احسان مند

یہ پانچ اکتوبر کا دن تھا‘ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ اپنی عدالت میں موجود تھے‘ مقدمات کی سماعت جاری تھی‘ ایک خاتون چیف جسٹس کی عدالت کے سامنے پہنچی‘ اندر داخل ہونے کی کوشش کی‘ اہلکاروں نے روک لیا‘ خاتون نے رونا پیٹنا شروع کر دیا‘ وہ دہائیاں دینے لگی‘ شور اندر گیا‘ چیف جسٹس نے خاتون کو بلا لیا‘خاتون نے معذرت کی اور اس کے بعد عرض کیا ’’سر میں سول جج ہوں‘ مجھے چھ دوسرے سول ججز کے ساتھ2014ء میں نوکری سے نکال دیا گیا تھا‘ ہمیں پندرہ ماہ بعد بحال کر دیا گیا‘ میرے ساتھی نوکری پر واپس آ گئے لیکن میں ابھی تک ماری ماری پھر رہی ہوں‘ میرے ساتھ مسلسل امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس عظیم منصب پر بٹھایا‘ آپ کی عدالت نے میرے حق میں فیصلہ دیا تھا لیکن اس فیصلے پر آپ ہی کی عدالت عمل درآمد نہیں کر رہی‘ میں کہاں جاؤں‘‘ چیف جسٹس نے خاتون سول جج کو تسلی دی‘ بٹھایا اور چیمبر میں ملاقات کا وعدہ کیا لیکن کیا خاتون سول جج کو اب انصاف مل گیا ہو گا؟ ہم سردست کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہم واقعی ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں کسی بھی وقت کسی کے ساتھ بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے اور کسی بھی وقت کسی کے ساتھ سب کچھ ہوتے ہوتے رہ بھی سکتاہے چنانچہ شاید خاتون سول جج کو چیف جسٹس کے حکم کے بعد بھی انصاف نہ مل سکا ہو۔
یہ خاتون کون تھی اور یہ چیف جسٹس کی عدالت کے سامنے دہائیاں دینے پر کیوں مجبور ہوئی؟ یہ بھی ایک انوکھی داستان ہے‘ خاتون کا نام بشریٰ فرید ہے‘ یہ 2010ء میں سول جج بنیں‘عوام کو چار سال انصاف دیا‘ 2014ء آیا تو چیف جسٹس ہائی کورٹ خواجہ امتیاز احمد نے 4 جولائی کو سات سول ججز کو ’’مس کنڈکٹ‘‘ پر نوکریوں سے برخاست کر دیا‘ ان ججز میں ندیم اصغر‘ محمد امجد‘ مظفر حسین‘ ظل ہما‘ قمر زمان تارڑ‘ صائمہ آصف اور بشریٰ فرید شامل تھے‘ ان ساتوں ججز نے اپنی برطرفی کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے دیا اور چیف جسٹس کے فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں تین ججز کی کمیٹی بنی‘ کمیٹی نے سول ججز کا موقف سنا اور 2015ء میں ساتوں ججز کو بحال کر دیا‘ میں کہانی کو آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں ان ساتوں ججز کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں 15 ماہ لگ گئے تھے۔
یہ لوگ جج ہونے کے باوجود سوا سال ہائی کورٹ میں دھکے کھاتے رہے یہاں تک کہ ہائی کورٹ نے انھیں بے گناہ تسلیم کر لیا‘ چیف جسٹس کا فیصلہ ’’ری ورس‘‘ ہو گیا‘ ججز بحال ہو گئے لیکن بشریٰ فرید اپنے حق میں فیصلہ آنے کے باوجود 5 اکتوبر 2017ء تک بحال نہ ہو سکیں گویا یہ خاتون جج تین سال سے عدالتوں میں دھکے کھا رہی ہے‘ ان کا اپنا ادارہ اپنے ہی احکامات پر عمل درآمد نہیں کرپا رہا یہاں تک کہ یہ چیف جسٹس کے کمرہ عدالت کے سامنے دہائی دینے پر مجبور ہوگئی‘نظام عدل خاتون کی چیخ و پکار سن کر سیدھا ہوا‘ ان کی شنوائی ہوئی اور چیف جسٹس نے عمل درآمد کے احکامات جاری کر دیے لیکن سوال یہ ہے خاتون جج اگر اب بھی بحال نہیں ہوتی تو اس کے پاس کیا آپشن رہ جائے گا۔
کیا یہ بھی ان ہزاروں سائلوں کی طرح خود سوزی کرلیں گی جو انصاف کی تلاش میں ذلیل ہو کر اپنے آپ کو آگ لگا لیتے ہیںیا پھر یہ بھی عام پاکستانیوں کی طرح اس بے انصافی کو اپنا مقدر مان لیں گی‘ یہ کیا کریں گی میں نہیں جانتا لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں سول جج بشریٰ فرید اس ملک کے نظام عدل کے خلاف ایف آئی آر ہیں۔
یہ ملک میں انصاف کا نوحہ ہیں اور یہ وہ حقیقت ہے جس سے نظریں چرا چرا کر ہم نے ستر سال گزار دیے اور شاید ہم اگلے ستر سال بھی اسی طرح گزارنا چاہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کیا قدرت ہمیں مزید وقت دے گی‘ شاید نہیں کیونکہ قدرت انسان کی ساری غلطیاں معاف کر دیتی ہے لیکن یہ بے انصافی جیسے کفر برداشت نہیں کرتی اور ہمارا نظام عدل بے انصافی کی اس سطح تک پہنچ چکا ہے جہاں ججوں کو بھی انصاف کے لیے دہائیاں دینا پڑتی ہیں اوروہ جج بشریٰ فرید ہوں یا پھر افتخار محمد چوہدری ۔
ہمیں کبھی نہ کبھی عدل و انصاف کی تشویش ناک صورتحال کو سیریس لینا ہوگا‘ ہمیں ماننا ہوگا ہمارے ملک میں انصاف ناپید ہے‘ آپ المیہ ملاحظہ کیجیے لاہور ہائی کورٹ کے جس جج جسٹس مظاہر علی اکبرنقوی نے 2015ء میں بشریٰ فرید سمیت سات سول ججز کو بے گناہ قرار دیا تھا یہ خود اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل میں ’’مس کنڈکٹ‘‘ کا ریفرنس بھگت رہے ہیں‘ یہ ریفرنس2015ء میں دائر ہوا اور یہ کیس بھی ملک کے دوسرے ہزاروں لاکھوں مقدموں کی طرح گھسٹتا چلا جا رہا ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں اس وقت چار سینئر ججز کے ریفرنس زیر سماعت ہیں‘ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد انور کاسی ‘جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی‘ جسٹس فرخ عرفان اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی یہ چاروں کئی ماہ سے کونسل میں پیش ہوتے اور واپس چلے جاتے ہیں‘ جسٹس شوکت عزیز صدیقی سپریم جوڈیشل کونسل سے ’’اوپن ٹرائل‘‘ مانگ رہے ہیں۔
یہ شروع میں زبانی درخواست کرتے رہے‘ کونسل نہ مانی توانھوں نے تحریری درخواست بھی دے دی‘ ان کا کہنا تھا ’’ میرا ریفرنس کھلی عدالت میں سنا جائے‘ عدالت میں میڈیا کو بھی آنے دیں‘ ججوں کو بھی‘ وکلاء کو بھی اور عوام کو بھی‘ میں پوری قوم کے سامنے اپنا فیصلہ چاہتا ہوں‘‘ لیکن سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے جج کویہ حق دینے سے انکار کر دیا‘آپ تماشا دیکھئے ملک میں نائب قاصد کو فارغ کرنے کا سسٹم موجود ہے‘ معطل نائب قاصد کو اپیل کا حق بھی حاصل ہے لیکن جج کو فارغ کرنے کا کوئی ٹھوس طریقہ کار موجود نہیں۔
سپریم جوڈیشل کونسل جو فیصلہ کر دے وہ حتمی ہوتا ہے چنانچہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی بھی ’’اوپن ٹرائل‘‘ کی درخواست اٹھا اٹھا کر پھر رہے ہیں‘ مجھے خطرہ ہے یہ بھی کسی دن سول جج بشریٰ فرید کی طرح سپریم کورٹ کے سامنے دہائیاں دینا شروع کر دیں گے یا پھر یہ بھی شہر شہر‘ گلی گلی ’’مجھے کیوں نکال رہے ہیں‘‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیں گے۔
آپ المیہ ملاحظہ کیجیے ہم لوگ ستر سال سے مخالفوں کو یہ دھمکیاں دیتے آ رہے ہیں ’’میں تمہیں عدالتوں میں گھسیٹوں گا‘‘ یہ دھمکیاں کیا ثابت کرتی ہیں؟ یہ دھمکیاں ثابت کرتی ہیں ہمارے ملک میں عدالتیں انصاف کے کعبے نہیں ہیں‘ یہ مخالفوں کو مخالفت کا مزہ چکھانے کے لیے گھسیٹنے والی جگہیں ہیں‘ ہم میں سے جو شخص دوسرے کو ذلیل کرنا چاہے وہ اس کے خلاف مقدمہ دائر کر دیتا ہے اور وہ شخص جس دن انصاف کی دہلیز کے اندر قدم رکھ دیتا ہے اس دن سے اس کی ذلت کا عمل شروع ہو جاتا ہے‘ پھر اس کی نسلیں زندگی بھر عدالتوں میں گھسٹتی رہتی ہیں اور وہ مظلوم شخص جج بھی ہو سکتا ہے اور وزیراعظم بھی اور اگر اس دوران کوئی مظلوم شخص خودسوزی کر لے یا پھر کوئی بے گناہ پھانسی لگ جائے تو ہمارا نظام عدل اسے بے گناہ قراردے دیتا ہے۔
یہ اس کی قبر پر انصاف کے پھول چڑھا دیتا ہے‘آپ المیے پر المیہ ملاحظہ کیجیے‘ ہمارے ملک میں وزیراعظم (سابق) ہیوی مینڈیٹ کے باوجود بار بار پوچھ رہے ہیں ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ہمارے وکلاء پوچھ رہے ہیں میاں نواز شریف پر مقدمے کرپشن کے بنے لیکن یہ نکالے اقامہ پر گئے ۔
افتخار محمد چوہدری آج بھی3 نومبر2007ء کو ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیتے ہیں‘ سول جج اپنی فائلیں اٹھا کر عدالتوں میں دھکے کھاتے ہیں‘ یہ پندرہ ماہ تک اپنی بے گناہی ثابت نہیں کر پاتے ‘ بشریٰ فرید جیسی سول جج کو فیصلے پر عملدرآمد کے لیے مزید پندرہ ماہ جوتیاں چٹخانہ پڑتی ہیں اور یہ جب ناکام ہو جاتی ہیں تو یہ چیف جسٹس کے دروازے پر دہائی دینے پر مجبور ہو جاتی ہیں‘ سول ججز کو بحال کرنے والے جسٹس نقوی خود فائلیں اٹھا کر سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے بیٹھتے ہیں۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ’’اوپن ٹرائل‘‘ کا حق نہیں ملتا‘ نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس جاوید اقبال سانحہ ایبٹ آباد کی رپورٹ پبلک نہیں کرا پا تے‘ یہ چھ سال سے مسنگ پرسنز کمیشن کے سربراہ بھی ہیں‘ یہ چھ برس تک یہ مسئلہ بھی حل نہیں کرا پاتے اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کے دس سال بعد بھی ان کے کیس کا فیصلہ نہیں ہو پاتاچنانچہ دیکھا جائے تو اس ملک کا ہر شخص وہ خواہ ریڑھی والا ہے یا چیف جسٹس وہ اس نظام عدل کے خلاف دہائیاں دے رہا ہے۔
وہ اس سسٹم کے ہاتھوں ذلیل ہو رہا ہے لیکن یہ سسٹم اس کے باوجود موجود بھی ہے اور لوگ اسے قائم بھی رکھنا چاہتے ہیں‘ کیوں؟ میں آج تک وجہ نہیں جان سکا‘یہ نظام جو قائداعظم محمد علی جناح کے انتقال کی وجہ دریافت نہیں کر سکا‘ جو لیاقت علی خان کے قتل کا فیصلہ نہیں کر سکا‘ جو چار مارشل لاء نہیں روک سکا‘ جو بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو انصاف نہیں دے سکا اور جو اپنے ججوں کے ساتھ انصاف نہیں کر پا رہا! وہ نظام اس ملک میں کیوں ہے؟ ہم اسے بدل کیوں نہیں رہے؟
آپ کے پاس اگر اس کیوں کا کوئی جواب ہو تو آپ مجھے ضرور مطلع کیجیے گا‘میرے ساتھ ساتھ افتخار محمد چوہدری‘ میاں نواز شریف ‘ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور بشریٰ فرید پوری زندگی آپ کے احسا ن مند رہیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے