عافیہ صدیقی کیس، قانونی مطالعہ

پہلا حصہ پڑھنے کیلئے اس لنک پہ کلک کیجئے

دوسرا حصہ پڑھنے کیلئے اس لنک پہ کلک کیجئے

اب ہم آتے ہیں اس واقعے کی طرف جس کی بنیاد پر عافیہ صدیقی کو سزا سنائی گئی۔
امریکی اٹارنی کے دفتر سے جاری ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق 18جولائی 2008 ایف بی آئی ،امریکی فوجی افسران اور دیگر پر مشتمل سات رکنی ٹیم تفتیش کے لیے غزنی پولیس سٹیشن گئی جہاں عافیہ کو رکھا گیا تھا۔ایک وارنٹ آفیسر نے اپنی بندوق دایں طرف فرش پر رکھ دی جس طرف کمرے میں پردہ لٹکا ہوا تھا۔وہاں اچانک عافیہ صدیقی پردے کے پیچھے سے نمودار ہوئیں اوراس افسرکی M/4 رائفل اٹھا لی، پلک جھپکنے میں اس کا سیفٹی لاک ان لاک کیا اور اسے آرمی کیپٹن کے سر پر تان لیا اور دو فائر کر دیے۔دونوں دفعہ عافیہ کا نشانہ خطا ہو گیا اسی اثناء میں وارنٹ آفیسر نے اپنا پستول نکال کر عافیہ پر دو گولیاں چلائیں جو ان کے پیٹ میں لگیں اور وہ گر گئیں۔
Press Release, Public Information Office (212) 637- 2600, February 3, 2010
جو سوالات گذشتہ کالم میں اٹھائے گئے انہیں ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور اس واقعے کا جائزہ لے لیتے ہیں کہ اس میں کتنی صداقت تھی۔

کیا یہ ممکن ہے کہ ایک خاتون ایک لمحے میں پردے کے پیچھے سے کمرے میں داخل ہو جہاں سات اہلکار بیٹھے ہوں،وہ ان کی بندوق بھی اٹھا لے،اور ایک پروفیشنل فوجی کو اس کی خبر نہ ہو ،پھر وہ ایک لمحے میں بندوق کا سیفٹی کیچ انلاک بھی کر لے اور کپٹن کے سر پر تان لے ۔کیا وہ اتنی ماہر عسکری شخصیت تھیں ؟اس واقعے سے غالبا یہی تاثر دینا مقصود تھا کہ وہ ایک تربیت یافتہ دہشت گرد تھیں۔لیکن اب سوال یہ ہے کہ ایک ماہر تربیت یافتہ دہشت گرد اگر یہ سارے کام کر لے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے دو فائر خطا جائیں۔وہ بھی اس صورت میں جب کہ ٹارگٹ اس کے سامنے کمرے میں موجود ہو؟

پھر یہ سوال بھی اپنہ جگہ موجود ہے کہ جب غزنی پولیس سٹیشن کے اہلکاروں کو یہ علم تھا کہ قیدی اتنی اہم تو ہے کہ اس سے تفتیش کرنے امریکی ٹیم آ ئی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ عافیہ کے ساتھ کوئی پولیس اہلکار نہ ہو؟یاد رہے کہ ایسا بھی نہیں تھا کہ امریکی ٹیم اچانک آ گئی تھی بلکہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ آنے سے پہلے غزنی کے گورنر سے اجازت لی گئی تھی کہ ہم صرف چند سوالات پوچھ کر واپس آ جائیں گے۔جس قیدی سے ملنے کے لیے بات چیت گورنر کی سطح کے عہدیدار سے ہو رہی ہو کیا اس قیدی کو ایسے ہی چھوڑ دیا گیا ہو گا کہ وہ اچانک سامنے آئے اور بندوق اٹھا کر تان لے؟یہ حقائق کی دنیا کا واقعہ ہے یا ہالی وڈ کی کسی فلم کی کہانی ہے جو سنائی جا رہی ہے؟

اب ذرا دیکھیے گارجین میں سوزان گولڈن برگ کا موقف کیا ہے۔ گارجین میں 6 اگست 2008کو شائع ہونے والے آرٹیکل Mystery of ‘ghost of Bagram’ – victim of torture or captured in a shootout? میں سوزان نے انکشاف کیا کہ ایسا نہیں تھا کہ عافیہ نے بندوق تانی بلکہ امریکیوں نے ویسے ہی اس پر گولی چلا دی اور موقف اختیار کیا کہ انہیں لگا یہ خود کش حملہ کرنے آ رہی ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ ایک قیدی جو غزنی پولیس کی تحویل میں ہو اس پر یہ شک کیسے کیا جا سکتا ہے کہ وہ خود کش حملہ کرنا چاہتا ہے؟گرفتاری کے وقت بھی اسی شک کا اظہار کیا گیا کہ وہ خود کش حملہ کرنے آ رہی تھیں اور اب پولیس سٹیشن میں بھی یہی عذر اختیار کر کے ان کے پیٹ میں دو گولیاں اتار دی گئیں۔یعنی پولیس نے ان کی تلاشی بھی نہیں لی ہو گی اور وہ ابھی تک خود کش جیکٹ پہنے بیٹھی تھیں کہ پھر اسی شک پر انہیں گولی کا نشانہ بنا دیا گیا۔رچرڈ ریویز یاد آ تے ہیں انہوں نے کہا تھا ہم امریکی اپنے مفاد میں جھوٹی اور واہیات باتیں علی الاعلان کہتے ہیں۔

رائٹرز کو افغان پولیس نے جو موقف دیا اسے بھی گارجین نے نقل کیا اس کے مطابق: امریکی فوجیوں نے پولیس سٹیشن میں آ کر مطالبہ کیا کہ عافیہ کو ان کے حوالے کر دیا جائے۔پولیس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ۔اس پر پولیس اہلکاروں کو گن پوائنٹ پر غیر مسلح کر دیا گیا اور عافیہ پر گولی چلا دی اور کہا کہ یہ خود کش حملہ کرنے لگی تھی
Petra Bartosiewicz
نے تو خود غزنی کے گورنر کا موقف شائع کر دیا۔ہارپر میگزین میں 26 نومبر 2010 کو شائع ہونے والے اپنے مضمون "The Intelligence Factory-.”, میں وہ لکھتی ہیں کہ گورنر نے بتایا کہ ان سے مطالبہ کیا گیا کہ عافیہ ان کے حوالے کر دی جائے انہوں نے انکار کر دیا۔گورنر کا کہنا تھا کہ جب تک کابل میں کاؤ نٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ اپنی تحقیقات مکمل نہیں کر لیتا تب تک عافیہ افغان پولیس کی تحویل میں رہے گی۔اس پر گورنر کو بتایا گیا کہ امریکی فوجی صرف چند سوالات پوچھنا چاہتے ہیں تو اس کی اجازت دے دی گئی لیکن امریکیوں نے پولیس سٹیشن پہنچ کر پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا اور عافیہ پر گولی چلا دی کہ یہ خود کش حملہ کرنے لگی تھی اور عافیہ کو ساتھ لے گئے۔چنانچہ Petra Bartosiewicz نے لکھا کہ ساری کہانی سننے کے بعد اور کیس کی تفصیلات جاننے کے بعد میں سادہ سی بات کہوں گی کہ عافیہ بے گناہ تھی۔

یعنی امریکیوں نے پہلے عافیہ کو گھوسٹ پرزنر کے طور پر بگرام میں قید رکھا پھر جعلی گرفتاری کا ڈرامہ کیا پھر افغان پولیس کو تفتیش بھی نہ کرنے دی اور پولیس کو گن پوائنٹ پر یر غمال بنا کر عافیہ کو زخمی کر کے ساتھ لے گئے۔خوف تھا کہ پولیس نے تحقیقات کیں تو سچ سامنے نہ آ جائے۔ان حالات میں امریکی عدالت کا حق سماعت بھی ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔

[pullquote]اب آئیے دیکھیے کہ عدالت میں کیا ہوا؟
[/pullquote]

نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ اس کیس میں امریکی انتظامیہ اور گواہوں کے بیانات میں تضادات رہے۔جب 9گواہوں پر جرح ہوئی اس بات میں بھی تضاد رہا رہا کہ وقوعے کے وقت کمرے میں کتنے لوگ تھے ,کتنے لوگ کھڑے تھے اور کتنے لوگ بیٹھے تھے، حد تو یہ ہوئی کہ اس بات میں بھی متضاد موقف سامنے آیا کہ کتنی گولیاں چلیں۔

نیویارک ٹائمز ہی میں جے ہوگز نے لکھا کہ عافیہ کی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ مقدمے کا سامنا کرتیں یا کوئی موقف اختیار کر سکتیں۔

عدالت میں فائر آرمز ایکسپرٹ کو بلایا گیا۔اس کا نام کارلو روسٹی تھا۔اس نے کہا کہ جس M/4 گن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ عافیہ نے اس سے فائر کیا اس نے اس گن کا معائنہ کیا ہے اور یہ بات ہی مشکوک ہے کہ اس گن سے کوئی فائر ہوا ہو۔( بحوالہ : C.J. Hughes, Pakistani Scientist Convicted of Attempted Murder” New York Times, February 3, 2010.)
نیو یارک ٹائمز ہی نے لکھا کہ عدالت میں دکھایا گیا کہ دیوار میں یہ سوراخ ہیں جو عافیہ کی چلای گولی سے وجود میں آئے تو جواب میں ایک ویڈیو پیش کی گئی جو وقوعہ سے پہلے اس پولیس سٹیشن میں کسی موقع پر تیار کی گئی تھی اور اس میں بھی دیوار میں وہ سوراخ نظر آ رہے تھے۔یوں ثابت کیا گیا کہ وہ سوراخ عافیہ کی کسی گولی سے نہیں بنے بلکہ وقوعہ سے پہلے ہی وہاں موجود تھے۔
نیو یارک تائمز کی اسی رپورٹ میں ایک اور انکشاف بھی کیا گیا کہ خود ایف بی آئی نے تسلیم کیا اور عدالت کے سامنے تسلیم کیا کہ گن پر عافیہ صدیقی کے فنگر پرنٹس بھی موجود نہیں ہیں۔امریکی اسسٹنٹ اٹارنی جنیا ڈیبز نے کہا کہ ہم وقوعہ کے ثبوت کیسے دیے جائیں کہ وقوعہ تو وار زون میں ہوا ۔لیکن وہ یہ بھول گئے کہ وقوعہ ایک پولیس سٹیشن میں ہوا اور وہاں جنگ نہیں لڑی جا رہی تھی۔

نفرت تعصب اور انتقام کی بات الگ ہے انصاف کے پیمانے پر پرکھیں تو یہ بات عیاں ہے کہ عافیہ صدیقی کے ساتھ انصاف نہیں ظلم ہوا ہے۔

[pullquote]عافیہ صدیقی اور ملامتی دانش
[/pullquote]

عافیہ صدیقی کیس کی جو قانونی حیثیت تھی وہ میں نے آپ کے سامنے رکھ دی ۔ اس سے پہلے بعض حضرات طعنہ زن تھے کہ عافیہ کے حق میں آواز بلند کرنے سے پہلے پڑھ تو لیجیے کہ آپ کی اس بہن نے کیا کچھ کیا اور سزا کیوں ہوئی۔ اب جب ہم نے پڑھ لیا کہ سزا کیسے ہوئی تودو نئی تاویلات سامنے آ گئیں۔

اول۔عافیہ امریکی شہری تھیں ان کے ساتھ امریکہ نے جو بھی کیا ہمیں اس سے کیا لینا دینا۔دوم۔ عافیہ نے کوئی ایسا جرم تو کیا ہو گا کہ امریکہ اس کے پیچھے پڑ گیا ورنہ اور کتنی مسلمان خواتین وہاں ہیں سزا صرف عافیہ ہی کو کیوں ہوئی ۔انہوں نے کوئی ایسا جرم کیا ہو گا کہ امریکی انتظامیہ نے سب سے چھا کر خفیہ طور پر عدالت کو الگ میں بتا دیا گیا ہو گا اور سزا ہو گئی ہو گی۔ان تاویلات کے ساتھ طنز اور تشنیع بھی ہے جو اعلان کر رہا ہے کہ تاویلات کوئی علمی اور فکری نکتہ نہیں بلکہ صاحبان تاویل کی نفسیاتی پیچیدگیوں کا اعلان عام ہے۔

قانون اور دلیل کی دنیا میں یہ دونوں تاویلات بہت کمزور ہیں اور اس قابل نہیں کہ انہیں موضوع بنایا جائے تاہم بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ اس پر بات کی جائے تو مختصرا عرض کرتا ہوں۔

جہاں تک شہریت کا تعلق ہے میں اپنی کتاب میں اس پر پورا ایک باب لکھ چکا ہوں ۔یہاں اختصار سے گذارش کروں گا۔

1۔جب 2004 میں ایف بی آئی نے موسٹ وانٹڈ دہشت گردوں کا پوسٹر شائع کیا تو اس میں عافیہ کو پاکستانی کہا گیا۔ اگر 2004میں وہ پاکستانی تھیں تو مطلوب دہشت گرد قرار دیے جانے کے بعد تو انہیں شہریت ملنے سے رہی۔
2۔ رابرٹ گریک نے جب عدالت میں فرانزک رپورٹ پیش کی تو اس میں بھی عافیہ کو پاکستانی شہری لکھا گیا۔
3۔جب عافیہ صدیقی کو سزاہوئی تو نیویارک ٹائمز نے اس کو کیسے رپورٹ کیا؟ اس نے لکھا : پاکستاانی سائنسدان کو سزا۔3 فروری 2010 کے شمارے کی مذکورہ خبر کا لنک پیش خدمت ہے ۔کلک کیجیے اور دیکھ لیجیے
۔http://cityroom.blogs.nytimes.com/…/pakistani-scientist-co…/
4۔ ایمرسن سٹیون نے بھی اپنی کتاب ’’جہاد انکارپوریٹڈ ‘ میں انہیں پاکستانی شہری لکھا ہے۔

تاہم اگر ان تمام دستیاب شواہد کی نفی کر دی جائے اور اس جھوٹ کو تسلیم کر لیا جائے کہ وہ امریکی شہری ہیں تو اس کا یہ مطلب کیسے ہو گیا کہ اب امریکہ ان سے جو سلوک کرے ہمیں بات کرنے کا کوئی حق نہیں۔حقوق انسانی ایک آفاقی تصور ہے ۔اس پر کوئی بھی آواز اٹھا سکتا ہے۔دوسری بات یہ کہ عافیہ کی ماں بہن پاکستان کے شہری ہیں اور اس لحاظ سے ان کے تحفظات پاکستان کا فرض ہے کہ اٹھائے اور سامنے رکھے۔اور تیسری بات کہ چند بلاگرز جو پاکستان میں اٹھائے گئے ان کے لیے امریکہ کیوں آواز اٹھا رہا ہے کیا وہ امریکی شہری ہیں ؟یا ڈونلڈ ترمپ کے گھر پیدا ہوئے تھے.

دنیا میں بہت سی قدریں مشترکہ ہیں اور ان کے لیے آواز اٹھائی جاتی ہے۔بامیان میں جب بدھا کا مجسمہ تباہ ہوا تو اس پر پاکستان میں لبرلز نے بہت شور کیا یہ شور انہی قدروں کی بنیاد پر تھا ورنہ وہ مجسمہ ان میں سے کسی کے دادا ابو کا نہیں تھا۔اس لیے قومیت کا یہ سوال غلط ہے اور اس کی بنیاد بھی غلط ہے۔

اب آئیے اس امکان کی طرف کہ عافیہ نے کوئی ایسا جرم تو کیا ہو گا کہ امریکہ نے سزا دی اور یہ کہ جج کو خفیہ طور پر معلومات دے دی گئی ہوں گی اور انہوں نے سزا دے دی ہو گی۔

یہ موقف بالکل سادگی اور جہالت کی بنیاد پر استوار کیا گیا ہے۔جب بھی کسی کیس میں کچھ ایسی معلومات ہوں جو جج صاحب کو بھری عدالت میں نہ دی جا سکیں اور خفیہ طور پر ان کے چیمبر میں دینا مقصود ہو ں تو اس کی باقاعدہ درخواست کی جاتی ہے اور وہ منظور کی جائے تو یہ کام ہو سکتا ہے اور اگر وہ منظور کی جائے تو مقدمے کے ریکارڈ میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ فلاں درخواست کو قبول کیا گیا ہے۔عافیہ کیس کے ریکارڈ میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔

یہ ایک انسانی حقوق کا معاملہ ہے اور اس میں ان تاویلات کو پیش کرنا ایک علمی رویہ نہیں کہلائے گا جو خود امریکہ نے پیش نہیں کیں۔

المیہ یہ ہے کہ ملامتی صوفیوں کی طرح اب کچھ ملامتی دانشور بھی جنم. لے چکے ہیں جو ہر وقت اپنے اجتماعی وجود کو لعن طعن کرتے رہتے ہیں اور جب اس چاند ماری سے فارغ ہوتے ہیں تو چلا چلا کر کہتے ہیں. جو کرتا ہے امریکہ کرتا ہے اور امریکہ جو کرتا ہے صحیح کرتا ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے