قلم ہو یا زبان،یہ سب خدا کی نعمتیں ہیں۔ہر نعمت کا حساب ہو گا۔
ایک مدت گزر گئی لکھتے لکھاتے۔اردو ادب کا بڑا حصہ پڑھ ڈالا۔مشرق ومغرب کے ادب کی بھی حسبِ توفیق خوشی چینی کی۔اتنی خبر تو ہے کہ اسالیبِ کلام کیا ہوتے ہیں۔طنز کے پیرائے کو سمجھتے ہیں اورتحسین کے زاویے کو بھی۔ ہجو بھی معلوم ہے اورمدح بھی۔لکھنے بیٹھتے ہیں تو ان تما م اسالیب سے آراستہ،الفاظ صف بستہ سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔بسا اوقات جملے نوکِ قلم سے لپٹ جاتے ہیں۔ان لمحوں میں خدا ہی کی توفیق سے کوئی احساس قلم کو تھام لیتا ہے اور ایسے جملے کبھی قرطاس کی زمین پرقدم نہیں رکھ پاتے۔
یہ احساس کیا ہے؟یہ ایک سوال ہے:تم کیوں لکھتے ہو؟اس لیے کہ لوگ تمہیں صاحبِ قلم مانیں اور تحسین کے پھول نچھاور کریں؟ ناقدین کے منہ بند ہو جائیں اور تمہاری انا کو تسکین ملے؟فیس بک پر بیٹھا مداحوں کا ایک ٹولہ واہ واہ کرتا رہے؟ اسی ا حساس کی کوکھ سے جواب بھی جنم لیتا ہے: اگر ایسا ہے تو یہ تمہاری ذھنی اور اخلاقی پستی کا اظہار ہے۔تمہاری انا اتنی اہم کیسے ہوگئی کہ ملی و انسانی فلاح پر غالب آجائے؟یہ تو خود پسندی اور نرگسیت کا ادنیٰ درجے کا ایک اظہار ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔ پھر ان باتوں کی عمر ہی کیا ہے؟اتنی، جتنی ایک کالم کی۔آٹھ نہیں تو دس دن۔کیااتنی عارضی اور بے وقعت خوشی کے لیے ایک بڑے مقصد کو قربان کرنا ،کوئی عقل کی بات ہے؟ میں اسی احساس کے ساتھ قلم ا ٹھاتا ہوں اگر چہ یہ دعویٰ ہر گز نہیں کہ ہمیشہ اس کے تقاضے نبہا سکا ہوں۔
مجھے یہ بات بادلِ نخواستہ لکھنا پڑی ورنہ میرےلیے کالم میں اپنا ذکریا شخصی جذبات یا واقعات کا بیان سخت ناپسندیدہ عمل ہے جن میں پڑھنے والے کے لیے دلچسپی کا کوئی سامان نہ ہو۔میں کوشش کرتا ہوں کہ کالم کو ہمیشہ اجتماعی مسائل ہی کے لیے خاص رکھوں ۔آج یہ سب کچھ اس لیے لکھنا پڑا کہ مسلمانوں کودرپیش مسائل کے بارے میں، میرے یا میرے ہم فکر حلقے کے خیالات تنقید کی زد میں ہیں اور اس تنقید میں مہربانوں نے سارا زورِ قلم صرف کر ڈالا ہے۔القاب ہیں،طنز ہے۔استہزاہے۔وغیرہ۔ یہی نہیں ،یہ تنقید غلط بیانیوں،غلط فہمیوں اورتضادات سے اس قدر مملو ہے کہ اس کی نشان د ہی پر کئی صفحات کالے کیے جا سکتے ہیں۔ چونکہ ان ناقدین میں کچھ وہ بھی ہیں جو میرے دل کے قریب ہیں،اس لیے براہ راست نشان د ہی کرتے ہوئے مجھے حیا آتی ہے۔ بس اتنا عرض کر نا ہے کہ دبستانِ شبلی کے خوشہ چینوں کے لیے یہ دنیا اجنبی نہیں جن کے علمی آباواجداد کا تعلق اردو کے ارکانِ خمسہ میں ہو تا ہے۔ بس ایک احساس ہے جو قلم سے لپٹا ہوا ہے۔تاہم ،ہم بھی انسان ہیں ۔یہ ممکن ہے کہ کبھی اس احساس کی گرفت سے نکل جاتے ہوں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ایک استاد میسر ہے جو تذکیر کراتا ہے ۔جس کا اپنا ظرف بہت بڑا ہے۔ وہ ہمیں مسلسل یاد دھانی کراتا ہے کہ قلم ہو یا زبان ،یہ خدا کی نعمتیں ہیں اور ہر نعمت کا حساب ہونا ہے۔
یہ تنقید ایک مسلسل عمل ہے مگر اس وقت اس کا سبب فلسطین کی موجود ہ صورتِ حال ہے۔ واقعہ یہ ہےکہ اہلِ فلسطین کو جتنا نقصان ان کے خود ساختہ نمائندوں اور نادان دوستوں نے پہنچایا ہے،اتنا تو اسرائیل اور امریکہ مل کر نہیں پہنچا سکے۔فلسطین کی سرزمین کو کھنڈرات میں بدل دیا گیا۔ان کی نسلیں برباد ہو گئیں۔تاریخ نے جب بھی ان کے لیے کوئی موقع پیدا کیا،یہ نادان دوست سامنے آکھڑے ہوئے کہ کہیں یہ آتش کدہ سرد نہ ہو جائے۔ یہ اس کوشش میں رہےکہ وہاں مقتل آباد رہے اوروہ اپنے آرام کدوں میں بیٹھ کر ان کے غم میں آنسو بہاتے اوراس آتش کدے کو تیل فراہم کرتے رہیں۔گزشتہ ڈیڑھ سال میں توحد ہوگئی۔ اب جنگ بندی کو وہ کامیابی سمجھ رہے ہیں۔میں جب سوال اٹھاتا ہوں کہ بھائی اس بربادی پر جشن کیسا تو کہتے ہیں دیکھو!انہیں تو فلسطینیوں کی خوشی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔
دنیا میں فلسطینیوں کا کوئی خیر خواہ ہے تو وہ ہم جیسے لوگ ہیں جو انہیں آباد اور شاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ جیسی آرام کی زندگی ہم اسلام آباد میں گزار رہے ہیں،وہی ان کو غزہ میں نصیب ہو۔ان کی بچے بھی اسی طرح اچھے مستقبل کاخواب دیکھیں جسے ہمارے بچے دیکھتے ہیں۔ان کو تعلیم ملے اور ان کے سامنے اپنے مستقبل کا ایک واضح نقشہ ہو۔ یہاں الٹی گنگا بہائی جا رہے کہ جو اہلِ فسلطین کے لیے امن تلاش کرے،وہ دشمن اور جو ان کے لیے مقتل کو مسلسل آباد رکھنا چاہے وہ خیر خواہ! آج فلسطینیوں کو اپنے مسائل کا نیا حل چاہیے۔اُس حل کی ناکامی پر تو تاریخ مہرِ تصدیق ثبت کر چکی،جس کی نمائندگی حماس کر رہی ہے۔ اس حل پر اصرار کر نے والے فلسطینیوں کے خیر خواہ ہر گز نہیں ہیں۔ عزیمت ا ور حماقت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
فلسطین کے باب میں اپنانقطہ نظر ،میں ایک بار پھر چند نکات کی صورت میں بیان کر رہا ہوں۔یہ لازم نہیں کہ فہمِ دین کے باب میں میرے ہم خیال حلقے کو بھی اس سے پورا اتفاق ہو ۔
۱۔اسرائیل کاقیام عالمی قوتوں کا ایک ناجائزاقدام تھا جو ایک عالم گیر اور مسلسل فساد کا اصل سبب ہے۔فلسطین کے مسئلے کو بیان کر تے وقت اس کی یاد دہانی ہوتی رہے تاکہ ایسی غلطیوں کو پھر نہ دھرایا جا ئے۔
۲۔ اسرائیل ،ان حدود میں سمٹ جائے جو ۱۹۴۸ میں اس کے لیے طے کی گئی تھی۔اسرائیل نے اقوام ِ متحدہ کی قراردادوں کی جو مخالفت کی ہے،اُس پر اس سے معذرت کے لیے کہاجائے۔عالمی برادری اور مسلم دنیا اس میں اپنا کردار ادا کرے۔
۳۔غزہ میں جنگ بندی کامعاہدہ کم از کم دس برس کے لیے ہو۔عالمی قوتیں اس دوران میں امن کی ضمانت دیں جن میں سعودی عرب اور قطر سمیت مسلمان ممالک بھی شامل ہوں۔
۴۔غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے مارشل پلان کی طرزپر ایک منصوبہ دیا جائےجس کے لیے سب سے زیادہ وسائل امریکہ دے جواس بربادی کے ذمہ داروں میں سرِ فہرست ہے۔
۵۔ حماس جیسے تنظیمیں انسانی بستیوں کو پناہ گاہ بنانے سے گریز کریں۔ اہلِ فلسطین ایک قیادت میں مجتمع ہو کر اپنے لیے مستقبل لا ئحہ عمل طے کریں اور سیاسی جد وجہد کا راستہ اپنائیں۔
۶۔مزاحمت کے موجودہ تصور کا اخلاقی اور عقلی محاکمہ کیا جائے اور مزاحمت کا ایک متبادل تصور سامنے لا یا جا ئے۔
نادان دوستی میں مسئلہ اخلاص کا نہیں،بصیرت کا ہو تا ہے۔لیکن اُس وقت یہ ایک اخلاقی مسئلہ بن جا تا ہے جب ہم دوسروں کے لیے مثالی حل سوچتے ہیں اوراپنے لیے عملی۔ اگر ہم اپنی بچوں کو ایک پرامن ماحول چاہتے ہیں تو فلسطینیوں کے لیے کیوں نہیں؟کیا ایک اچھی زندگی صرف ہمارا حق ہے،ان کا نہیں؟یہ اخلاقی سوال ہے جس کا لوگوں کو سامنا کرنا چاہیے۔یہاں بیٹھ کر اسرائیل کو گالیاں دینے سے فلسطینیوں کے دکھوں کا مداوہ نہیں ہو سکتا۔ الخدمت جیسی تنظیمیں کم ازکم ان کے زخم پرمرحم تو رکھ رہی ہیں کہ وہ اسی مقصد کے لیے قائم ہو ئی ہیں ۔دانش ور اس کے سوا کیا کر رہے کہ فلسطینیوں کے لیے مقتل آباد رکھنے کے لیے دلائل فراہم کر رہے ہیں۔
آج جو جذباتی فضا بنادی گئی ہے،اس میں یہ بات آسانی سے سمجھ میں آنے والی نہیں۔ مجھےلیکن وہی کہنا ہے جسے میں علی وجہ البصیرت درست سمجھتا ہوں۔میں اسے بیان کر تا رہوں گا ،الا یہ کہ کوئی اخلاقی یا عقلی دلیل سامنے آ کھڑی ہو۔ یہ کوئی ذاتی اناکامعرکہ نہیں۔ اور نہ ہی کسی کی انا یہ قیمت رکھتی ہے کہ اس کے لیے انسانی مقتل آباد رکھنے کے لیے دلائل تراشے جائیں۔یہ نرگسیت ہی ایک شکل ہے جو بڑے پیمانے پر سامنے آئے تو عالمی جنگ برپا کرا دیتی ہے۔ اس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔