حلب جل رہا ہے
ہم جلا رہے ہیں
اس بات میں کوئی شبہ نھیں کہ کسی بھی معاملے کے پس منظر میں بہت سارے پہلو کارفرما ہوتے ہیں۔لیکن بحیثیت مسلمان ہماری یہی ذمہ داری ہے کہ ہم اس معاملے میں سب سے پہلے اپنا جائزہ لیں اس بات کا جائزہ لیں کہ ہمارا دین اس حوالے سے ہمیں کیا ہدایت کرتا ہے۔
اس پوسٹ میں ہم اس بات پر گفتگو کریں گے کہ کیا مسلمان علما نے اس معاملے میں اپنی اس ذمہ داری کو پورا کیا ہے۔
1-شام میں موجودہ صورت حال کا آغاز بظاہر بشار الاسد کے خلاف احتجاج سے ہوا تھا۔ یہ احتجاج الشعب یرید اسقاط النظام کے نعرے کے تحت آگے بڑھا ۔احتجاج کے حوالے سے دین نے ہماری یہ رہنمائی کی ہے کہ کہ ہمیں ہر حال میں فساد سے دور رہنا ہے۔کسی نظم اجتماعی کو توڑنے کی بات کرنا محض احتجاج نھیں ہے۔ دین نے اس بارے میں یہ بھی ہدایت کی ہے کہ ہم کسی کی جان مال آبرو کے خلاف زیادتی نھیں کرسکتے۔کیا ہمارے علما نے اس شورش کے اغاز میں یہ بات لوگوں کو بتائی تھی۔کیا انھوں نے بتایا تھا کہ یہ حق انسان کو کس صورتحال میں حاصل ہوتا ہے۔
2-شام میں جس وقت لوگوں نے حکومت کی تبدیلی کے لیے اسلحہ اٹھا لیا اس موقع پر علما کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ لوگوں کو تلقین کرتے کہ مسلمانوں کے مابین جب نوبت یہاں تک پہنچ آئے کہ وہ ایک دوسرے کے قتال تک پہنچ جائیں تو مذہب کی واضح ہدایت ہے کہ اس موقع پر دونوں گروہوں سے الگ تھلگ ہو کر زندگی گزاری جائے۔ایسے فساد کے موقع پر رسول اللہ نے بتایا ہے کہ درختوں کی جڑین کھا کر زندہ رہ لینا لیکن اس فساد کا حصہ نہ بنا ورنہ جاہلیت کی موت مارے جاو گے۔کیا انھوں نے یہ کیا؟
3-اس کے بعدشام میں جب ایک گروپ کو کچھ علاقوں میں فتح حاصل ہوگئی اور وہ اس فتح کو احادیث کے ذخیرے میں موجود بعض بشارتوں سے منسوب کرنے لگے تو علما کو اگے بڑھ کر یہ بتانا چاہیے تھا کہ ایسی سب روایات محل نظر ہیں ان میں سندا اور درایتا دونوں لحاظ سے مسائل ہیں لھذا دین ایسی کوئی بنیاد فراہم نھیں کرتا کہ شام میں لڑا جائے۔کیا علما نے یہ غلط فہمی دور کی؟
4-اس کے بعد ان گروپوں نے وہاں خلافت کا اعلان کیا تو یہ بھی وہ موقع تھا جب علما کو اگے بڑھ کر بتانا چاہیے تھا کہ دین میں اس کا کوئی تصور نھیں۔نہ ہی دین مسلمانوں کو پابند کرتا ہے کہ پوری دنیا میں یہ نظام حکومت قائم کریں اور نہ ہی ایسا کوئی آدمی بزعم خود مسلمانوں کا حکمران بن سکتا ہے۔اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ مسلمانوں کا نطم اجتماعی اسے منتخب کرے۔ کیا علما اس بات سے متفق تھے جو اس کے خلاف انھوں نے آواز بلند کی؟
5-شام میں خلافت کے قیام کے بعد جب وہاں موجود اس خلافت کی انتظامیہ نے لوگوں کو کفر شرک اور ارتداد سے لے کر داڑھی نماز اور لباس تک پر سزائیں دینے کا اعلان کیا تو علما کو یہ بتانا چاہیے تھا کہ یہ ذمہ داری انسان کی نھیں کہ وہ لوگوں کے کفر و ایمان کا فیصلہ کرے ۔اس پر بھی کیا کبھی انھوں نے کوئی اختلاف ظاہر کیا۔
6-مسلمان علما کو اس موقع پر دیگر مسلمانوں کو متوجہ کر کے بتانا چاہیے تھا کہ ایسے کسی نظام کی تائید نہ کریں جو عام لوگوں کے ہاتھ میں اسلحہ دے کر انھیں لڑنے پر آمادہ کرے کیونکہ اسلام میں ظلم کے خلاف جھاد بھی ریاست کی اجازت اور اپنی حیثیت کا اندازہ لگائے بغیر ممکن نھیں۔کیا انھوں نے ایسا کیا؟
میرے خیال میں ان میں سے کوئی ایک کام بھی ہمارے علما نے نھیں کیا بلکہ اس کے بر عکس وہ اس طرح کی صورت حال میں ماضی میں بھی افغانستان ،کشمیر ، چیچنیا اور دیگر جگہوں پر نہ صرف یہ کہ اس طرح کے فساد کا حصہ بنیے بلکہ اس آگ کے شعلوں کو اج تک محسوس کرنے کے باوجود اس میں شمولیت اپنے لیے سرمایئہ افتخار سمھجتے ہیں۔اس صورت حال میں بھی سنی علما نے شیعہ کے خلاف اور شیعہ علما نے سنییوں کے خلاف دونوں گروپ کی تائید کی۔ان کی حونصلہ افزائی کی۔ان کی ابتدائی فتوحات پر داد تحسین دی ۔پھر ان کے دینی تصورات کو درست سمجھا۔نہ خلافت کے تصور حوالے سے ان سے کوئی اختلاف کیا نہ کفر شرک اور ارتداد کے حوالے سے کوئی بات کی۔
لھذا اس سب کے بعد جب ایک جگہ فساد اٹھ جائے اور عالمی قوتیں وہاں ایک دوسرے کے خلاف زور آزمائی کریں جس سے عام لوگوں کا خون بہے اس پر آخر میں یہ نوحا گری کرنا کہ الحلب تحترق اور مسلمان مظلوم ہیں اور پوری دنیا ان کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہی ہے تو اس کا مطلب ہے ہم اس دکھ اور غم میں سنجیدہ نھیں۔ہم مسئلے میں اپنے حصہ کا حل شامل کرنے پر آمادہ نھیں۔ہم اپنے افکار پر غور کرنے پر تیار نھیں۔ہم فساد کو روکنے کی کوشس نھیں کر سکتے وہ گروپس جو ہمارے بزگوں کی کتابوں ،ہمارے اسلاف کی تفسیروں سے اپنے مقدمات ثابت کررہے ہو انھیں چیلنج نھیں کرسکتے تو ہمیں اب تسلیم کر لینا چاہیے کہ
اگر حلب جل رہا ہے تو ہم اس کی آگ بجھا نھیں رہے بلکہ ہم بھی اسے جلا ہی رہے ہیں۔
محمد حسن۔