گمشدہ کڑیاں اور مسلمانوں کی زبوں حالی

مسلما ن آخر اتنے کمزور اور بے بس کیوں ہیں ؟ شا م سے لے کر فلسطین اورعرا ق سے لے کر لیبیا تک کیوں کہیں یہ خود ،کہیں یہ دوسرے اسلامی مما لک اور کہیں عالمی طا قتو ں کی پشت پنا ہی میں ایک دوسر ے کا گلہ کا ٹ رہے ہیں ۔شا م میں لا کھوں انسا نوں کا خو ن کیوں اقتدا ر اور مخصو ص ایجنڈے کے پجا ریوں کی پیا س نہیں بجھا پا رہا ہے؟ کیو ں کسی مسلما ن ملک یا اس کے لیڈر میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ یہ کھلواڑ بند کر اسکے ؟کیا ہما ری کھونپڑیوں کے مینار اسی طرح تعمیر ہو تے رہے گے ؟کیا ہم ہمیشہ اپنے منا فق طلع آزما ؤں اور عا لمی ایجنڈوں کی ہو س بنتے رہے گے۔دنیا میں اب ہما ری عزت اور عظمت کیا تا ریخ کی کتا بو ں سے با ہر نہیں نکلے گی ؟ کیا اب اس قو م میں کو ئی اور صلا ح الدین ایوبی نہیں پیدا ہوگا جو اس یلغا ر کو منہ مو ڑ سکے؟

وہ نو جو ان یہ سب کہتا ہوا رو ہا نسا ہو گیا۔اس کے یہ سو ال گزشتہ تین برسوں سے جا ری مشر ق وسطی او رشا م کی صورتحا ل پر کہے جا نے والے مرثیوں کا خلا صہ تھے ۔ کچھ دن قبل خون میں لت پت ایک شامی بچہ کی تصویر نے اس کو شاید بہت ہی افسردہ کردیا تھا اور وہ اب اپنا دل میرے ساتھ ہلکا کر رہا تھا۔ خون سے رنگین یہ منظر نا مہ یقیناًمسلم دنیا میں اضطراب کی کیفیت تو طا ری کئے ہوئے ہے لیکن یہ ہمدردی(sympathy vote) شا می مسلما نو ں کی مجمو عی حا لا ت کی بہتری میں کوئی رول پلے کرنے سے قا صر ہے ۔انتہا ئی اہم سوال اپنی جگہ جو اب طلب تھے اور ہیں کہ شا م درندوں کی بھوک مٹانے کے لئے کا فی شکا ر ہے یا اس جنگل میں با ری سب کی آنی ہے؟ حا لا ت کا رخ مو ڑنے کی کو ئی امید مو جو د ہے ؟ ایک با ت تو طے ہے کہ دنیا میں جس کی لا ٹھی اس کی بھینس کا قا نو ن ہے ، جب تک ہما رے پا س لا ٹھی تھی ہم بھی امن ، چین اور خوشحا لی کی زندگی بسر کر رہے تھے اب جب تک گمشدہ لا ٹھی و اپس نہیں آئے گی تب تک ہمیں ایسے ہی ما ر پڑتی رہے گی و گرنہ دوسری صو رت وہی ہے جو ہم کر رہے ہیں کہ شتر مر غ کی طرح ریت میں منہ دبا کر آنے والے خطر وں سے بے پروائی اختیا ر کی جا ئے اور جس طرح معا ملات چل رہے ہیں وہ ویسے ہی رہنے دئے جا ئیں۔یہ روش ہمیں کسی انجام تک لے کر جائے گی اس کا سوچتے بھی ہول آتا ہے۔

موضو ع چونکہ نا زک اور جذبا تی تھا اس لئے میں تمہید ایسے با ندھنا چا ہتا تھا کہ کسی نئے رخ سے مسئلہ کی تہہ کی نشا ندہی کروں ورنہ ان ایشو ز پر اندھی جذبا تیت ہی ہما را شعا ر ہو تی ہے جس کی وجہ سے ہم حقا ئق سے انکھیں چرا کرسر اب کی دنیا میں ہی اپنے فکری گھو ڑے دو ڑا ئے رکھتے ہیں ۔میں دھیمے لہجہ میں با ت شر وع کی کہ’ یا ر تمہا ری کو ئی قیمتی شے گم جائے تواسکو کیسے تلا ش کرتے ہو ؟‘۔مسلم دنیا کی ز بوں حا لی کی ڈسکشن کے دو ران اس کے لئے یہ سو ال عجیب تھا ۔وہ کچھ دیر تو قف کر کے بو لا کہ ’ میں یا د کرنے کی کو شش کرتا ہوں کہ آخری با ری وہ شے کہاں رکھی یا دیکھی تھی ‘۔ میں اثبات میں سر ہلا کر بو لا ’ہا ں! تم گمشدہ کڑیا ں(lost links) ملا نے کی کو شش کرتے ہوجب ساری کڑیا ں ملا لیتے ہو گے تو عمو ما اس شے کا سر اغ مل جا تا ہو گا؟‘۔اس نے میرے سے اتفا ق کیا ۔

’ان گمشدہ کڑیوں کا قو مو ں کے عر وج و زو ال سے گہرا تعلق ہے۔کسی قو م کی عزت اور عظمت کچھ اخلا قی اصولوں کی مر ہون منت ہوتی ہے، یہ اصول وہ کڑیاں ہیں جو کسی قوم کوسپر پا ور بنا نے یا ملیا میٹ کرنے میں کلیدی کر دا ر ادا کرتے ہیں ۔مسلما ن جب تک ان پر کا ربند رہے تو ان کاسنہری دور رہا اور جیسے ہی ہم نے یہ قیمتی اصول اپنے قو می کردارسے خا رج کر دیئے تو ہما رے بد ترین زوال کا آغا ز ہو گیا ۔پچھلے پا نچ سو سا ل سے ہم ان اصولوں کو یا د کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی نا کا م کو شش کر رہے ہیں لیکن یہ گمشدہ اخلا ق واپس آنے کا نا م ہی نہیں لے رہے ہیں ۔ جس دن ہم ان میں سے کچھ اپنے قو می مزا ج میں ڈھونڈ کر لانے میں کا میاب ہوگئے اس دن شاید اس قو م کی ما ئیں کوئی صلاح الدین ایو بی پیدا کر دیں جو ہمیں وہ و قا ر و اپس دلا دے جس کی وجہ سے جنگل کے بھیڑیے ہر روز ہما رے شکا ر پر نہ نکلیں اس سے پہلے اپنے مستقبل سے امن اشتی اور خوشحا لی کی امیدیں دیو انے کی خواب سے زیادہ کی حیثیت نہیں ر کھتی ہیں۔

کرپشن ،نا اہلی ، لا قا نونیت ، آ مریت اور اس نوع کے ایشوزجن کو مین سٹیر یم میڈیا پر بھر پور پر ائم ٹا ئم حا صل ہے وہ در حقیقت بر فا نی تو دے کی چو ٹی (tip of iceberg) کی مانند ہیں ۔ اصل اخلاقی زو ال تو ہما رے با اثر سماجی طبقا ت کا معا شرتی رویہ ہے جن کی بے حسی سے پیدا ہونے والے مسائل چین ریکشن کی صورت میں ہمارے سسٹم کی جڑوں میں بیٹھ گئے ہیں جو نہ صر ف ا سے کھو کھلا کئے جا رہاہے بلکہ بہتر ی کے ہرکو شش کو ریورس گیر بھی لگا تا جاتے ہیں۔ ان میں پہلا طبقہ تو ا مراء(elite class) کا ہے جن کے ہا تھ میں اقتدار اور معیشت کی با گ دوڑ ہے ۔ ہما رے دور زو ال کی سا ری تا ریخ ان کی خودغر ضی ، ریشہ دو انیوں اور دوسرے طبقا ت کے استحصا ل پرگو اہ ہے ۔ ان کے ذرا ئع آمدن میں حرام کی ملا وٹ نے ہمارے معا شی نظا م کے بنیادوں میں کا لے دھن کی دیمک کے حوالے کیا ہوا ہے ۔ اس پر سونے پر سہا گہ ان کی بدیانتی ، کرپشن اور ٹیکس چوری ہے جس کی وجہ سے سوسائٹی ایک مسلسل دیو الیہ پن میں معلق ہے۔کچھ استشناؤں (exception)کے علا وہ اس طبقہ کی سا ری تو جہ اپنے سٹیٹس کو قا ئم رکھنے اورآنے والی سا ت نسلوں کے لئے دولت جوڑنے تک محدود ہے۔

دوسرا اہم طبقہ اہل مذہب کا ہے یہاں مر ادان کے شر فا ء ہیں ورنہ عا م مسا جد کے مولوی حضرات یا دوسرے اس گنتی میں نہیں آتے ہیں ۔مذہبی شر فا ء کا بنیادی فرض دین کو سوسائٹی کے ہر طبقے اور شعبہ تک نہ صر ف پہچا نا ہے بلکہ خود اس پر عمل کا نمو نہ بننا بھی ہے ۔اپنے اصل مقصود سے ہٹ کران میں سے اکثریت فر قہ پرستی اورر مذہب کو چند فرائض تک محدودکرنے اور اپنی ذا تی پرموشن میں مشغول نظر آتی ہے۔جن کو حلال اور حرام کے لئے معا شرے میں بیرومیٹر بننا چاہیے ان کے چندوں اور ڈونیشنز کا آڈٹ کرنا ہمارے ہا ں نا ممکن بنا ہوا ہے۔ان مذہبی شر فاء کا فوکس اپنا حلقہ اثر بڑھا نے اور مخا لف مذہبی نقطہ نظر رکھنے و الو ں کے لتے لئے رہنے تک ہی مقید رہتاہے۔ غرض یہ علماء سوء بھی معاشرے میں کسی مثبت کنٹر بیویشن نہ دینے کے مجر م ہیں۔

تیسرا طبقہ ذہین ،قابل ، تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کا ہے ۔یورپ تا ریک دور (dark ages)سے اسی لئے نکل آیا کہ اس قبیل کے ا فر اد نے اس زما نے کی (first world)یعنی مسلم دنیاسے جدید علو م اور فلسفے سیکھ کر اپنے علا قوں میں اصلاحا ت اور تر قی کا عمل شر وع کیاجب کہ ہما رے ہا ں حا لا ت یہ ہیں کہ سوسائٹی کی کریم اپنی قیمت کا حسا ب لگاتی ہے پھر جس کے سینگ جہاں سماتے ہیں وہ وہاں نکل جاتا ہے ۔یہ بہترین دما غ اپنے سیٹل ہونے سے یو رپ یا ا مریکہ کی روشنی میں جتنا اضافہ کرتے ہیں اتنا ہی ہمارے مقدر کی تاریکی بڑھتی جاتی ہے۔

ان طبقات کے ذاتی مفا د ات کا قومی فلا ح پر تر جیحی رویے کی وجہ سے قوم کا حال اور مستقبل با نجھ ہو کر رہ گیا ہے اور ہم مغرب سے کسی بھی مید ان میں مسا بقت تو دور بقا کی جنگ لڑنے سے عاجز ہیں۔مسلم معا شروں کے یہ تینو ں اہم طبقا ت جب تک اپنے رویوں میں بے غرضی ،اخلا قی پختگی اور اصلا حا ت نہیں لا ئے گے تب تک نہ صرف ہما ری نشاہ ثا نیہ کی کو ششیں اور امیدیں بے کا ر رہیں گی بلکہ جو ما رآج دنیا کے ایک کونے کے مسلما نوں کو پڑرہی ہے اس کا دوسرے کونے تک پہنچنے میں بھی کوئی رکا وٹ در نہیں آئے گی ۔ ہمیں ہو ش کے نا خن لے کر اپنے معا شرتی رویوں کو درست کرنا ہوگاورنہ آج اس مظلوم شامی بچہ پر توہم رو رہے ہیں کل کو ہم پر کون رؤے گ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے