بول ٹی وی کی مجبور نشریات

نگہت نگار

اسلام آباد

11223551_454627238048934_9126222789257924715_n

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بول ٹی وی نے اپنی باقاعدہ نشریات کا آغاز کر دیا ہے لیکن ملک کے اکثر علاقوں میں ناظرین بول نیوز  کی نشریات دیکھنے سے محروم ہیں ۔

ایگزیکٹ اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد چینل کے سی ای او شعیب شیخ  اور وقاص میر کو گرفتار کر لیا گیا تھا ۔

حکومت کی جانب سے پیمرا کو ایک خط لکھا گیا تھا جس میں بول کی نشریات کو روکنے کا کہا گیا تھا۔ پیمرا نے اس پر عمل نہیں کیا لیکن دوسری جانب کیبل آپریٹرز بول نیوز کی نشریات کو کیبل پر نہیں دکھا رہے ۔

راولپنڈی کے ایک کیبل آپریٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ

"ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ بول کی نشریات کو کیبل پر نہ دکھایا جائے ”

بول نیوز میں 22 سو سے زائد صحافی اور تکنیکی امور سے متعلق عملہ کام کر رہا ہےجسے بول کے مستقبل اور اپنے روزگار کے بارے میں تشویش ہے  ۔ ایف آئی کے چھاپوں اور ایگزیکٹ کے اکاؤنٹس کو سیز کرنے کی وجہ سے عملے کو تنخواہیں بھی نہیں ملیں ۔

پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی تنظیم نے حکومتی ہدایت پر بول کے صحافیوں کو واپس اپنے اداروں میں بلانے کی پیشکش کی ہے تاہم ابھی تک کی اطلاع کے مطابق کسی صحافی نے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا ۔

growth-oppurtunities

دوسری جانب  بول نیوز کی ٹاپ مینجمنٹ سے استعفیِ دینے والے کامران خان نے دنیا ٹی وی اور اظہر عباس نے چینل 24 میں شمولیت اختیار کر لی ہے ۔عاصمہ شیرازی نے چینل 92 پر ہم دیکھیں گے کے نام سے پروگرام شروع کر دیا ہے ۔ افتخار احمد نے دنیا نیوز جوائن کر لیا  ۔ وجاہت ایس خان اپنا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ چلا رہے ہیں جبکہ نصرت جاوید تاحال فارغ ہیں ۔

بول ٹی وی نے اپنی نشریات شروع کر دی ہیں تاہم انہیں مجبور نشریات کا نام دیا گیا ہے ۔ میڈیا سے وابستہ افراد کا کہنا کہ بول انتظامیہ اگر پوری تیاری کے بعد اس منصوبے کو لانچ کرتی یا منصوبے کے ساتھ ہی اس کا آغاز کر دیتی تو شاید  اسے ان مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔

بول ۱

پاکستان کی اعلیِ انتظامی شخصیات پریشان ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایف آئی اے نے انتہائی اہم کیس نمٹانے کے بجائے اس کیس کو ہنگامی بنیادوں پر لیا حالانکہ سوائے ایک اخباری رپورٹ کے پوری دنیا میں کسی نے اس کی شکایت کی اور نہ ہی کوئی ایف آر درج کی گئی ۔

ایف آئی اے کے ڈی جی اکبر ہوتی نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی کو تحریری طور پر بتایا ہے کہ انہیں ابھی تک ایگزیکٹ یا بول کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے تاہم اس کے باوجود بھی ایگزیکٹ کے دفاتر پر ایف آئی اے کا قبضہ ہے اور بول کی نشریات کو کیبل پر نہیں دکھایا جا رہا ۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ ، تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان ، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ، متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سمیت کئی اہم شخصیات نے بول ٹی وی کی نشریات روکنے کو انتقامی کاروائی اور میڈیا مالکان کی لابنگ قرار دیا ہے ۔

حکومت میڈیا مالکان سے کس قدر خوفزدہ ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے  کہ پیر کی شب سماٗ ٹی وی کے پروگرام لائیو ود ندیم ملک میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ وہ میڈیا مالکان کے خلاف کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہاں ان کے پر جلتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ

"اگر میں نے کچھ کہہ دیا تو سارا میڈیا رمضان میں پروگرام لوڈ شیڈنگ اور میرے خلاف کرے گا ”

اہم شخصیات کا کہنا ہے کہ حکومت اور میڈیا مالکان کے درمیان غیر اعلانیہ تعاون کا معاہدہ بول نیوز کی نشریات روکنے کا بنیادی سبب ہے ۔

پاکستان کی میڈیا انڈسٹری سے وابستہ صحافی بول کو پاکستانی میڈیا کا انقلاب سمجھ رہے تھے کیونکہ بول کی وجہ سے ان کے اداروں میں مالکان کو مجبورا  ان کی تنخواہیں  بڑھانا پڑیں  ۔ ان کی مراعات میں اضافہ ہوا اور ان میں  بھی بہترین معیار زندگی گذارنےکی خواہش نے انگڑائی لی ۔  پاکستانی میڈیا کے ورکرز بول کو پیش آنے والی صورتحال سے پریشان ہیں۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے تمام دھڑے بول کے حوالے سے بیک زبان ہیں ۔

صحافی پارلیمان کے اجلاس کا بائیکاٹ بھی کر چکے ہیں ۔ وفاقی حکومت  نے وعدے کے باوجود بول ورکرز کی تنخواہوں کا مسئلہ تاحال حل نہیں کیا ۔ ایگزیکٹ اور بول اگر بند ہو جاتے ہیں تو تقریبا چالیس ہزار افراد براہ راست بے روزگاری کا نشانہ بنیں گے ۔ موجودہ حکومت کے لیے یہ سب سے بڑا مسئلہ ہو گا کہ وہ روزگار دینے کے بجائے روزگار چھیننے کے عمل میں شریک ہے ۔

دیگر اداروں میں کام کرنے والے میڈیا ورکرز بول میں کام کرنے والے ورکرز کے بارے میں پریشان ہیں اور ان کے حق میں ملک کے اندر اور بیرون ملک مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے ۔ عجیب بات تو ہے کہ صحافی مختلف طبقات کے مظاہرے  کور کر تے رہتے ہیں لیکن جب وہ اپنے حق کے لیے مظاہرہ کر تے ہیں ،تو اسے کوئی بھی کور نہیں کر تا ۔ صحافیوں کو اپنے چولہے جلانے کی جنگ تنہا لڑنی پڑتی ہے ۔

بول ٹی وی کی نشریات کیبل پر نشر نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد نشریات  کمپیوٹرز ، موبائل اور ڈش اینٹینا کے ذریعے دیکھ رہی ہے ۔

 

بول نیوز کی نشریات اس لنک کے زریعے دیکھی جا سکتی ہیں ۔

http://live.bolnews.com/

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے