پیغامِ کربلا

یزید زندہ رہ کر بھی مر گیا ۔ حسینؓ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ ہوگئے۔ کربلا ایک ایسی جنگ کہ جس کا مقصد سمجھنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اپنے پورے کنبے کو آخر کیوں شہادت کی کی رہ پر لے چلے۔ کیا حکمرانی کی چاہ تھی؟ حکمرانی حسینؓ اور ان کے کنبے کے لیے ان کے تلوں تلے پڑی جوتیوں کی خاک بھی نہیں تھی۔آخر کیا وجہ تھی جو حسینؓ سب کچھ چھوڑ کر یزید اور یزیدیت کے خلاف کھڑے ہوئے۔ کیا حسینؓ کو جنت کی طلب تھی۔ وہ تو سردارِ ﷺ کائنات کے کندھوں پر کھیلے تھے ۔ جن کے والد علی المرتضیٰؓ کہتے ہیں میں نماز جنت کے حصول کے لیئے نہیں پڑھتا بلکہ میرا اللہ عبادت کے لائق ہے اس لیئے پڑھتاہوں۔ جس کی گھٹی میں یہ بات شامل ہو وہ کیسے جنت کو اپنا محور بنا سکتے ہیں۔

حسینؓ کی شہادت کی صرف ایک ہی وجہ تھی کہ دنیا میں اسلام کا صحیح نظام نافذ کیا جاسکے۔ خلافت میں ضروری نہیں کہ ہر خلیفہ صحیح ہو۔ مگر جب کبھی نظام میں خرابی نظر آئے تب حسینؓ کی سعی نظر آتی ہے۔ اسلام کا نظام اور اللہ کا حکم اس دنیا میں رائج کرنا ہر کام سے زیاد ہ اہم ہے۔ خلافت اسلام میں اہم ترین جز ہے۔ انسان بھی اللہ خلیفہ ہے اور خلیفہ کا کام یہی ہوتا ہے جو حسینؓ نے کر دکھایا ہے۔ نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا حسینؓ کی سنت ہے۔ حسینیت کا مطالبہ ہے ہمیشہ باطل کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ باطل کے خلاف آواز کیسے اٹھائی جائے ۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ نظام کو ویسا ہی رہنے دیا جائے اور باقی لوگو ں کو سدھارنے کی طرف توجہ دی جائے۔ آہستہ آہستہ لوگ خود ہی سدھر کر معاشرے کو سدھار سکیں گے۔ لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں ۔ نیچے جتنی بھی صفائی کرلی جائے اوپر سے بہتا پانی اگر گندہ ہو تو نیچے کی زمین صاف رہنے نہیں دیتا ۔ اس لیے حسینؓ نے بھی اس وقت کے باطل نظام کو ختم کرنے کے لیے تیغ بلند کی۔ کنبہ جائیداد کسی کی پرواہ کیے بغیر اللہ کے نظام کے قیام کی خاطر آواز حق بلند کی۔

نماز، روزہ ، حج ، زکوۃ یہ سب حسینؓ سے اچھا آج کا کوئی ولی نہیں کر سکتا۔ کیوننکہ ولی بھی حسینؓ سے سیکھتا ہے کہ ولی کیسے بنا جائے۔ مگر یہی کافی ہوتا تو حسینؓ صرف نماز روزہ کرتے رہتے اور افراد کی طرف متوجہ رہتے۔اس وقت میں اور آج میں بس اتنا فرق ہے کہ کوئی حسینؓ بنے کوتیار نہیں۔ حسینؓ کے ہاتھوں میں ہاتھ دینے کے لیے کوئی عباسؓ ، سکینہؓ یا زینبؓ موجود نہیں۔ کربلا ایک مقام میدان یا کسی جنگ کا نام نہیں ، بلکہ ایک ماحول کا نام ہے۔ وہ ماحول آج پھر بن چکا ہے لیکن ہم صرف اپنی عام نمازوں میں مصروف ہیں۔ سجدۂ شبیرؓ کرنے کا حوصلہ نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے