نسبت عشق میں گھائل تو سبھی کے کارکنان ہیں لیکن ہمارے خان صاحب کے مداحین کی بات ہی کچھ اور ہے۔فیض صاحب کا پچھتاوا یہ تھا انہوں نے کچھ عشق کیا، کچھ کام کیا۔ نونہالوں کا حسن اعجاز یہ ہے کہ انہوں نے صرف عشق کیا۔ فیض صاحب ہمت ہار بیٹھے اور تنگ آکر دونوں کو ادھورا چھوڑ گئے، نونہال مگر اپنی ہی آتش عشق کے پروانہ خودِ سوز بنے بیٹھے ہیں۔
یہ یادگارِ عشق ہیں، یہ سرابوں کے شبستان کے پتنگے ہیں، بے خودی میں کھچے چلے آتے ہیں۔صحراؤں کی پیاس جیسے کوئی بادل ہی سمجھتا ہے، ایسے ہی خان صاحب کی حکمت کو صرف یہ پتنگے ہی جان پائے ہیں۔
آپ ان سے منوا کر دیکھ لیجیے کہ ان کے خان صاحب سے کبھی کوئی غلطی سرزد ہو سکتی ہے۔ہتھیلی پر سرسوں جم سکتی ہے، جون میں برف پڑ سکتی ہے، دسمبر گرم ہو سکتا ہے، لیکن یہ انہونی نہیں ہو سکتی کہ ہمارے خان صاحب کوئی غلطی کر بیٹھیں۔خان صاحب، جب، جہاں اور جو بھی کرتے ہیں، ٹھیک کرتے ہیں، جو وہ ٹھیک نہیں کر پاتے وہ اصل میں انہوں نے کیا ہی نہیں ہوتا، وہ تو کسی اور نے کیا ہوتا ہے۔
ابھی القادر ٹرسٹ کیس ہی کو دیکھ لیجیے۔ نسبت عشقی کے گھائل مصرعہ اٹھا رہے ہیں کہ 190 ملین کی خان صاحب کے سامنے حیثیت ہی کیا تھی؟ کرکٹ کے دو چار بلوں پر ان کے دستخط لے کر نیلامی کرا دی جاتی تو اس سے دگنی رقم مل سکتی تھی۔ ان کا جذبہ نیک تھا، وہ تو برا ہو شہزاد اکبر کا جس نے ہمارے خان صاحب کو وھوکے میں رکھ کر ان سے یہ غلط کام کروالیا۔
عشاق صفائی کی یہ دلیل سن کر آدمی سوچتا ہے، یہ شہزاد اکبر صاحب کون تھے؟ کیا نیب نے خان صاحب کو حکم دیا تھا کہ بیرسٹر شیزاد اکبر کو احتساب کا قلمدان سونپ دیجیے؟ کیا خان صاحب اتنے ہی ننھے اور معصوم سے تھے کہ انہیں کچھ خبر ہی تھی کہ جس احتساب کے نعرے پر انہوں نے بائیس سال جدوجہد فرمائی ہے، اس احتساب کے امور وہ کس شخص کو سونپ رہے ہیں؟ کیا یہ تھی وہ ٹیم جو دو عشروں کی جدو جہد کے بعد تیار فرمائی گئی تھی؟
ایسے سوالات سن کر، عشاق خود معاملہ سنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ انہیں اتنا سنجیدہ دیکھ کر آدمی کو وہی حیرت ہوتی ہے جو پہلی بار برف زاروں پر پوری رات کے چاند کو ا ترتے دیکھ کر کسی کم سن کو ہوتی ہے۔وہ رجز پڑھتے ہیں: اوئے تمہیں معلوم نہیں بیرسٹر شہزاد کس کا آدمی تھا؟ جس کا آدمی تھا اسی سے پوچھا جائے، ہمارے خان صاحب کو کیا معلوم، کرپشن کیاچیز ہوتی ہے؟
اب کون ہے، جو اپنی عزت ہتھیلی پر رکھ کر ان سے سوال کرے کہ آپ کے خان صاحب تو معلوم انسانی تاریخ کے آخری رہنما تھے جو عوامی مقبولیت کے سہارے اقتدار میں آئے تھے، اپنے فیصلے خود کرتے تھے اور کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتے تھے، کسی کے مہرے نہیں تھے۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ بیرسٹر شہزاد اکبر کو کسی اور نے بھیجا اور آپ کے خان صاحب نے اسے وزارت دے دی؟ مولانا فضل الرحمن نے نکے اور نکے کے ابے کی جو گرہ لگائی تھی، کیا آپ اس گرہ کی تائید فرما رہے ہیں؟ یا بلاول نے جب سلیکٹڈ کا طعنہ دیا تھا تو کیا برحق دیا تھا؟آپ گود میں بیٹھ کر حکومتیں چلاتے رہیں تب بھی آپ باکمال اور آپ گود سے اتارے جانے پر برہم ہو جائیں تب بھی آپ بے مثال؟عالی جاہ کیا یہ بانوے کے ورلڈ کپ جیسا حسین تضاد نہیں؟
پنجاب میں طرز حکمرانی کا سوال اٹھے تو اس کا ذمہ دار عثمان بزدار ہے، ہمارے خان صاحب نہیں۔
رانا ثناء اللہ پر منشیات کیس میں جھوٹ سچ کا سوال اٹھے تو اس کا ذمہ دار اے این ایف والے ہیں، ہمارے خان صاحب نہیں۔
ملکی معیشت فالو آن ہو جائے اور روپیہ کلین بولڈہو جائے تو اس کے ذمہ دار شبیر زیدی اور دیگر ماہرین معیشت ہیں، ہمارے خان صاحب کو کیا خبرمعیشت کیا چیز ہوتی ہے، انہیں تو یہ بھی ٹی وی سے پتا چلتا تھا کہ روپے کی قدر میں کمی ہو گئی ہے۔
میڈیا کے ساتھ معاملات خراب ہو جائیں تو اس کے ذمہ دار فواد چودھری ہیں، خان صاحب کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ میڈیا کو دیکھتے رہیں۔
قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس بھیجا جائے تو اس کی ذمہ داری وزیر قانون کی ہے، خان صاحب کو کیا علم کہ کیا ہو رہا تھا۔
پی آئی اے پابندیوں کی زد میں آ جائے تو اس کی ذمہ داری وزیر ہوابازی پر ہے جو غیر ذمہ دارانہ بیان دے مارتا تھا، خان صاحب تو بے قصور ہیں۔
مجنوں نے اپنی لیلی کا مقدمہ بھی اس شان سے کب لڑا ہو گا جیسے نسبت عشقی کے یہ پتنگے اپنے خان صاحب کا مقدمہ لڑتے ہیں۔
سڑکیں وغیرہ بنانا ویسے ہی وزیر اعظم کا کام نہیں، اچھی ٹیم منتخب کرنا بھی وزیر اعظم کا کام نہیں، وزیر خزانہ بھی کسی اور نے دیا تھا، احتساب کا وزیر بھی کسی اور کے کہنے پر رکھ لیا تھا، سوال یہ ہے کہ انسانی تاریخ کایہ آخری باشعور وزیر اعظم خود کیا کرتا رہا؟ یہ ایک با اختیار وزیر اعظم تھا یا محض ایک بے اختیار مہرہ؟ اگر با اختیار تھا تو فیصلوں کی اونرشپ لینی چاہیے۔ اور اگر بے اختیار تھا تو یہ اس بے اختیاری میں اس وقت تک بد مزہ کیوں نہیں ہوا جب تک اسے اقتدار سے نکال باہر نہیں کیا گیا؟
اگر ہر طرح کی غلطی کا ذمہ دار خان صاحب کا متعلقہ وزیر ہے اور ہر متعلقہ وزیر کو خان صاحب کی کابینہ میں لانے والی قوت خان صاحب نہیں بلکہ کوئی اور تھی اور ہر وزیر کی ناقص کارکردگی کا سوال خان صاحب سے نہیں بلکہ اس متعلقہ وزیر کو وزیر بنانے والی دیدہ و نادیدہ قوت سے پوچھا جانا چاہیے۔ امور خارجہ کا سوال بھی اگر خان صاحب سے نہیں کسی اور سے پوچھا جانا چاہیے، تو پھر خان صاحب کی وزارت عظمی کس مرض کی دوا تھی؟وہ خود جن اجزائے تراکیبی سے تیار کردہ کشتہ مرجان تھے وہ اجزا کن جڑی بوٹیوں سے کشید کیے گئے تھے؟
عشاق خود معاملہ کے ہاں ان سوالات کی کوئی اہمیت نہیں۔ ان کے خان صاحب کسی چیز کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ ہر غلطی کا ذمہ دار کوئی اور ہے۔ ہاں البتہ ان کے دور حکومت میں اگر بارشیں زیادہ ہو گئی تھیں تو اسے خان صاحب کا اعجاز ِ حسن قرار دیا جاتا ہے۔
ضیاالحق قاسمی بھی کہاں یاد آئے:
عجب آدمی ہے یہ قاسمی، اسے بے قصور ہی جانیے
یہ تو ڈاکیا ہے جناب من، اسے بھیجتا کوئی اور ہے