کشمیر کولیڈر کی تلاش

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پاکستانی پرچم لہرانے کے بعد اب آزاد کشمیر کا پرچم بھی لہرا دیا۔گزشتہ دو برس سے حریت کانفرنس ( گیلانی گروپ )کی جانب سے سری نگر و مضافات میں احتجاجی مظاہروں کے دوران چندنقاب پوش پاکستانی جھنڈا لہرا کر بھارت سے نفرت اور پاکستان سے رزق حلال کی جستجو میں مگن ہیں۔

سری نگر میں پاکستانی جھنڈا لہرائے جانے پرمظفر آباد اور گلگت میں پہلے بھی نا پسندید گی کا اظہار ہوا اور موجودہ حالات میںبھی عوام نے مکمل خاموشی اختیار کر کے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ بھارتی کشمیر میں ظلم و جبر پرپاکستانی کشمیر میں مکمل سکوت طاری رہا ۔پاکستانی اداروں نے گزارہ الاونس لینے والے آئی ڈی پیز کو چند دن کیمپوں سے باہر نکالا مگر وہی پرانے چہرے دو روز بعد منظر عام سے غائب ہو گئے۔۔۔عوام کی اکثریت خاموش ہے ۔کیونکہ اب عوام پاکستان کی ہمدرد اور پانی وہوا کے ساتھ پاکستان کی جانب بہنے والے لیڈروں کے گھناونے منصوبوں سے آگاہ ہو چکی ہے ۔

کشمیر میں چوہے اور بلی کا کھیل 1989میں شروع ہوا جو تا حال جاری ہے ابتداءمیں نوجوان مذہب کے جنون اور جنت کی جستجو میں فریب کاری کا شکار ہوئے ۔ بعض جہادیوں نے تو زندگی میں ہی حوروں کو پایا مگر جلد ہی انہیں اپنی عظیم غلطی کااحساس ہو گیا ۔اب صرف بعض لاچار ومجبور کشمیری پاک بھارت کے اداروں کا کھلونا بنے ہوئے ہیں یا یوں کہیے کہ چند بیروزگار رزق حلال کے لیے دو طرفہ آلہ کار ہیں۔

کشمیر کی مجموعی آبادی کو منزل کا تو علم ہے مگر راستہ واضح نہیں۔ عوام غیروں کے ہتھکنڈوں میں آکر چل پڑتے ہیں مگر جلد ہی راستہ بھٹکنے کا اندازہ ہونے پر واپسی کی راہ لیتے ہیں ۔بعض واپس بھی نہیں آسکتے اور پھر ان کے ہی آلہ کار بن کے زندگی جینے کی کوشش کی جاتی ہے جنہوں نے غلط راہ دکھائی تھی۔

1989میں کنٹرول لائن کے اس پار سے 7روز کے لیے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں لائے گئے کشمیری پاکستانی اداروں کے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔کیمپوں میں مقیم ان کشمیریوں کو گزارہ الاونس بھی پاکستانی فوجی اداروں کے ذریعے دیا جاتاہے اور ان کی موت و حیات بھی ان ہی پاکستانی اداروں کے رحم و کرم پر ہے ۔7روز کے لیے لائے گئے یہ کشمیری 18سال سے شو پیس کے طور پر استعمال کیے جارہے ہیںاور صلے میں صرف 50روپے یومیہ گزارہ الاونس ملتا ہے ۔

دوسری طرف بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 1989کی تحریک کے بعد ہندو پنڈتوں کو کشمیر سے نکال کربھارت کے شہروں میں ایسی ہی ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا اور انہیں بھی بطور شوپیس استعمال کیا جارہا ہے ۔کشمیر کا ہندو ہو یا مسلمان دونوں اپنے مذہبی بھائیوں کے شر سے کسی بھی طور پر محفوظ نہیں رہا۔مذہب کے نام پر ایک جانب بلی چرھائی جاتی ہے اور دوسری طرف قربانی کا بکرا بنایا جاتاہے

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مخصوص آزادی پسندوں کو یہ درس دیا جاتاہے کہ تمہاری جدوجہدکا پہلا مقصد بھارت سے آزادی حاصل کرنا ہے جب تم آزاد ہو جاوگے تو پھر پاکستان رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کو اپنا مرضی کا فیصلہ کرنے کا موقع دیگا۔مگر حقائق اس کے برعکس ہیں ،اگر پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی حکومتوں کا جائزہ لیا جائے تو بہت ساری چیز یں واضح ہو جاتی ہیں۔کشمیر ی عوام کی اکثریت یہ بات جان چکی ہے کہ کشمیر کے اردگرد دو خونخوار بھیڑے منہ کھولے کشمیر اور کشمیریوں کو ہڑپ کرنا چاہتے ہیںاور اس چھینا جھپٹی سے کشمیریوں کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔کشمیری صرف خود کو محفوظ بنانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔

بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے حالیہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بارے بیان پر پاکستانی کشمیر میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ۔پاکستانی اداروں نے ہزار کوششوں کے بعد 2سو افراد جمع کیے جن میں سے بڑی تعداد سول کپڑوں والوں کی تھی۔ چند ایک وظیفہ خور احتجاج کا حصہ بنے مگرعوام کی جانب سے کسی قسم کی نمائندگی نہیں تھی ۔بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھی جاری مزاحمت تحریک اور ریاستی دہشتگردی پر اس جانب سے کوئی رد عمل نہیں آیا ۔پاکستانی پرچم لہرانے والوں نے آزاد کشمیر کے پرچم لہرا کر بھی اس جانب کے عوام کو متوجہ کرنے کی کوشش کی مگر پھر بھی کو ئی توجہ نہیںمل سکی ۔

کشمیر کے عوام الحاق نوازسیاستدانوں ،اپنے بچے یورپ بھیج کر دوسروں کے بچوں کو قربانی کا بکرا بنانے والے حریت لیڈروں کی منافقانہ چالوں سے آگاہ ہو چکے ہیں ۔اب ان کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے اور اسی لیے عوام گھروں سے باہرنکلنے کو تیارنہیں ہے ۔کشمیری عوام کو صرف ایک لیڈر کی ضرورت ہے جو گلگت سے لیکر جموں تک کے عوام کا نجات دہندہ ہو اور بھوکے بھیڑوں کا آلہ کار نہ ہو ۔اگر کشمیریوں کو لیڈر مل جاتاہے تو آزادی کی جدوجہد مہینوں کی بات ہو گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے