گزشتہ دنوں ایک جرمن اشاعتی ادارے نے اپنے ایک تبصرے میں جرمنی اور دیگر یورپی ممالک سے استدعا کی ہے کہ انہیں چینی اقتصادی ماڈل کو اپنانے کی ضرورت ہے اور جو استحکام چین نے اقتصادی محاز پر حاصل کیا ہے اسے کبھی بھی ملک میں سیاسی استحکام کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔اس ضمن میں اس آرٹیکل کے اہم نکات کو ایسے اجاگر کیا گیا ہے۔ موجودہ دنیا عالمی سطع پر اور تاریخی سطع پر پریشان کن حالات سے دوچار ہے دوسری عالمی جنگ کے بعد سیاسی اور اقتصادی سطع پر مغربی صنعتی طاقتیں بالخصوص امریکہ کو ایک واضح برتری حاصل تھی لیکن موجودہ صورتحال میں دیکھا جائے تو یہ سیاسی اور اقتصادی ڈھانچے جو کبھی ایک برتری کی علامت تھے آج ایک تغیراتی فیز سے گزر رہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ممالک جوایشیا میں اپنی صنعتی اور ترقیاتی اقدار کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے آج عالمی معیشت پر تیزی سے اپنی دھاک بٹھا رہے ہیں اور بیشتر مغربی صنعتی طاقتیں آج ایک نئے ورلڈ آرڈر کے تحت ایک نئے خوف کا شکار رہے ہیں اس تناظر میں اگر چین کو دیکھا جائے تو چین نے ستر کی دہائی میں ملک میں اصلاحات کے عمل کا آغاز کیا اور اس عمل کے باعث چین میں ایک مستحکم اقتصادی عمل کا آغاز ہو گیا۔ اور اس عمل کی وجہ سے چین صرف تین عشروں میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور اقتصادی طاقت کی صورت میں عالمی افق پر ظاہر ہوا۔ اس حوالے سے اگر چین کے ایجنڈے اور تکمیلات کو بغور سمجھنا ہو تو اس کے لیے چین کے اقتصادی اور سیاسی استحکام کو سمجھنا ہوگا۔ چین خود کو ایک سوشلسٹ مارکیٹ معیشت کے طور پر بالخصوص چینی خصوصیات کے ساتھ پیش کرتا ہے چین نے 2001میں عالمی تجارتی تنظیم میں شمولیت اختیار کی اور شمولیت کے ان پندرہ سالوں میں چین میں ایک بار پھر سے اصلاحات کا عمل شروع کیا گیا تاکہ چین کو عالمی سطع پر ایک لبرل مارکیٹ معیشت کو طور پر اجاگر کیا جا سکے۔ ملک میں سیاسی اور اقتصادی استحکام کے لیے چینی حکومت خصوصی طور پر پانچ سالہ منصوبے کے تحت ملک مین سماجی اور اقتصادی استحکام پر توجہ گامزن رکھتا ہے اور اس پانچ سالہ منصوبے کے تحت ہی کاروباری، قومی اور علاقائی اتھاریٹیز کو پالیسی میکنزیم سے آگاہ رکھا جاتا ہے لیکن یہ تمام تر عوامل چین کو ایک بندوبستی معیشت میں تبدیل نہیں کرتے۔ دیکھا جائے تو چینی معاشرے میں مسابقتی ماحول ایک اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ اور چین چونکہ ایک بہت بڑے قطعی اراضی پر مشتمل ملک ہے اس لیے بہت سی پالیسز دیگر صوبوں کے حوالے سے ایک خاص انداز میں مرتب کیئے جاتے ہیں ، اس ضمن میں اسپیشن اکنامک زونز پائلٹ پراجیکٹس کے تحت نت نئے منصوبوں کا آغاز کیا جاتا ہے۔ اور ان پالیسز کے تحت ریاستی ملکیتی کمپنیز کی نجکاری کی جاتی ہے۔ اور نجی کمپنیز کو مختلف اسپیشل پیکجز کا اعلان کیا جاناتاکہ بین الاقوامی کمنپیز ان علاقوں میں اور ان کمپنیز میں سرمایہ کاری کر یںاس ضمن میں چین کی صنعتی پالیسی خاص طور پر آئی ٹی کے حوالے سے اور مواصلات کے شعبے کے حوالے سے بہت سے نئے اقدامات کا آغاز کیا گیا تاکہ عالمی سطع کے امور مقامی سطع پر طے کیئے جا سکیں۔ مثال کے طور پر ہواوے کمپنی جس کے دنیا بھر کے 120ممالک میں ایک لاکھ ستر ہزار ملازمین ہیں۔ اور سمارٹ فونز کی تعمیر کے حوالے سے ایپل اور سامسنگ کے بعد موبائل کے حوالے سے دنیا کی بڑی مینو فیکچرنگ کمپنیز میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ یوں ہواوے کے بعد دیگر کامیاب ترین شعبوں میں علی بابا اور بیدو شامل ہیں بالخصوص بیدو کو دنیا بھر میں گوگل کے متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو مسابقت کا یہ عمل صرف بین الاقوامی کمپنیز تک ہی محدود نہیں ہے اکسیویں صدی کے اقتصادی افق پر یہ مقابلے کا رجحان سیاسی اور ریگولیٹری نظام سے بھی منسلک ہے اس تناظر میں جرمن اور یوررپین ممالک کو اور ان ممالک کو پالیسی ساز اداروں کو اس مسابقتی ماحول اور اس کی خصوصیات کو سیکھنا چاہیے اور ان عوامل پر عمل پیرا ہونا چاہیے اور اقتصادی سطع سے سیاسی محاز تک اس چینی ماڈل کو سیکھنے پر فوکس کرنا چاہیے۔ اور اس سوال کا جواب قومی سطع پر تنہائی کا شکار ہوکر کبھی بھی حاصل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی خود پر تحفظ پسندی کا خول چڑھا کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے وسیع طرز پر اس مسابقت کے ماحول کو کامیابی سے اسی صورت اختیار کیا جا سکتا ہے جب حکومتی اداروں، کمپنیز اور ملکی جامعات میں ایک باہم مربوط نظام متحرک ہو۔۔