن دنوں اسلام آباد میں اپنے چھوٹے بھائی کے ہاں مقیم تھیں ۔

اگلی شام ہم ان کے گھر پہنچے ، دیر تک باوا جی سے اساتذہ کا کلام سنتے اور سر دھنتے رہے ۔ اس دوران ان کے چھوٹے بھائی مشروبات اور کھانے پینے کی چیزیں لے آتے ، باواجی کی کرسی کے ساتھ دست بستہ کھڑے ہوجاتے اور وقتاً فوقتاً میری طرف دیکھ کر مسکرا دیتے ۔ یہ عنایت مجھ پر ہی کیوں ؟
شاید میں محفل میں سب سے کم عمر ہوں لیکن اپنی عمر سے بڑی باتیں کررہا ہوں ۔میں نے اپنے من پسند جواب سے اپنے آپ کو تسلی دی ۔

محفل رات دیر تک جاری رہی ۔ گھر پہنچا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بجی ۔ نامعلوم نمبر سے فون تھا ، فون اٹھایا تو پتہ چلا باوا جی کے چھوٹے بھائی ہیں ، نام اظہر حسین ، پیشہ وکالت ، ہنر شاعری لیکن عام شاعروں کے برعکس معدے کی شاعری بھی کرتے ۔ اصرار سے قبل اقرار کرلیا کہ آج ہم انہی کا ہنر کھا کر آئے ہیں ، پھر مجھ پر داد تک کا بوجھ ڈالے بغیر اپنے آپ کو خود ہی داد دے کر بخوشی قبول کرلی ۔ ایک ہفتہ بعد پائے کی دعوت پر مدعو کر لیا اور انکار کو قابلِ دستِ اندازی پولیس جرم قرار دیتے ہوئے ایسا دوست ساتھ لانے کی کڑی شرط رکھ کر فون بند کردیا جو دانشور نہ ہو ۔
ان کی آخری بات سے پتہ چلا کہ دانشوروں کی محفل میں ایک میں ہی تھا جو انہیں دانشور نہیں لگ رہا تھا ۔لہٰذا میں دانشورانہ باتوں پر انسانی دُکھ درد بانٹنے کو ترجیح دینے والے ایک دوست کو ساتھ لے گیا۔

اظہر حسین سے مل کر پتہ چلا مزاح لکھتے نہیں بولتے اور جیتے ہیں ۔لیکن جب انہوں نے اپنی شاعری کی کتاب ’حرف صلیب ‘پیش کی تو پتہ چلا زمانے بھر کا دُکھ منظوم کردیا ہے ۔ پھر ہمیں ان کی صحبت کی جیسے لت لگ گئی ۔ ان کے ساتھ ایک مجلس کا نشہ مہینوں برقرار رہتا ۔ جب بھی طبیعت بوجھل ہوتی ان سے بات کرکے توانائی ملتی ۔ میں ان سے اکثر کہتا یار تم یوسفی کا سانس لیتا باب ہو ۔یاروں نے اظہر کو صرف اُس وقت دُکھی دیکھا جب دُکھ دُوسرے کا ہو ۔ اپنے دکھوں کو وہ کبھی خاطر میں نہیں لایا ۔ مجھے اس کی درمندی سے عجیب سا خوف محسوس ہوتا کہ دُوسروں کی تکلیف ٹالنے کے لئے یہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔

ملاقاتوں کے سلسلے ابھی جاری تھے کہ بیرون ملک جانا ہوا ، حالات نے کروٹ لی تو پر گھر بدلنا پڑا ۔ پھر اظہر بھی کچھ زیادہ مصروف ہوگیا ۔ایک بار چھ ماہ بعد ملاقات ہوئی اور پھر دو برسوں بیت گئے ۔ اس دوران میں کچھ ملکی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعمیر ِ امن اور دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے کام کرنے لگا ۔ کبھی ملک ، کبھی بیرون ملک اور کبھی پانچ ستارہ ہوٹلوں میں تشدد اور امن کے نظریات پر دانشورانہ گفتگو ۔ اس مسئلہ پر کام کرنی والی دنیا کی جانی مانی شخصیات سے ملاقاتوں اورامن و تشددجیسے موضوعات پر فلسفیانہ مباحث سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ۔کبھی امن کا نصاب اور کبھی تنازعات کے حل کے پرامن طریقوں پر تربیتی مواد کی تیاری ؛ اور وقت گذرتا گیا ۔

اس دوران مجھے کئی بار محسوس ہوا کہ دہشت گردی پر دانشورانہ مباحث میں کوئی کمی سی ہے ۔ کچھ ایسا ضرور ہے جسے ہم نظر انداز کررہے ہیں ۔یہ سوال ذہن میں اٹھتا رہا اور جواب نہ ملنے پر میں پھر سے کام پر دھیان دینے لگتا ۔

پھر ایک روز کام کے دوران فون کی گھنٹی بجی ، سکرین پر اظہر کا نام دیکھ کرچہرے پر رونق آئی ، میں نے قہقہے کے ساتھ فون ریسو کیا لیکن اس بار جوابی قہقہہ سنائی نہ دیا ۔ میں نے سوچا اظہر ناراض ہے تو میں اُسے اپنے کام کی اہمیت سے مرعوب کرنے لگا ۔ اُس نے جواب دیا ، ’’ آؤ میں تمہیں بتاتا ہوں دہشت گردی کیا ہوتی ہے ۔ ابھی آجاؤ‘‘۔

میں اُسی وقت کام چھوڑ کر اظہر کی طرف نکل پڑا ۔ اس کی آواز میں کچھ ایسا تھا جسے میں سمجھ نہیں پایا تھا ۔

اس کے گھر پہنچ کر گھنٹی بجائی تو دورازہ اس کے بیٹے نے کھولا ۔ میں نے چہک کر اُسے ہاتھ ملایا ، لیکن جب اس کے چہرے کی طرف دیکھا تو دس بارہ سالہ بچے کے چہرے پر وہ سنجیدگی دکھائی دی جو آدھی صدی کا کرب سہہ کر ملتی ہے ۔ میں جان گیا کہ کوئی مسئلہ ضرور ہے ۔ مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا ۔ تھوڑی دیر بعد لاٹھی ٹکرانے کی آواز سنائی دی اور پھر اظہر بازو پرسالنگ چڑھائے لاٹھی کے سہارے چلتا ہوا کمرے میں داخل ہوا ۔ وہ اگر اپنے گھر کے علاوہ کسی اور جگہ ملتا تو شاید میں اُسے نہ پہچان پاتا ۔

اس نے بتایا کہ وہ اسلام آباد کچہری میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں میں ایک تھا ، اسے مردہ سمجھ کر پمز لایا گیا ، آٹوپسی کے دوران پتہ چلا کہ دل ابھی زندہ ہے اور پھر نو ماہ تک بستر مرگ سے موت کو عارضی شکست دے کر اٹھنے کے بعد آج وہ میرے سامنے بیٹھا ہے ۔

دہشت گردی کیا ہے، مجھے اس روز پتہ چلا ۔ اس سے پہلے میں نے اسے کاغذوں پر دیکھا تھا ، اعداد و شمار میں پڑھا تھا، یخ بستہ ہالز میں بیٹھ کر اس پر بات کی تھی ۔ لیکن پہلی بار مجھے یوں لگا جیسے آج تک میں ان ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر آگ کی تصویر کو ہی آگ سمجھتا رہا تھا ۔میں اس روز بھی اس آگ سے دور بیٹھا تماشا دیکھ رہا تھا لیکن مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے اس آگ کی تپش میری ہڈیاں پگھلا رہی ہے ۔ قہقہے بانٹنے والا قہقہہ لگانا کیوں بھول جاتا ہے ؟ آدھی صدی کا کرب دس سالہ بچے کے چہرے پر جم جائے تو وہ بچہ کیسا لگتا ہے ؟

میں نے اس پر کوئی تھیوری نہیں پڑھی تھی ۔ اظہر ٹھیک کہتا ہے۔ صرف وہی بتا سکتا ہے دہشت گردی کیا ہے ۔

بھابی نے بتایا کہ وہ اس روز وقت سے پہلے کچہری جاپہنچے ، عدالت سے واپسی دفتر کی طرف جارہے تھے کہ حملہ ہوگیا ۔ انہوں نے دیکھا کہ حملہ آور اُس طرف جا رہا ہے جہاں کم سے کم نووکلاٗ چھپے تھے ، انہوں نے حملہ آور پر پتھر پھینک کر اُسے اپنی طرف متوجہ کیا ، بھاگ کر جس چمبر میں پناہ لی اُس میں پہلے سے تین وکلا موجود تھے اور دروازے پر کنڈی بھی نہیں لگ سکتی تھی ۔ سو اس سے قبل کہ یہ کچھ کرتے دہشت گرد نے دروازے کو لات ماری ، انہوں نے دروازہ اپنے بدن سے دبا لیا ، دہشت گرد نے اپنی کلاشنکوف کا برسٹ مارا اور سات گولیاں ان کے جسم کے پار ہوں گئیں ۔
’تو نے ایسا کیوں کیا ۔ تمہارے تین بچے ہیں ‘۔ میں نے اظہر سے پوچھا ۔

’ یار دل والے حساب ایسے نہیں کرتے ۔ان بارہ لوگوں کے کتنے بچے ہونگے ! ‘۔

مجھے پہلی بار پتہ چلا کہ اعداد و شمار صرف دل والوں کے رُلاتے ہیں ۔میں نے اسے کئی بار دوسروں کے غم میں روتے نہ دیکھا ہوتا تو شاید میں اس بات پر یقین نہ کرتا کیونکہ ہم صرف افسانوی کرداروں سے ایسے عمل کی توقع کرتے ہیں جیتے جاگتے سامنے بیٹھے دوستوں سے نہیں ۔

میری آنکھیں نم ہوئیں تو احساس ہوا کہ میں جو کمی محسوس کرتا تھا وہ یہ تھی کہ دہشت گردی کو معروضی و نظریاتی زاویے سے تو دیکھا جارہا ہے موضوعی اور انسانی زاویے سے نہیں ۔ ہم لاشیں گنتے رہے ہیں کبھی یہ نہیں دیکھا کہ مرجانے اور زخمی ہوجانے والوں کے خاندانوں پر کیا گذری ۔
جب اظہر اور میں نے مل کر دہشت گردی کے متاثرین تلاش کئے تو پتہ چلا کہ اظہر کے خاندان کی طرح جس کا ایک شخص متاثر ہوا ہے وہ سارا کنبہ ابھی تک دہشت زدہ ہے۔ جو شخص چشم دید گواہ ہے وہ آج تک نیم سکتے کے عالم میں ہے ۔اس طرح پاکستان میں دہشت گردی کا شکار ہونے کی تعداد ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں ہے۔ اقوامِ متحدہ دہشت گردی کا واقعہ دیکھنے والے کو بھی متاثرین میں شمار کرتا ہے ؛ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو (غیر تربیت یافتہ میڈیا اوربے مہار سوشل میڈیا کی مہربانی سے ) یہ تعداد کروڑوں میں ہے ۔

متاثرین کی اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود ہمارے پاس نہ کوئی قانون ہے اور نہ ہی متاثرین کی زندگیوں کی تعمیر ِ نو کا کوئی منصوبہ ۔

اس سال 23 مارچ کو حکومت ِ پاکستان نے اظہر کو اس کی دردمندی اور بہادری کے اعتراف میں تمغہ شجاعت سے نوازہ ہے اور آج وہ پاکستان میں دہشت گردی کے متاثرین کے حقوق کے لئے آواز اٹھا رہا ہے۔ اظہر کو یقین ہے کہ اُسے نئی زندگی دنیا کی عدالت میں دہشت گری کا شکار ہونے والوں کا مقدمہ لڑنے کے لئے ملی ہے ۔ میں نے پوچھا وہ یہ سب کرپائے گا تو اس نے جواب دیا :

ٹکرائیے ہجوم سے اور جان جائیے
دیوار کون کون ہے رستہ ہے کون کون

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے