سقراط کے تین اصول اور صدارت کشمیر

افلاطون اپنے اُستاد سقراط کے پاس آیا اور کہنے لگا:
آپ کا نوکر بازار میں کھڑے ہو کر آپ کے بارے میں ہرزہ سرائی کر رہا تھا۔
سقراط نے مسکرا کر پوچھا: ’’وہ کیا کہہ رہا تھا۔‘‘
افلاطون نے جذباتی لہجے میں جواب دیا: ’’آپ کے بارے میں کہ رہا تھا.‘‘
سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروایا اور کہا:
’’تم یہ بات سنانے سے پہلے اسےتین کی کسوٹی پر پرکھو، اس کا تجزیہ کرو اور اس کے بعد فیصلہ کرو کیا تمہیں یہ بات مجھے بتانی چاہیے کے نہیں۔
افلاطون نے عرض کیا ’’یا استاد تین کی کسوٹی کیا ہے؟
سقراط بولا : ’’کیا تمھیں یقین ہے تم مجھے جو بات بتانے لگے ہو یہ بات سوفیصد سچ ہے؟
افلاطون نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا، سقراط نے ہنس کر کہا: ’’پھر یہ بات بتانے کا تمھیں اور مجھے کیا فائدہ ہو گا؟
افلاطون خاموشی سے سقراط کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا، سقراط نے کہا ’’یہ پہلی کسوٹی تھی، ہم اب دوسری کسوٹی کی طرف آتے ہیں۔’’مجھے تم جو بات بتانے لگے ہو کیا یہ اچھی بات ہے؟
‘‘افلاطون نے انکار میں سر ہلا کر جواب دیا۔ “جی! نہیں یہ بُری بات ہے۔
‘‘سقراط نے مسکرا کر کہا ’’کیا تم یہ سمجھتے ہو تمھیں اپنے اُستاد کو بُری بات بتانی چاہیے؟
افلاطون نے پھر انکار میں سرہلا دیا، سقراط بولا ’’گویا یہ بات دوسری کسوٹی پر بھی پورا نہیں اترتی۔
افلاطون خاموش رہا۔ سقراط نے ذرا سا رک کر کہا ’’اور آخری کسوٹی، یہ بتاؤ وہ بات جو تم مجھے بتانے لگے ہو کیا یہ میرے لیے فائدہ مند ہے؟
افلاطون نے انکار میں سرہلایا اور عرض کیا ’’یا اُستاد! یہ بات ہرگز ہرگز آپ کے لیے فائدہ مند نہیں۔
سقراط نے ہنس کر کہا ’’اگر یہ بات میرے لیے فائدہ مند نہیں، تو پھر اس کے بتانے کی کیا ضرورت ہے؟
افلاطون پریشان ہو کر دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ سقراط نے گفتگو کے یہ تین اصول آج سے چوبیس سو سال قبل وضع کردیے تھے، سقراط کے تمام شاگرد اس پر عمل کرتے تھے۔ وہ گفتگو سے قبل بات کو تین کسوٹیوں پر پرکھتے تھے، کیا یہ بات سو فیصد درست ہے، کیا یہ بات اچھی ہے اور کیا یہ بات سننے والے کے لیے مفید ہے؟ اگر وہ بات تینوں کسوٹیوں پر پوری اترتی تھی، تو وہ بے دھڑک بات کر دیتے تھے اور اگر وہ کسی کسوٹی پر پوری نہ اترتی یا پھر اس میں کوئی ایک عنصر کم ہوتا، تو وہ خاموش ہوجاتے تھے۔
گزشتہ دنوں سے آزادکشمیر کی صدارت کے انتخاب اور اس ضمن پھیلائی جانے والی تھیوریز کو پڑھ پڑھ کر اور سن سن کر مجھے سقراط کی یہ سنہری باتیں رہ رہ کر یاد آ رہی ہیں !
منتخب صدر مسعود خان کو کوئی زرداری اور میاں صاحب کے سہولت کار ہونے کا طعنہ دے رہا ہے اور تاحال اس الزام کا کوئی تسلی بخش ثبوت بھی نہیں پیش کیا رہا۔ کوئی سی پیک منصوبے اور گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ بنائے جانے کی کڑیاں اس فیصلے سے ملا رہے ہیں ، کوئی مری اور اسلام آباد کے درمیان روابط کی بحالی پہ منتج کر رہے ہیں حد ہو چلی ، کوئی غیر سیاسی ہونے کا طعنہ دے رہا ہے اور کوئی ڈومیسائل اور شناختی کارڈ کا ڈنڈورا پیٹ رہا ہے۔
جنھوں نے خود کو صدارت کیلئے سوچ رکھا تھا ان کا دکھ تو واقفان حال جانتے ہیں لیکن دیگر جو ایک آدھ پٹیشن لیکر عدالت عالیہ گئے تھے وہ عدالت کے فیصلے کو ماننے کے بجائے فریق بنتے جا رہے ہیں۔ اسی طرح ایوان صحافت سے بھی کچھ احباب اپنی خبر اور اس کی حرمت کے تحفظ میں کہیں صحافت کے اصول کو بھلا کر فریق بنے بیٹھے ہیں اور اپنی من گھڑت تھیوریز کے روپ میں اپنا غم و غصہ نکال رہے ہیں۔ کوئی عدالتی کمیشن اور اس کی برق رفتاری پہ حیراں و ششدر ہے اور کوئی سیاسی بیک گراوٴنڈ نہ ہونے پہ طعنہ زن . کوئی پوچھے تو میاں ! شوکت عزیز کونسا انتخابی حلقہ رکھتے تھے؟ وزارت عظمیٰ ملنے سے پہلے کتنے فیصد پاکستانی انہیں جانتے تھے ؟ میر بلخ شیر مزاری کہاں سے آئے تھے؟ اور عدالتی کمیشن جو اس طرح کے ہائی پروفائل کیسز کیلئے تشکیل پاتے ہیں تو انہیں جس قدر جلد ممکن ہو رزلٹ سامنے لانے ہوتے ہیں !
ہمارے ایک سینئر صحافی دوست سید خالد گردیزی صدر صاحب کے نام کھلے خط میں کچھ یوں رقمطراز ہو رہے ہیں
“آپ دنیا کی بڑی کمپنیوں بجورن برگ الیگزینڈر کب ،ڈائی سل کے انڈرگار منٹس. بلیو گارڈ، کورگی، ایلٹرا ٹیک کی جرابیں، رینبو کلب سلینا، کلارک فرینسس، برٹائی وون کے جوتے. ایج، جنید جمشید، بائیبا اور امارہ کی شلوار قمیض یاجان لیوائز، ہگو، ریس جارج کا سوٹ پہن کر گوچی، رےبن، ٹام فورڈ کی عینک ناک پر رکھ کر ایجنٹ پرووکیچر، ارامس، گوچی، ویلنٹینو کاپرفیوم چھڑک کر کوئنگسیگ، لمبرگینی، لکن ہائپر سپورٹس یا فیراری کی گاڑی پر بیٹھ کر ہوٹر بحاتے ہوئے آفس پہنچیں اورپارکر، سلو، شیفریا ارورا کےقلم سے کسی وائس چانسلر کی تقرری اور تبادلے کی فائل پر دستخط کریں گےتو یقین جانیں ہم یہ کہیں گے کہ آپ ریاست کو معاشی طور پر گوادر کے ساتھ جوڑکرساتویں آسمان پر پہنچانے لگے ہیں” صاحب اگر وہ نستعلیق قسم کی پرسنیلٹی ہیں تو اچھا ہی ہے ناں اور اگر نامزد صدر خوش لباس و خوش گفتار ہیں تو خوشی ہونی چاہئے !
جب کہ دوسری طرف نو منتخب صدر کا پروفائل بھی زبان زد عام ہے۔ سفارتکاری کا ایک وسیع تجربہ ، بڑے فورمز پہ نمائندگی کے گر اور شفافیت پہ لوگ داد و تحسین سے نواز رہے ہیں اور ریاستی عوام اس فیصلے کو نہ صرف سرہا رہے ہیں بلکہ اس فیصلہ کو کشمیر کاز کے تناظر میں ن لیگی حکومت کی ایک سنجیدہ کاوش سے تشبیع دے رہی ہے
“مسعود خان دو سال قبل وزارت خارجہ سے گریڈ 22 میں ریٹائر ہوئے تھے ۔منصب صدارت سے پہلے وہ انسٹیٹوٹ آف اسٹرٹیجک سٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ وہ دنیا کے کئی ممالک میں پاکستانی سفارتکار کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کے علاوہ جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پاکستان کے مستقل مندوب رہے ہیں۔
20سال سے زائد عرصے تک مسعود خان وزارت خارجہ کے مختلف ذمہ داریوں پر فائز رہے۔جنوری 2013ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر رہے ۔ جنیوا میں
جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پاکستان کے مستقل مندوب رہے ہیں۔
20سال سے زائد عرصے تک مسعود خان وزارت خارجہ کے مختلف ذمہ داریوں پر فائز رہے۔جنوری 2013ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر رہے ۔ جنیوا میں اسلامی تعاون تنظیم کے چیئرمین بھی رہے اس کے علاوہ گروپ سیون کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ مسعود خان 131 ترقی پذیر ممالک کے نمائندہ کے حیثیت سے عالمی اداروں میں کام کرتے رہے۔ وزارت خارجہ میں ذمہ داریوں کے دوران دنیا کے مختلف ممالک اور عالمی فورمز میں مسعود خان نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی وکالت کی۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون سے قریبی تعلق رکھا۔ سلامتی کونسل ،جنرل اسمبلی،اقوام متحدہ حقوق کونسل میں کشمیر کاز کو اجاگر کیا اور ان فورمز میں بتایا گیا کہ اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلانے کا وعدہ کیاتھا،اس وعدہ کو پورا کیا جانا چاہیے”
(بحوالہ سٹیٹ ویوز)
قارئین : صدارت کشمیر کے حوالہ سے نئی دہلی کی مروڑیں تو سمجھ میں آ رہی ہیں لیکن مظفرآباد کا ناٹک سمجھ سے بالا ہے اور میڈیا کا سہارا لیکر چند لوگوں کی رائے کو بنیاد بنا کر یہ لکھ ڈالنا کہ “آپ ریاست کے متنازعہ ترین صدر بننے جا رہے ہیں” قرین انصاف نہیں اور نہ ہی قلم کی حرمت کا پاس ہے ۔
گزارش یہ کرنا تھی کہ نو منتخب صدر کشمیر کی صلاحیت اور تجربہ پہ اعتماد کیا جائے اور اس منفی پراپیگنڈے کو بند کیا جائے
واللہ مجھے نہیں معلوم ان احباب کو صدارت کشمیرکا پہاڑی سافٹ وئیر کیوں اچھا لگتا ہے (صدر یعقوب)
یا پھر پاکستانی صدارتی ایپس “وائبریشن” ہی معیار کیونکر بن چلا ہے ! (صدر ممنون حسین)
ضرور سوچئے گا !

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے