امریکہ جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کر سکتا ہے: ایرانی وزیرِ خارجہ

ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکہ اس ایٹمی معاہدے سے دستبردار ہو جائے گا جس کے تحت ایران کی
ایٹمی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔

تاہم جواد ظریف نے یہ بھی کہا کہ انھیں امید ہے کہ یورپ اس معاہدے کو زندہ رکھنے میں کردار ادا کرے گا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے کے سخت خلاف ہیں، اور وہ اسی ماہ اقوامِ متحدہ سے خطاب میں اسے ‘شرمندگی’ قرار دے چکے ہیں۔

’ٹرمپ کو ایران جوہری معاہدہ ختم نہیں کرنے دیں گے‘

امریکہ، ایران تعلقات میں کشیدگی کا نیا دور؟

صدر ٹرمپ اگلے ماہ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ آیا ایران ایٹمی معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے یا نہیں۔ اگر انھوں نے فیصلہ نفی میں دیا تو پھر امریکی کانگریس ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دے گی۔

فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے حال ہی میں اس معاہدے کا دفاع کیا ہے، جب کہ روس اور چین بھی اس کے حامی ہیں۔
دو برطانوی اخباروں کو انٹرویو دیتے ہوئے جواد ظریف نے کہا کہ اگر معاہدہ ختم ہو گیا تو ایران یورینیئم کی افزدوگی، سینٹری فیوجز کی

تعداد اور پلوٹونیئم کی تیاری پر عائد پابندیوں کی پاسداری نہیں کرے گا۔
تاہم انھوں نے اصرار کیا کہ ان کا ملک ایٹمی توانائی کو صرف پرامن مقاصد کے استعمال کرنا چاہتا ہے۔

انھوں نے نیویارک میں فائنینشل ٹائمز اور گارڈین کو بتایا کہ ‘میرا اندازہ یہ ہے کہ وہ (ٹرمپ) تصدیق نہیں کریں گے، اور وہ کانگریس کو فیصلہ کرنے دیں گے۔

‘اس معاہدے کے تحت ایران کو اجازت ہے کہ وہ تحقیق جاری رکھے۔ اس لیے ہم نے اپنی ٹیکنالوجی بہتری بنائی ہے۔ اگر ہم معاہدے کو ترک کرتے ہیں تو ہمیں بہتر ٹیکنالوجی کے ساتھ ایسا کرنا چاہیے۔’

انھوں نے صدر ٹرمپ کے بارے میں کہا: ‘میں سمجھتا ہوں کہ انھوں نے ناقابلِ پیشن گوئی ہونے کو بطور پالیسی اپنا رکھا ہے، اور اب وہ ناقابلِ اعتبار بھی بنتے جا رہے ہیں۔ انھوں نے اس معاہدے کے الفاظ، روح اور ہر چیز کی مخالفت کی ہے۔’

جواد ظریف نے کہا کہ ایران کے پاس موجود راستوں ‘کا انحصار اس بات پر ہے کہ بین الاقوامی برادری امریکہ سے کیسے نمٹتی ہے۔ اگر یورپ، جاپان، روس اور چین امریکہ کے ساتھ جانے کا فیصلہ کریں تو پھر میرے خیال سے معاہدہ ختم ہو جائے گا۔’

انھوں نے مزید کہا: ‘یورپ کو قیادت سنبھالنی چاہیے۔ یورپی یونین کے حکام نے کہا ہے کہ اگر امریکہ دوبارہ پابندیاں عائد کر دیتا ہے تو وہ ایران میں اپنے مفادات کا قانونی طریقے سے تحفظ کر سکتے ہیں۔’

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے