"نام بڑے درشن چھوٹے”

دنیا بھر کے ممالک کے اتحاد سے بنا امن فورم "اقوام متحدہ” اور اس کا سالانہ اجلاس ، جہاں اہم عالمی مسائل زیر غور لائے جاتے ہیں ، ان کا حل تلاش کیاجاتاہے، اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے سربراہان مملکت "جنرل اسمبلی” اجلاس میں شرکت کرتے ہیں، مبصرین اور غیر رکن ممالک کے نمائندگان بھی شرکت کرتے ہیں ،رکن ممالک اپنے اور دوسرے ملکوں کے معاملات کو ہم منصب حکام کے سامنے پیش کرتے ہیں ، اپنا موقف پیش کیاجاتا ہے، دوسرے کو تحمل سے سُنا جاتا ہے، اجلاس میں ہونے والے ہر ایک کے خطاب کو 6 مختلف زبانوں میں پیش کیا جاتاہے، عربی ، چینی، انگلش، فرانسیسی، روسی اور ہسپانوی۔خطاب اور اعلامیے کو ویب سائٹ پر جاری کیا جاتا ہے،

ہر سال ہونے والے اجلاس کے سائیڈ لائن ملاقاتوں میں بھارتی وفد اور وزیراعظم کی امریکی صدر سے ناشتے پر بات ہوہی جاتی ہے اور پاکستانی وفد و وزراء بس انتظار کرتے رہتے ہیں یا ناگزیر وجوہات کی بناء پر اپنا سا منہ لیے لوٹ آتے ہیں ،
رواں سال بھی نیویارک میں جنرل اسمبلی اجلاس ہوا، لیکن اس بار بھارتی وزیراعظم نریندر مودی شرکت نہ کرسکے ، ان کی جانب سے وزیر خارجہ سشماسوراج نے شرکت کی،

کچھ روزقبل وزیراعظم نواز شریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے عالمی فورم پر آواز اٹھائی ،کشمیر میں ہونے والے مظالم کی تحقیقات اقوامِ متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کے ذریعے کروائے جانے کا مطالبہ کیا ۔ نوجوان لیڈر برہان وانی اور بے گناہ کشمیریوں کو شہید کیے جانے کا ذکر بھی کیاگیا، وزیراعظم نواز شریف نے برہان ونی کو شہید کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا۔
کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں برہان وانی کی شہادت کے بعد 77 روز میں اب تک 110 سے زائد کشمیری شہید اور 3 ہزار زخمی ہیں، برہان وانی کی شہادت نے تحریک آزادی کشمیر کو نیا جذبہ دیا ہے،

جنرل اسمبلی اجلاس میں وزیراعظم نوازشریف دنیا کو بھارت کا مکروہ چہرہ دکھانا چاہتے تھے، لیکن ہاتھ ذرا ہولا رکھا، شاید بزنس خراب ہونے کا ڈر تھا یا پڑوسی سے اچھے تعلقات کا معاملہ اوریاپھرا من کی آشا۔

وزیراعظم نوازشریف کی تقریر پر عوام، حکمرانوں اور اپوزیشن نے خوب واہ واہ کی، ہر فورم پرسراہا گیا، بغلیں بجائیں، تقریر کی تائید میں سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ باہمی اختلافات کے باوجود کشمیر کے معاملے پر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کا مؤقف یکساں ہے۔
ساتھ میں یہ بھی کہا کہ بلوچستان میں غدر مچانے والے "را” ایجنٹ "کلبھوشن یادو” کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا، بھارت کی جانب سے در اندازی پر آواز کیوں نہ اٹھائی گئی؟ مختلف دہشت گرد حملوں اور لوگوں کو اکسانے پر بھارت کی کھنچائی کیوں نہ ہوئی؟

ابھی تو کچھ کہا نہیں تب تو یہ عالم ہے کہ بھارت کی راتوں کی نیند حرام ہوگئی، سرحدوں پر فوجی سرگرمیاں بڑھادی گئیں،بھارت کی جانب سے پاکستان پر حملوں کی منصوبہ بندی شروع کر دی گئ۔

مودی کی وار روم یاترا کے بعد بھارتی فوج نے بھاری اور درمیانے درجے کے ہتھیار اگلے مورچوں پر پہنچانا شروع کر دیئے ۔اجیت ڈوول اور فوجی سربراہوں کی طرف سے نقشوں کی مدد سے اہداف کی نشاندہی بھی کی جس کے بعد بھارتی فوج حرکت میں آگئی ۔

بھارتی میڈیا بھی ہتھے سے اکھڑ گیا۔ دلوں میں بھرا گند اور زہنوں میں بھرا زہر اگلنا شروع کردیا،

جس روز وزیراعظم نوازشریف نیویارک پہنچے، اسی وقت مقبوضہ کشمیر کے علاقے اڑی میں بھارتی فوج کے ہیڈ کوارٹر پر حملے کی خبر آگئی ، جس میں 17 بھارتی فوجی مارے گئے،،

عالمی میڈیا کی توجہ وزیراعظم نواز شریف کی تقریر اور موقف سے ہٹانے کے لیے بھارت نے لاشوں کی سیاست کی اور اپنے 17 فوجیوں کو قتل کر وا کے اس کی گھنٹی پاکستان کے سر باندھنا چاہی، اپنے پیدا کیے گئے ایشو کو اچھالنے کے لیے بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے روس اور امریکہ کا دورہ منسوخ کردیا اور ہذیان کے سے انداز میں کہا کہ ’’پاکستان ایک دہشت گرد ریاست ہے اس کی شناخت ایک دہشت گرد ریاست کے طور پرکی جانی چاہیے اور اسے الگ تھلگ کرنے کی ضرورت ہے۔”

چھوٹے بڑے جس کے منہ میں جو آیا، بکتا رہا، الزامات لگاتا رہا۔ کشمیر مسئلے کو لے کر مسلسل پاکستان کو جنگ کی طرف دھکیلنے اوراکسانے کی کوشش کررہا ہے، لیکن شاباش ہے پاکستان کے حکام، عوام اور میڈیا کو، جس نے تحمل مزاجی سے ہر الزام، ہربات کا جواب دیا،

جنرل اسمبلی اجلاس میں تقریر پر بھارت کو اتنی مرچی لگی کہ انتہا پسند ہندو تنظیم نے وزیراعظم پاکستان کے سر کی قیمت لگاتے ہوئے ایک کروڑ روپے کا انعام کا اعلان کردیا۔ ہمارے والے کیوں پیچھے رہتے، ہم کسی کو کچھ بھی کہیں لیکن کوئی دوسرا کسی پاکستانی شہری کے بارے میں کچھ کہے یہ قبول نہیں لہذا کراچی کے ایک تاجر حاجی الیاس پٹیل کا کہنا ہے کہ جو شخص بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو پکڑ کر لائے گا اسے ساڑھے دس کروڑ روپے انعام میں دونگا،

کسی طرح بات بنتی نظر نہ آئی تو بھارت نے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال بھی شروع کردیا اور پاکستان کا پانی بند کرنے کی منصوبہ بندی بھی کر لی گئی ۔

گزشتہ روز جنرل اسمبلی میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے خطاب کیا اور کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچتی نظر آئیں ، ہوا میں تیر چلاتی سشما نے ایک بار پھر ممبئی حملوں کا رونا رویا، پاکستان سے متعلق روایتی تقریر کرتے ہوئے گھبراہٹ میں سشما سوراج اقوام متحدہ کی بھی توہین کرگئیں. انہوں نے کہا کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور رہے گا۔

کوئی ان کو بتائے کہ کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے، جس کے لیے کشمیریوں کا صوابدیدی اختیار نہیں دیا گیا، اگر بھارت خوش فہمی کا شکار ہے اور سشما کشمیر کو بھارت کا حصہ مانتی ہیں تو جواب دیں کہ دہشت گرد ملک کون ہے، برس ہا برس سے ریاستی جبرکون کررہاہے؟ وہاں بے گناہوں کا خون کیوں بہایا جارہاہے؟ وہاں 7 لاکھ بھارتی فوجی کیوں بربریت دکھارہےہیں؟ وہاں اڑی پر حملہ کیوں نہ روکا گیا؟

بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں پاکستان کے خلاف ایک بار پھر ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان بتائے کہ بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، جن کے شیشے کے گھر ہوں ان کو کسی کو پتھر نہیں مارنے چاہئیں۔

اب کوئی ان کو بتائے کہ بھارت میں 36 علیحدگی پسند تنظیمیں کام کررہی ہیں ، جو اس وقت کشمیریوں کی ہم آواز ہیں ، آزادی چاہتی ہیں، شیشے کا گھر کس کا ہے؟ بتانے کی ضرورت تو نہیں رہی ہوگی، پاکستان کے گوشے گوشے سے یک ساتھ رہنے اور زندہ باد کے نعرے بلند ہورہے ہیں تو بھارت میں سکھوں اور دیگر تنظیموں نے آزادی کے لیے آواز بلند کی ہے، سشما کے خطاب سے قبل نیویارک میں سکھ برادری اور کشمیریوں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا،

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے