ہم اپنے معمول کے سماجی رویوں میں صرف انہیں باتوں کو سچ باور نہیں کرتے جس کو عدالت میں بھی سچ ثابت کیا جا سکے۔ بہت سی باتیں ہم اپنے اعتماد کے راویوں پر اعتبار کی وجہ سے سچ مانتے ہیں اور ان پر اہم فیصلے کرتے ہیں۔ تاہم ضروری ہے کہ راوی پر اعتبار کرنے کی ٹھوس وجوہات ہوں۔
عدالت میں سچائی ثابت کرنے کے معیارات الگ ہوتے ہیں۔ وہاں کسی سچائی کے ثابت نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بات سچ نہیں ہے اور جو ثابت ہوا ہے، سچ بھی وہی ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ کوئی آدمی اپنی چرب زبانی سے مجھ سے کوئی ایسی چیز منوا لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے جو درحقیقت اس کا حق نہیں ہوتی تو وہ مجھ سے آگ کا انگارہ لیتا ہے۔
علی مرتضی کا واقعہ منقول ہے کہ وہ عدات کو قائل نہ کر سکے تھے کہ ایک یہودی کے قبضے میں جو زرہ تھی وہ حضرت علی کی تھی اور یہودی نے چرا لی تھی۔ عدالت نے تو حضرت علی کا دعوی اور ان کی پیش کردہ گواہی قبول نہیں کی تھی لیکن کیا ہم بھی نہیں مانتے کہ علی سچے تھے اور زرہ ان کی تھی؟ ہم ایسا کیوں مانتے ہیں؟ اس لیے کہ ہمیں حضرت علی پر اعتبار ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے تھے، لیکن عدالت کے معیارات اور مطالبات الگ ہوتے ہیں، ان معیارات پر حضرت علی کا دعوی اور گواہی پوری نہ اتر پائی تھی۔ یہ فرق ہے عدالتی سچ اور سماجی سچ میں۔
کرپٹ معاشروں میں عدالتیں طاقت وروں کی پناہ گاہیں بن جاتی ہیں۔ عدالت کی طرف بلاتا ہی وہ ہے جو طاقت ور ہوتا ہے جوسماجی سطح پر اپنا سچ ثابت نہیں کر سکتا۔ اس پر مستزاد یہ کہ مدعی اگر عورت ہو تو جو حال ہماری عدالتیں اور وکیل اس کے ساتھ کرتے ہیں ہر واقفِ حال کو علم ہے۔ اس کی ذات اور کردار کو ننگا کر کے رکھ دیا جاتا ہے۔ ہر متاثرہ خاتون کی کوشش ہوتی ہے کہ عدالت نہ جانا پڑے اور اگر انتہائی صورت میں وہ عدالت جانے کی ٹھان ہی لے تو خود اس کے گھر والے بلکہ پورا سماج اس کی راہ کی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ پھر بھی کوئی خاتون گواہی دینے عدالت یا سماج کی عدالت میں آ جاتی ہے تو یا تو وہ کوئی چالو عورت ہوتی ہے جسے اپنی عزت کی پرواہ نہیں ہوتی، اور اس کے اس اقدام سے کوئی مفاد وابستہ ہوتے ہیں، اور اگر وہ شریف عورت ہے تو یا تو بہت جرات مند ہے جو اپنی اور دوسروں کی عزت بچانے کے لیے اپنی عزت کو سماج کے بھیڑیوں کی چیڑ پھاڑ کے حوالے کرنے پر تیار ہو گئی ہے یا وہ انتہائی مجبور ہے جس کے پاس یہ قدم اٹھانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
خبر واحد کو حجت ماننے والوں کو تو اس پر بالکل بھی اعتراض نہیں ہونا چاہیے وہ سچ بھی سچ ہی ہوتا ہے جو عدالت میں اگرچہ ثابت نہ ہو سکے لیکن محض راویوں کی ثقاہت کی بنا پر سچ مان لیا جائے، اور واقعاتی شھادتیں اور قرائن اس کے حق میں ہوں۔ الیاس گھمن کے کردار پر لگنے والے الزمات کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔
غیر جانب داری سے خبر واحد کے اصولوں کی روشنی میں دیکھئے تو گھمن صاحب پر لگے الزامات کے سچا ہونے پر گمانِ غالب کی متعدد وجوہات ہیں۔ اس شخص پر بدکاری کا الزام کئی بار لگا، مختلف لوگوں کی طرف سے لگا،لیکن ناکافی ثبوت اور گواہوں کی عدم موجودگی میں کبھی کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوا، کیونکہ لوگ ایسے معاملات میں اپنی عزت بچانے کی فکر میں سامنے آنا او گواہی دینا گوار نہیں کرتے۔ اس کی مالی کرپشن، وعدہ خلافی کے متعدد گواہان گواہی دے چکے ہیں۔ لیکن اب جب ان کی سابقہ اہلیہ اور اس کی اولاد کی طرف سے یہ الزامات سامنے آئے تو معاملے کی سنگینی میں اضافہ ہو گیا ہے۔
الزام لگانے والی سابقہ بیوی ہے جو ایک معروف، دین دار، سادات گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ خاتون پختہ عمر کی ہیں۔ معاملے کی براہ رست گواہ ہیں۔ الزام میں انہوں نے اپنی بیٹیوں کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کی بات کی ہے۔خاتون کی بیٹی اور بیٹا بھی ماں کی تائید کرتے ہیں ۔ ہمیں معلوم ہے کہ کوئی عورت اپنی اور اپنی بچیوں کی عزت پر کبھی بات نہیں آنے دیتی۔ خصوصا ایسے گھرانے کی خاتون جن کے لیے عزت ہی سب کچھ ہے۔ اس عزت کی خاطر عورت ہر ظلم و زیادتی برداشت کر لیتی ہے۔ یوں اپنی اور اپنی بچیوں کی عزت کی بات کرنے پر ان کا سراسر نقصان ہے، کوئی فائدہ نہیں۔ اس گھرانے کے راویوں کے جھوٹا ہونے کی کوئی بظاہر کوئی وجہ نہیں ہے۔ خاتون نے خط میڈیا کو نہیں، علماء اور مفتیا ن کو لکھا تھا، تاکہ گھمن صاحب کی اپنی بیٹیوں کے ساتھ حرکتوں کے بعد ان کے ساتھ اپنے تعلق کی فقہی نوعیت معلوم کر سکے۔
مزید یہ کہ مولانا سلیم اللہ خان اور دیگر اکابرین سے گھمن صاحب سے لا تعلقی کا اعلان بھی کر دیا۔ ان کے بہت سے ساتھی ان سے اعلان برات کرتے ہیں، اب ایک عام آدمی ان گواہان ، واقعاتی شھادتوں اور قرائن کے بعد اور کیا فیصلہ کر سکتا ہے۔ یہ سماجی سچ ہے۔ گھمن صاحب اگر عدالت میں مدعیہ کو جھوٹا ثابت کر بھی دیں پھر بھی سماج کی عدالت میں ان کی سچائی ثابت نہیں ہوسکتی جب تک وہ یہ نہ بتائیں کہ ان پر بار بار یہ الزامات کیوں لگے۔ مفتی زین العابدین کے معروف دینی گھرانے والے اگر جھوٹ بول رہے ہیں تو کیوں؟ مولانا سلیم اللہ خان اور دیگر اکابرین نے کیوں ان سے لا تعلقی کا اعلان کیا؟
یہ الزامات نہایت سنگین ہیں۔ محض عدالت کے طرّے پر ایسے الزامات لگے شخص پر اعتبار کرکے حوا کی بیٹیاں اس کے حوالے نہیں کی جا سکتیں۔
یہ اکابرین کی طرف سے اعلان لا تعقلی کیا ہوتا ہے؟ اگر ان کے اعلان لا تعلقی کی وجہ گھمن صاحب کی یہ گھناؤنی حرکتیں تھیں تو کیا ان یہ اعلان بلا تفصیل مسلمان بچیوں کی عزت بچانے کے لیے کافی اقدام تھا؟ کیا ان کا فرض نہیں بنتا تھا کہ وہ ایسے شخص کو علی اعلان بے نقاب کرتے تاکہ دین کے نام پر، دینی تعلیم کے نام پر کوئی مسلمان بچی اپنی عزت نہ گنواتی۔ اس شخص کے سوشل بائیکاٹ کی مہم چلائی جاتی۔
یہی گھمن صاحب اگر کوئی مسلکی اختلاف کر جاتے، کوئی علمی تفرد اختیار کر لیتے تو پھر ہم دیکھتے کہ کیسے غیرتیں جاگتیں، گھمن صاحب استعمار کے ایجنٹ بھی قرار پاتے، وفاق المدارس اس کے مدرسے کے بچوں کا رزلٹ روک کر اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتا، خطیب منبر سے اس کے خلاف فتوے جاری کرتے، رسالے نکالتے، کانفرنسیں اور سیمینار ہوتے، حتی کہ اس کو قتل کرنے کی کوشش ہوتی، اسے ملک بدر ہو جانے پر مجبور کر دیا جاتا۔
لیکن ایسا کچھ نہ ہوا، بس اعلان لا تعلقی ہوا۔ کیوں؟ عورت کی عزت کے تحفظ کے لیے وہ حساسیت کیوں نہں پائی جاتی ان کابرین میں جو اپنے مسلک کی حفاظت کے لیے پائی جاتی ہے۔۔ جتنی غیرت اسلاف سے محض علمی اختلاف کرنے پر جوش کھانے لگتی ہے وہ ایک عورت کی آہوں اور سسکیوں پر کیوں بل نہیں کھاتی۔ مجھے حیرت ہے کہ اگر یہ سب ان کے علم میں تھا تو محض اعلان لا تعقلی کر کے وہ خدا کی جواب دہی سے خود کو کیسے بچا پائیں گے۔ خدا کو کیا منہ دکھائیں گے۔