پاک چین اقتصادی راہداری اور کشمیر

کشمیر کی آزادی کی تحریک کو ہائی جیک کرنے والوں کی غلطیوں کے سبب اب تک کم وبیش 5لاکھ کشمیری قتل ہو چکے ہیں اور اب گیند بھارت کے ہاتھ میں جاتی نظر آ رہی ہے ۔اب کی بار بھارت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں قتل عام کا منصوبہ تیار کررہاہے ۔آزادی کی اس نئی تحریک میں اکیلا بھارت ہی حصہ دار نہیں ہوگا بلکہ بھارت کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی اس کھیل کا حصہ ہے ۔

عالمی منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے ،کل تک پاکستان کا سب سے بڑا مخلص دوست امریکہ آج بھارت سے گہری قربت اختیار کر چکا ہے کیونکہ اسے چین کی ترقی کسی بھی صورت قبول نہیں ، اس سارے تناظر میں کشمیر کے خود ساختہ وکیل بھی بدلنے جارہے ہیں . وکالت کا بارگراں اب پاکستان کے ہاتھ سے نکل کر بھارت کی گود میں گرنے والاہے ۔

چین نے اپنی برآمدات میں اضافے اور نئی منڈیوں کی تلاش کے لیے پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے۔ اس سے قبل شاہراہ ریشم تعمیر کر کے چین نے پاکستان کی صنعت کو عملاًمفلوج کیا، اس کرم نوازی کے باعث اب پاکستان میں اکثر صنعتی اشیاء”میڈان چائنہ“ ہی کی ملتی ہے ۔

پاکستان کی چین کیساتھ براہ راست سرحد تو نہیں ملتی لیکن شاہراہ ریشم کی طرح پاک چین اقتصادی راہداری بھی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان جیسے عالمی تسلیم شدہ متنازعہ علاقے سے گزر کر ہی پاکستان میں داخل ہو گی۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیراور گلگت بلتستان دو الگ الگ انتظامی یونٹ ہیں ۔ 80 کی دہائی میں جب گلگت کے عوام نے شاہراہ ریشم سے اپنا حصہ طلب کیا تو جنرل ضیاءالحق نے علاقہ میں فرقہ واریت شروع کروا کر باقاعدہ پاک فضائیہ کے ذریعے بمباری کرائی۔

چلاس سے بہت سے لوگوں‌کو جہاد کے نام پر جمع کر کے ان سے سرکاری سرپرستی میں استور میں قتل عام کروایا اور اس کے بعد سے اب تک گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کا سلسلہ جاری ہے ۔جب کبھی ضرورت پڑتی جاتی ہے توچنگاری سلگادی جاتی ہے ،قتل عام میں پاکستان مفادات حاصل کیے جاتے ہیں ۔

گلگت بلتستان کے عوام آج بھی شاہراہ ریشم سے گزرنے والے مال برادارٹرکوں کو صرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے کی ہمت رکھ سکتے ہیں۔

گلگت میں فرقہ واریت کے باعث شاہراہ ریشم اور اقتصادی راہداری کاروٹ غیر محفوظ تصور کیا جاتا ہے ۔دیامر بھاشا ڈیم اس روٹ میں بڑی رکاوٹ بن رہا ہے ۔ڈیم کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد شاہراہ ریشم کو بائی پاس سے گزارنا پڑے گا جو کہ 50کلو میٹر اضافی فاصلہ بنتاہے ۔

حکومت پاکستان و حکومت چین نے متبادل روٹ کے لیے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی وادی نیلم کو براستہ شونٹھر شاہراہ ریشم سے منسلک کرنے کا منصوبہ تیار کررکھا ہے اور اس روٹ کی تیاری کے لیے سروے بھی کیا جا چکا ہے اور شنید ہے کہ اگلے سال اس کی تعمیربھی شروع کر دی جائے گی۔

چین اس وقت ایشیاسمیت پوری دنیا میں تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت ہے جبکہ دوسرے نمبر پر بھارت تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک بن رہاہے۔ چین اپنے قیام سے لے کر آج تک معیشت کو عروج پر لے جانے اور جنگوں سے اجتناب کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔

ماروے تنگ کے انقلاب کے بعد غربت ،بھوک،افلاس پر قابو پانے کے ساتھ ہی چین نے معیشت پر زور دیا. آج آدھی سے زائد دنیا میں چینی مصنوعات استعمال کی جاتی ہے اورچین کی پالیسی ہے کہ وہ پوری دنیا کو اپنی مصنوعات کا محتاج بنائے اسی لیے اس نے پاکستان کے ذریعے دنیا پر راج کرنے کے لیے اقتصادی راہداری منصوبہ شروع کر رکھا ہے۔

موجودہ دنیا کا نمبردار امریکہ کسی بھی صورت میں یہ نہیں چاہتا کہ چین اقتصادی راہداری منصوبے کے فوائد سمیٹے اور دنیا میں ہمارے مد مقابل ایک مضبوط و مستحکم معاشی قوت بن کر کھڑا ہو. اسی طرح بھارت کو بھی یہ راہداری کسی صورت قبول نہیں .اسی لیے وہ بھی امریکہ کی صف میں کھڑا ہے اور اس کی بھی یہ کوشش ہے کہ چین مجھ سے آگے نہ نکل جائے ۔

سائنس کی رو سے ہر عمل کار ردعمل ہوتا ہے اور اسی نظریہ کے تحت پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے ردعمل میں امریکہ اور بھارت انتہائی قریب آگئے ہیں .گزشتہ دنوں امریکہ بھارت معائدوں پر پیسے لے کر بیگانی جنگ کو جہاد قرار دینے والے پاکستانی مسلمان تلملا اٹھے ہیں اور امریکہ کو صبح و شام احسان فراموش قرار دے رہے ہیں۔

امریکہ بھارت معائدے اور دونوں ممالک کی قربت تو ابتدائے عشق ہے .جس طرح امریکہ نے پاکستان کو روس کےخلاف استعمال کیا، اسی طرح امریکہ بھارت کو چین وپاکستان کے خلاف استعمال کرکے اقتصادی راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے ہر حربہ استعمال کرےگا ۔

اقتصادی راہداری کا سب سے کمزور پوائنٹ متنازعہ خطہ کشمیر ہے اورامریکہ وبھارت نے اپنی تمام تر توجہ اس پر مرکوز کر لی ہے ۔آزادی کشمیر کی جو آواز آج مظفرآباد اور سری نگر سے بلند ہوا کرتی ہے وو اب اس سے کئی گنا موثر اور جاندار انداز میں گلگت بلتستان سے بلند ہوگی ۔

اقتصادی راہداری منصوبہ شروع کرنے کے قبل جب چین نے گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت ختم کرنے کا مطالبہ کیا تو پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے گلگت بلتستان میں اصلاحات کے نام پرقانونی حیثیت تبدیل کرنے کی تجویز پیش کر دی . جس پر گلگت بلتستان کے حکمران اقتدار کی خاطر چپ رہے مگر مظفر آباد اور سری نگر سے واضح اور دوٹوک موقف سامنے آنے کے بعد حکومت پاکستان نے چپ سادھ لی ۔

اب فا ٹا کو خیبر پختونخواہ کا حصہ بنا کر ایک مثال قائم کی جارہی ہے اور اسی مثال کو مد نظر رکھ کرگلگت بلتستان کی متنازع حیثیت کو ختم کر کے مستقل صوبہ بنانے کی کوششیں کی جائیں گی۔

حکومت پاکستان نے اگر گلگت بلتستان کو مستقل صوبہ بنانے کی کوشش کی تو رد عمل میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان سے آزادی کی شدید لہر اٹھے گی جسے کنٹرول کرنا حکومت پاکستان کے بس میں نہیں ہو گا۔

پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی صورتحال میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے . فوجیں وہاں بھی سڑکوں پر تعینات ہیں اور فوجیں یہاں بھی بندوقیں تانے کھڑی ہیں . پاکستان کی حمایت سے 1990میں جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح جدوجہد شروع ہوئی تو ردعمل میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور کشمیریوں کے قتل عام کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے ،

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اگرچہ آزادی کے لیے مسلح جدوجہد نہیں ہوئی مگر پھربھی مجھے گھر جاتے ہوئے درجنوں مرتبہ اپنی شناخت کرانی پڑتی ہے۔ اگر فرشتے کے ہاتھ میں بھی گن دے دی جائے توو ہ بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ضرور مرتکب ہو گا۔

حکومت پاکستان اور پاکستانی اداروں کو چا ہیے کہ وہ کشمیر کےبارے میں‌اپنی پالیسی تبد یل کریں ، کسی کو بندوق کے زور پر اپنے ساتھ شامل نہیں کیا جا سکتا، حقیقی رائے ریاست کے باشندوں ہی کی ہوگی . 1947میں مذہب کو سیاسی مقاصد کے لی استعمال کیا گیا مگر اب ایسا تجربہ دہرانا خود کشی کے مترادف ہو گا ۔

اگر اقتصادی راہداری منصوبے کو کامیاب بنانا ہے تو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کو ون یونٹ بنا کر بھوٹان طرز پر خودمختاری دی جا ئے ۔ آئر لینڈ ماڈل بھی قابل عمل ہو سکتاہے ۔

نفرتیں شعلہ بننے سے قبل ختم کر دی جائیں تو سب کے لیے سود مند ہے ۔کشمیر کا فیصلہ کشمریوں نے کرنا ہے ۔ ہمسائے بدلے بھی نہیں جاتے ۔ بہتریہی ہے کہ ہمسایوں کے ساتھ اچھا برتاﺅ کیا جائے ۔

معاشی و اقتصادی ترقی اور اقتصادی راہداری کی کامیا بی کیلئے کشمیر کو ملک تسلیم کر کے اس کے ساتھ سہہ قر یقی معا ئدہ کیا جائے ۔

پاکستان سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک بنائے جائیں جو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی آزادی کیلئے اپنا کردار ادا کریں ۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان پر مشتمل ”آزاد کشمیر “بھارتی تسلط کے خاتمے اور کشمیر کی مکمل آزادی کیلئے بھی سو د مندثابت ہو گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے