درباں کاعصایا مصنف کاقلم؟

بات کہاں سے شروع ہوئی تھی آپ کو یاد ہونا چاہئے۔ 11اکتوبرکوفوج کے سربراہ جنرل قمرجاویدباجوہ نے کراچی میں معیشت اورسلامتی کے موضوع پر ایک سیمینار سے خطاب کیا۔ظاہرہے کہ یہ ایک سوچی سمجھی تقریرتھی بلکہ سیمینار کاکلیدی خطبہ تھا۔جوسرخیاں لگیں ان کی گونج اب بھی سنی جاسکتی ہے۔بنیادی نکتہ یہ تھاکہ آج کی دنیا میں سلامتی اورمعیشت ایک دوسرے سے منسلک ہیں ۔جنرل باجوہ نے کہاکہ ہم نے ترقی توکی ہے لیکن قرضے آسمان کوچھورہے ہیں ۔تجارتی توازن بہتر نہیں ہے۔ٹیکس کی شرح کوبڑھانے کی ضرورت ہے اوریہ بھی کہ معاشی استحکام کیلئے عدم استحکام کودورکرناہوگا ۔ پھرکیاہوا؟ دوسرے تبصروں کے علاوہ ایک سلگتاہوا بیان واشنگٹن سے آیا۔وفاقی وزیرداخلہ ان دنوں امریکہ میں تھےوہ ترقی اورمنصوبہ بندی کے وزیربھی ہیں اوراسی رشتے سے وہ عالمی بنک کے عہدیداروں سے ملاقاتیں کررہے تھے۔ جوکچھ انہوں نے کہااس کی چندسرخیاں دیکھ لیں’’ فوجی ترجمان معیشت پرتبصرہ نہ کریں ۔ غیرذمہ دارانہ بیانات پاکستان کی عالمی ساکھ کومتاثر کرسکتے ہیں۔ ملک 2013سے بہترہے ۔سیکورٹی کی تمام ضروریات پوری کررہے ہیں ‘‘۔ یہ بیان 14اکتوبرکے اخبارات میں شائع ہوا۔اسی دن پاک فوج کے ترجمان آصف غفور نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ یہاں بھی سرخیوں کی ایک پوری فصل تیارتھی۔انہوں نے کہاکہ سیمینار کے تناظرمیں انہوں نے جوبات کی تھی وہ اس پرقائم ہیں۔ایک توانہوں نے وضاحت کی کہ جمہوریت کوپاک فوج سے کوئی خطرہ نہیں ۔جمہوریت کوخطرہ عوام کی امنگوں اورجمہوری تقاضوں کوپورانہ کرنے سے ہوسکتاہے۔ان کاکہنا تھاکہ آئین سے بالاتر کچھ نہیں ہوگا اور ٹیکنوکریٹس کی حکومت یامارشل لا کی باتوں کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ جہاں تک سیکورٹی اورمعیشت کے براہ راست تعلق کی بات ہے تومیجرجنرل آصف غفور نے بطور شہری اورسپاہی ،وزیرداخلہ کے بیان سے مایوسی کااظہارکیا۔
اچھی بات یہ ہے کہ مکالمے کی یہ تلخی جلدہی دور ہوگئی۔ ملاقاتیں بھی ہوئیں اورکسی حدتک وضاحتیں بھی ۔لیکن قومی سلامتی اورمعیشت سے تعلق کے بارے میں غوروفکر اورگفتگو کاایک نیاباب ضرور کھل گیا ۔یہ توسیدھی سی بات ہے کہ ایک مضبوط معیشت کے بغیرہم اپنی سلامتی کادفاع نہیں کرسکتے۔ یہی جنرل باجوہ کی تقریرکاکلیدی نکتہ تھا۔ البتہ اس معاملے کی پیچیدگی کونظراندازنہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کے موجودہ حالات اورخاص طورپر دہشتگردی اورانتہاپسندی کے خلاف جاری خونریز جنگ کی وجہ سے سلامتی اورمعیشت کے درمیان جوتعلق ہوناچاہئے۔ اس میں خلل پیداہوسکتاہے ۔دکھ کی بات یہ ہے کہ اس موضوع پرسنجیدہ اورفکرانگیز دگفتگوکا فی الحال کوئی امکان دکھائی نہیںدیتا۔بات کرناپہلے سے زیادہ مشکل ہوتا جارہاہے۔ پھرصلاحیت کابھی ایک مسئلہ ہے کہ یہ گفتگوکون کہاں کرے۔ سوان حالات میں اگرفوج کے سربراہ نے چندخیالات کااظہار کیاہے توگویا بات کرنے کاایک موقع میسرآگیا ہے ۔میں اس بحث میں تونہیں جائوں گا کہ سیاسی حکمرانوں اورفوج کے اختیارات کے دائرے کتنے وسیع یامحدودہیں ۔یہی بھی ایک الگ بحث ہے کہ طاقت کس کے پاس کتنی ہے اورکیسے استعمال ہوتی ہے ۔ہاں، جنرل باجوہ نے ایک دوباتیں ایسی کہی ہیں کہ جن کوآگے بڑھانے کی ضرور ت ہے ۔اورمیراحوالہ صرف وہ خبریں ہیں جوشائع ہوچکی ہیں۔ مثال کے طورپر انہوں نے یہ کہا کہ تمام قومیں پرانی سوچ پرنظرثانی کرتے ہوئے اقتصادی استحکام اورقومی سلامتی کے درمیان توازن پر توجہ دے رہی ہیں۔ اس کامطلب یہ ہے کہ زندہ قوموں کواپنی پرانی سوچ پرنظرثانی ضرور کرناچاہئے ۔کیاہم یہ کرسکتے ہیں،خاص طورپر قومی سلامتی کے حوالے سے ؟ آئیں نوسے ڈرنا اورطرزکہن پر اڑنا تو ہمارا وتیرہ رہا ہے۔ جو وحشتیں ہمارے معاشرے میں پلتی رہی ہیں ان کااظہار باربارہوتا ہے۔ نفرتوں سے بھری تقریر یں مسلسل ہمارے کانوں میں گونجتی ہیں اور ان سے فروغ پانے والے رویے خنجربدست ہماراتعاقب کرتے ہیں۔ جنہیں ہم حکمراں خیالات کہیں ان سے نجات کاکوئی راستہ ہی نہیں دکھائی دیتا ۔جنرل باجوہ کے خطاب میں سب سے اہم نکتہ میری نظرمیں یہ تھاکہ سوویت یونین کےپاس ہتھیارکم نہ تھے لیکن کمزورمعیشت کے سبب سوویت یونین ٹوٹ گئی۔ سوچئے تویہ ایک بہت گہری بات ہے اورہمارے لئے تاریخ کاایک بڑاسبق ۔یوں بھی اس مہینے روس کے انقلاب کی سوسالہ سالگرہ منائی جارہی ہےاورایک سپرپاور کے کھڑے کھڑے گرجانے کی وجوہات پرنظرڈالی جاسکتی ہے لیکن ہم اتنے وسیع تناظر میں قوموں کے عروج وزوال کامطالعہ کیوں کریں جب ہم اپنی ہی تاریخ کے ایک عظیم سانحہ سے آنکھیں ملانے کی جرات نہیں کرسکتے ؟ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو 1971 تودکھائی دے رہاہے۔
معیشت اورقومی سلامتی کے تعلق کومانتے ہوئے میں یہ کہوں گاکہ جن وسائل کے بغیرہم زندہ نہیں رہ سکتے وہ مادی نہیں انسانی ہیں۔ اوراس محاذپرہماری پسپائی قابل شرم ہے۔یہ دوسری بات ہے کہ اس کی طرف ہمارے حکمرانوں کی توجہ ایسی نہیں کہ جسے مثال کے طورپر ردالفسادکادرجہ دیا جاسکے ۔پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیاکاچھٹا سب سے بڑاملک ہے۔ آپ یہ بتائیے کہ اس ملک میں کتنی کتابیں لکھی اورپڑھی جاتی ہیں ؟۔اس ملک میں کتنی لائبریریاں ہیں اوراعلیٰ تعلیم کے کتنے ایسے ادارے ہیں جوعلمی سطح پروہی درجہ رکھتے ہوں جوہتھیاروں میں ایٹمی صلاحیت کادرجہ ہے؟ اخلاقی اورتہذیبی معنوں میں ہمارا مقام کیاہے؟ معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ کامنظر سب کے سامنے ہے۔ہرروز کی کئی خبریں جوجنرل باجوہ یااحسن اقبال کے بیانات کی طرح بڑی سرخیاں نہیں بن پاتیں ذہن کو جھنجھوڑ کررکھ دیتی ہیں۔ اب پتہ نہیں کہ اس خبرکاقومی سلامتی سے کیاتعلق ہے کہ ایک غریب عورت نے ایک بڑے اسپتال کے باہرکھلی سڑک پر اپنے بچے کوجنم دیا ۔ایساکچھ تومسلسل ہوتاہے ایک طرح سے تودہشتگردی کی پیدائش بھی سب کے سامنے ہوئی تھی۔اس کی پرورش میں بھی کئی عوامل کارفرمارہے۔ اب توکراچی جیسے شہرمیں بھی کوئی جرگہ کسی کوموت کی سزاسناسکتاہے ۔انسانی وسائل کی صورت حال کااثرملک کے ہرادارے پر پڑ سکتا ہے۔ یہ اسی مہینے کی خبرہے کہ صرف تین فیصد امیدواروں نے اعلیٰ ملازمتوں کے لئے مقابلے کاامتحان پاس کیا۔آپ عدالتوں کانظام دیکھ لیں یاکسی سرکاری دفترکی چھان بین کرلیں ہرجگہ کوئی نہ کوئی کمی ضرورہے، توقومی سلامتی کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشرے کوسنواریں اورصحیح معنوں میں سماجی انصاف قائم کریں۔یہ کچھ کرنے کیلئے ہمیں اپنی سوچ اوراپنےنظریات کوبدلناپڑے گا۔اورآخر میں فیض کاایک شعر ۔۔۔۔جوسوال پیداہوتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ۔۔۔۔۔
’’دربار میں اب سطوت شاہی کی علامت
درباں کا عصا ہے کہ مصنف کا قلم ہے‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے