بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمودات کے مطابق دیگر معاشروں کی طرح پاکستان کی انتظامی مشینری کی بنیاد بھی معاشرتی انصاف ،برابری کے حقوق اور آئین و قانون کی حکمرانی اور بنیادی انسانی حقوق کے اصولوں رکھی گئی تاہم قیام پاکستان کے سال بعد قائداعظم کی وفات سےہی اِقتدار کی غلام گردشوں میں اِن اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے دانشورانہ انتظامی اور مالیاتی کرپشن کے زور پر ملکی اشرافیہ کے ایک طاقتور طبقے نے جس بے دردی سے انتظامی اور مالیاتی اداروں میں بدعنوانی ، اقربا پروری کو فروغ دیا ہمسایہ ملکوں سمیت دنیا میں اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔
اقربا پروری کے ذریعے منظور نظر افراد کے اہم ریاستی عہدوں پر فائز ہونے سے ریاست کے مختلف ستونوں میں دراڑیں سب دیکھ سکتے ہیں۔آجکل اتنے اخبارات ہیں کہ انکو پڑھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے تاہم وٹس ائپ سے آپ اپنے دوستوں کے آرٹیکلز اور خبروں سے مطلع رہ تے ہیں۔
گزشتہ دنوں میرے دوست اور لاہور سے 92 نیوز کے سینئر صحافی انور حسین سمراء نے خبر دی کہ پنجاب کےایک صوبائی سیکرٹری کے بیٹے کو رولز میں نرمی اور 16 سال کے تجربے کی شرط کو 7 سال کرکے ایک اہم صوبائی ادارے کا سربراہ اس لیے لگایا کیا کہ پوسٹ کے دو دفعہ مشتہر ہونے کے باوجود معیار کے مطابق کوئی اہل امیدوار نہیں ملا ، بات سوچنے کی ہے انہیں اتنے تعلیم یافتہ معاشرے سے کوئی ایک بھی اہل بندہ نہیں ملا۔۔ہم کب تک جھوٹ بول کر اس ملک سے دھوکہ کرتے رہیں گے،آج تو ہم اپنے بیٹے،بھانجے،بھتیجے اور برادری کے لئیے میرٹ کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں مگر شاید ہمیں معلوم نہیں کہ ہم ان اقدامات سے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کررہے ہیں۔
ہمیں اپنے معاشرے سےایسی مثال کیوں نہیں ملتی کہ ایک سوئیپر بیورو کریٹ یا اعلی عہدیدار بن گیا ہے؟؟ برطانیہ قیام کے دوران لندن میں پاکستانی نژاد برطانوی بزرگ مرتضی چشتی صاحب سے اچھی گپ شپ رہی ہےوہ بڑے فخر سے بتاتےتھے کہ میں لندن میں محنت کے ذریعے فلور کلینر سے ہائی کورٹ کا جج بنا۔سوال یہ ہے کہ وہ معاشرے مستحکم ترقی کے راستے پر کیوں نہ گامزن ہو جہاں ہر فرد کو بلا رنگ و نسل اور قوم ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں اور اہمیت صرف میرٹ کی۔افسوس کہ ہم آج بھی ذاتی حوس اور تعصب کی پٹی باندھے ہوئے ہیں۔
اعلی عہدوں پر فائز اشرافیہ حتیٰ کہ بعض صاحب الرائے اور دانشور ملک و قوم کی بجائے ذاتی اورسیاسی مفادات کے لیے”Intellectual dishonesty”کرتے ہوئے اپنی رائے بیچتے ہیں۔سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کے زمانے میں مرحوم صحافی خلیل ملک صاحب کی سربراہی میں میں ایک نجی تحقیقی ادارے میں کام کرتا تھا۔کام کیا تھا بتائی گئی پالیسی اور موضوعات پر مضامین لکھنا۔اور پھر جن شخصیات کے نام پر وہ بڑے اخبارات میں چھپتے تھے میں دیکھ رہا ہوں کہ ان میں سے پیشتر آج دوسرے سیاسی پلیٹ فارم پر کھڑے دانشوری جھاڑ رہے ہیں۔زندہ معاشروں میں انسان کے خیالات میں عمر،تجربے، علم اور تعصبات کے ٹوٹنے یا بننے کی بنا پر تبدیلی آتی رہتی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں کے مثبت طرز پر بدلتے موقف کو سراہا جانا چاہئے کیونکہ یہ فکری بہتری کا عمل ہے۔تاہم دانشور صاحبان ملک کے مفادات کو تو نقصان نہ پہنچائیں۔۔۔!!
غیر جانبداری اس چیز کا نام نہیں کہ آپ سیاہ اور سفید دونوں کو سیاہ قرار دےدیں یا دونوں کو سفید کہیں رائے آپ نے دینی ہی ہوتی ہے کہ یہ سفید ہے یا سیاہ ہوسکتا ہے کہ ایک معاملے میں عمران خان کی رائے ملک کیلئے بہتر ہو اور دوسرے ایشو پر محمد نواز شریف درست رائے دے رہے ہوں-دنیا بھر میں آزادانہ رائے اور اظہار خیال کو احترام کی نظر سے ہی دیکھا جاتا ہے تاہم پاکستان میں بدقسمتی سے ہمارے بعض دانشور علمی مباحثوں کی بجائے کسی کو کرپٹ،کسی کو ملک دشمن،کسی کو یہودیوں کا ایجنٹ اور کسی کو بد مذہب قرار دیکر مکالمے کو یکسر دفن کردیتے ہیں جو نہ صرف صحتمندانہ معاشرے کی تشکیل بلکہ ملک کے مفادات کے خلاف ہے۔
ہمارے ہاں سیاست بھی پارٹی بیس ہے حالانکہ ترقی یافتہ تو چھوڑیں ہمارے جیسے ملک بھی اس میدان میں آگے نکل گئے ہیں اور وہاں ایشو بیس سیاست ہوتی ہے ناکہ آندھی تقلید یہی حقیقی جمہوری طرزعمل ہے۔ سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی بھرپور ترقی کے بعدمیرا یقین ہے کہ دانشورانہ کرپشن اور بددیانتی کو تبدیلی کی اجتماعی سوچ سے ختم کیا جا سکتا ہے۔فکر و نظر اور خیالات میں شفافیت کے لئے ہمیں چاہے کہ ایک طرف ہو کر نہ سوچیں،اور اپنی سیاسی سوچ، عقیدوں اور نظریات کی وجہ سےیکطرفہ رویہ نہ رکھیں۔کسی بھی فیصلے پر پہنچنے سےپہلے سب کی بات سنیں۔غیر جانبداری والی سوچ کیلئے پہلے ہمیں اپنے بند دماغ پر لگے تالےتوڑنےہیں کہ مذہب،رشتےناتے،برادری،دوستی سمیت ہر چیز سے آزاد ہو کر جب ہم سوچیں گے توہی تبدیلی آئے گی اور ہم میرٹ اور شفافیت کو یقینی بناکر اس ملک کی تقدیر بدل سکیں گے۔