بچے یوں خوش تھے کہ بابا کی آج چھٹی لیکن چھٹی بھی ایسی کہ چھٹی کا دودھ یاد دلائے، کیوں کہ میری طرح گاڑی کے ایر کنڈیشنر کے بھی دم خم نکل چکے تھے اور وہی گرمی وہی اگست کی حبس وہی راولپنڈی کی سڑکیں اور وہی میں۔ فرق صرف اتنا کہ گاڑی میں ساتھ بیگم اور بچے بھی براجمان ۔لیکن بجائے کہیں سیر و تفریح کے آج تو دانتوں کے ڈاکٹر کی طرف گامزن تھے۔بیگم صاحبہ فرنٹ سیٹ پر یوں براجمان جیسے خاتون اول ہوں اور بات بھی سچ کہ انکے ہوتے ہوئے زندگی میں کوئی خاتون دوئم آتی تو آتی بھی کیسے کہ توبہ توبہ جو کر چکے ۔اگرچہ میری تحریروں میں وزن نہیں ہوتا لیکن الحمد للہ اتنا تو ضرور ہے کہ ہماری محترمہ کے ساتھ بیٹھنے کے باعث گاڑی بھی انکے وزن کے احترام میں بائیں جانب قدرے جھک جاتی ہے۔ اور میں اونچا ہو کر اچانک آلٹو سے ٹرک ڈرائیور دکھائی دینے لگتا۔آج کے سفر میں صرف ایک بات ہی لائق تحسین تھی کہ بیگم چپ تھیں اوروجہ نہ تو ان کااظہار ناراضگی تھا اور نہ ہی سنجیدگی بلکہ وجہ انکے دانت کا درد تھا۔ ایسے میں میرے دل میں بھی رہ رہ کر خواہش ابھرتی کہ کاش یہ مرض دائمی ہو جائے پھر اچانک انسانی ہمدری او رڈاکٹر کی مہنگی فیس یاد آتی تو میں سر جھٹک کر محترمہ کو سمجھانے لگتا کہ انہیں دانت کا مرض مجھ پر ضرورت سے زیادہ دانت پیسنے کی وجہ سے لاحق ہوا ہے ۔اور وہ منہ بسور کر باہر کی جانب دیکھنے لگتیں۔ اگرچہ ہر پھیرے ڈاکٹر مجھ سے رقم بٹورتے وقت یہی کہتا تھا کہ بٹ صاحب خوش نصیب ہوتے ہیں وہ شوہر جن کی بیگم کے دانت میں درد ہو کہ اس سے شوہرکے کانوں کو تسکین ملتی ہے لیکن میں انکی بات سے مکمل طور پر متفق یوں نہ ہوتا تھا کہ وہ یہ بات فیس لیتے وقت کیا کرتے تھے
آج تیرہ اگست اور ہفتہ کا دن تھا باہرسڑک پر جگہ جگہ قومی پرچم فروخت کرنے والوں کے سٹال لگے ہوئے تھے۔سڑکوں کی سج دھج بھی خوب تھی۔ مختلف گاڑیوں پر اور موٹر سائکلوں پر بھی سبز ہلالی پرچم لہرا رہے تھے کئی نوجوان منچلے جوڑے بائیک پر بیٹھے گاڑی کے پاس سے زم کر کے گزرتے تو میں بھی جشن آزادی کی خوشی میں کوئی ملی نغمہ گنگنانے لگتا لیکن نگاہ جب بیگم محترمہ کی جانب پڑتی تو اچانک آزادی غلامی میں بدل جاتی اور میں سہم کر خاموش ہو جاتا ۔ایسے میں بچے کوئی شگوفہ چھوڑتے تو طبیعت کچھ بشاش ہوتی۔
تھوڑے ہی سفر کے بعد باہر سڑک پر قومی پرچم کے علاوہ دیگر پارٹی جھنڈے اور بینر بھی دکھائی دینے لگے۔جن کو دیکھ کر میرے بچے پارس فضا اور شارق تینوں قدرے حیران بھی ہوئے۔ میں نے انہیں بتایا کہ آج راولپنڈی میں تحریک انصاف کی احتساب ریلی ہے،رات کو پیپلز پارٹی کاجلسہ ہے،حکومتی جماعت ن لیگ کا اقبال روڈ پر اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور تن تنہا ایم این اے شیخ رشید احمد کا لال حویلی کے باہر جلسہ ہے۔ اور تینوں جلسے الگ الگ مقامات پر ہیں ،یہ انہیں کی تیاریوں کو جھنڈے اور بینر ہیں۔ بچوں کے کچے زہن الجھ سے گئے۔ان کا کہنا تھا کہ یوم آزادی کا جشن ہے اور سب علیحدہ علیحدہ جھنڈوں سے کیوں منا رہے ہیں؟ کیا ہم سب پاکستانی نہیں ہیں ؟ بات میں وزن تھا۔ میں سوچنے لگا کہ واقعی اپنی اپنی سیاست چمکانے کے لیے تو پورا سال پڑا ہے۔کم از کم یوم آزادی پر تو صرف ایک سبز ہلالی پرچم تلے اکٹھا ہو جانا چاہیے۔پوری دنیا کو ایک ہی پیغام جائے کہ ہم پاکستانی قوم ہیں اگر یہ پاکستان کے خلاف کوئی سازش نہیں تو اگست کے مہینے میںیہ مختلف رنگوں کے جھنڈے کیوں؟ کیا سبز ہلالی پرچم ہی کافی نہیں؟ ہم کسی بھی پارٹی کو ووٹ دیں کوئی بھی نظریہ رکھیں کسی کو بھی سپورٹ کریں کہ یہی ہمارا جمہوری حق ہے لیکن یوم آزادی پر تو ہمیں صرف اور صرف قومی پرچم کو تھامنا چاہیے۔صرف پاکستانی کہلانا چاہیے۔مجھے دو ہزار چودہ کا اگست یاد آ گیا۔ اگست کے مہینے میں ہی یوم آزادی کے موقع پر ہی قوم کو کس طرح تقسیم کیا گیا تھا۔مرو مارو جلا دو کے کیسے کیسے بھونڈے خطاب ہوئے تھے ۔ لیکن اسکا نتیجہ کیا نکلا تھا؟ محض ایک شادی؟۔ وہ بھی چند ماہ کی۔ اور ایک صاحب کو دل کی تکلیف ۔ بس ؟نہ تو کوئی انقلاب آیا اور نہ ہی تبدیلی ۔صرف اور صرف ملک اور قوم کا وقت ضائع ہوا تھا۔ اور کتنی قیمتی جانین ضائع ہوئی تھیں۔کیا وہ واپس آ سکتی ہیں؟ میں سوچ رہا تھا
بچے اب خاصے بیزار ہو گئے تھے کیوں کہ سڑک پر ٹریفک بالکل جام ہو گئی تھی۔ سڑک پر جگہ جگہ پولیس اہلکاروں نے سیکیورٹی کے ناکے لگا رکھے تھے۔گرمی اور حبس میں اضافہ ہو گیا تھا۔ہم سب کا پسینہ ٹپ ٹپ گر رہا تھا۔چوکوں میں تحریک انصاف کے استقبالیہ کیمپ بنائے گئے تھے ۔ جن پر تحریک انصاف کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔سپیکر وں پر نئے پاکستان کے فلک شگاف نغمے جاری تھے۔ عمران خان کی احتساب ریلی بے نظیر بھٹو روڈ پر پہنچ چکی تھی۔ عمران خان کنٹینر پر کھڑے ہوئے اور ہاتھ ہلانے لگے ۔کنٹینرچیونٹی کی رفتار سے آگے بڑھنے لگا میں نے ارد گرد دیکھا۔دور دور تک عوام گاڑیوں اور موٹر سائکلوں پر سوار رکے ہوئے پریشان حال دکھائی دیے کیوں کہ بیشتر ریلی میں شرکت کے لیے نہیں آئے تھے بلکہ اپنی اپنی منزلوں کی جانب جانا چاہتے تھے۔ لیکن پھنس چکے تھے ۔ ارد گرد کے موٹر سائکل سوار جو کچھ بڑبڑا رہے تھے وہ لکھا نہیں جا سکتا۔مریڑ چوک کے قریب ہی ایک ایمبولنس بھی ٹریفک جام کے باعث رکی ہوئی تھی جس کے سائرن کی تیز آواز بھی تبدیلی کے نعروں میں دب کر رہ گئی تھی ۔عمران خان میڈیا کیمروں کو دیکھ کر مسلسل ہاتھ ہلا رہے تھے ۔ ایمبولنس کے اندر مریض کا کیا حال تھا یہ تو معلوم نہیں لیکن اسکے سرہانے بیٹھی ایک بوڑھی خاتون کے آنسو جاری تھے۔ارد گرد بیٹھے گھبرائے مرد بار بار کھڑکی سے سر نکال کر کبھی آسمان کی جانب دیکھتے اور کبھی عمران خان کو تکنے لگتے۔ میری گاڑی کے ساتھ ہی نیلے سکوٹر پر بیٹھا ایک ادھیڑ عمر سنجیدہ شخص بڑ بڑایا۔۔۔۔کاش پاکستان بانوے کا ورلڈ کپ ہار جاتا۔۔۔۔۔۔ختم شد