۱ٌ۹۴۷ میں جب قبائلیوں نے ریاست جموں کشمیر پر حملہ کر کے ریاست پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو مہاراجہ ہری سنگھ کی درخواست پر بھارت نے ریاست میں اپنی فوجیں اتار دیں اور ساتھ ہی یہ بھی تحریری لکھ کر دیا کہ ریاست کا فیصلہ ریاست کی عوام کی منشا و مرضی کے مطابق استصواب رائے کے ذریعے کیا جائے گا۔ بھارت ریاست جموں کشمیر پر پاکستان کو جارحیت کو اقوام متحدہ میں لے گیا جس پر اقوام متحدہ نے دو قراردادیں منظور کیں۔ قرارداد دوم میں پاکستان نے بھارت سے مل کر ریاست جموں کشمیر کی خود مختاری کا اختیار ختم کروا دیا اور خود ریاست جموں کشمیر کا وکیل بن گیا۔
ریاست جموں کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی حیثیت ایک جارح ملک کی سی تھی لیکن دونوں ممالک کی ملی بھگت سے پاکستان ریاست جموں کشمیر کا دعوے دار بن گیا یوں دونوں ممالک بھارت اور پاکستان ریاست جموں کشمیر کی سرزمین کے لیے لڑنے لگے۔ دونوں ممالک اس جنگ کو ریاست کے شہریوں کے ساتھ آئینی اور قانونی ہتھکنڈوں کے ساتھ لڑنے لگے پاکستان کی جانب سے معائدہ کراچی اور ایکٹ ۷۴ جبکہ بھارت کی جانب سے دہلی ایکارڈ جیسے معائدات ریاست کے ابن الوقت حکمرانوں سے کیے گئے۔ ان معائدات کے تاریخی اور قانونی حیثیت پر الگ سے بحث کی جا سکتی ہے۔
پاکستان کا دعوی ہے کہ پاکستان نے ریاست جموں کشمیر پر تین جنگیں ۴۸، ۶۵، اور ۷۱ میں لڑیں جبکہ ۹۹ کے سرحدی تنازعے کو بھی ریاست کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے جبکہ پاکستان بھارت سے ریاست پر کئی ایک معائدے پر کر چکا ہے جن میں شملہ معائدہ نے سب سے زیادہ ریاست جموں کشمیر کی حیثیت اور اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی دنیا میں مسئلے کی نوعیت کو زک پہنچایا۔ شملہ معائدہ سے ریاست جموں کشمیر دو بندروں کے درمیان بٹنے والا کیک بن گئی ریاست دونوں ملکوں کا اندرونی مسئلہ بن گئی۔ اس معائدے پر بھارت اور پاکستان نے یہ طے کیا کہ دونوں ممالک میں سے کوئی بھی ملک دوسرے ملک کی مرضی کے بغیر کسی بھی بین الاقوامی فورم پر اس مسئلہ کو نہیں چھیڑے گا اور گفتگو نہیں کرے گا۔ جبکہ اس کے بعد پاکستان نے ہمیشہ اس مسئلے کو اپنے ایجنڈے کا حصہ بنایا جس پر بھارت کی طرف سے ہمیشہ بھر پور احتجاج سامنے آیا۔
ریاست جموں کشمیر پر پاکستان کا موقف یہی رہا ہے کہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ سوال تو اٹھتا ہے کہ پاکستان اس سے کیا مراد لیتا ہے ظاہر ہے پاکستان کی مراد ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ ریاست جموں کشمیر کا الحاق ہے کیونکہ اقوام متحدہ کی قراردادیں بظاہر حق رائے دہی کی آڑ میں ریاست جموں کشمیر کی آزادی کو الحاق سے مشروط کر چکی ہے جس کے پیچھے ظاہر ہے دونوں ممالک کی ملی بھگت ہے۔
یوں تو دونوں ممالک ریاست جموں کشمیر پر قومی بیانیہ رکھتے ہیں مگر پاکستان اس معاملے میں دو قدم آگے ہے۔ بھارت کے ایجنڈے میں ریاست جموں کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے بھارت ریاست میں کس بھی قسم کی رائے شماری کے حق دینے میں نہیں ہے اور بھارت کسی بھی طرح ریاست کی موجودہ جغرافیائی نوعیت کی تبدیلی کے حق میں نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھارت میں بائیں بازو کے فعال کارکن، فلسفی، صحافی اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ ریاست میں رائے شماری کے حق میں ہیں اور وقتا فوقتا نہیں صرف ریاست میں بھارت کے عزائم اور انسانی حقوق پر بات کرتے نظر آتے ہیں بلکہ رائے شماری کے حق میں دلائل بھی دیتے ہیں جس کا بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو وعدہ کر چکے ہیں۔
پاکستان خود کو ریاست جموں کشمیر کا وکیل، بڑا بھائی کہتا ہے جبکہ خود ریاست جموں کشمیر پر دعوے دار بھی ہے۔ یعنی مدعی بھی ، بھی گواہ بھی اور وکیل بھی۔ پاکستان کا موقف ریاست جموں کشمیر کے حوالے سے بظاہر کھلا ہے لیکن لفظی تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ مثلا پاکستان بھارت کی طرح ہی ریاست جموں کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ کہتا ہے اور منطق یہ گھڑی جاتی ہے کہ چونکہ ریاست جموں کشمیر سے بہنے والے دریائوں سے پاکستان سیراب ہوتا ہے اس لیے ریاست جموں کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے۔ ریاست پر پاکستان کا دوسرا بڑا موقف یہ ہے کہ ریاست جموں کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ائجنڈا ہے جبکہ ریاست تقسیم کے وقت آزاد تھی اور اس کے دو ماہ بعد تک بغیر کسی بیرونی دباو یا مدد کے آزاد اور خود مختار رہی ہے اس حوالے سے تین جون کے منصوبے کا بھی بغور جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
ان حقائق کے بعد پاکستان کا تیسرا بڑا موقف جو کہ سوالیہ بھی ہے اور قابل غور بھی یعنی پاکستان ریاست جموں کشمیر کے شہریوں کا سیاسی اور اخلاقی حمایتی بھی ہے۔ مدعی ہونے کی حیثیت میں سیاسی اور اخلاقی حمایت چہ معنی دارد۔۔۔۔؟ ایک ہی وقت میں حمایت اورحق کا دعویٰ پاکستان کے ریاست کے حوالے سے بیانیے میں تضاد تو پیدا کرتا ہے لیکن اس پر سوال اٹھانے کا حق کسی کو نہیں ہے۔
یوں تو ریاست جموں کشمیر کی خودمختاری تو روز اول سے ہی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے لیکن پاکستان اور ہندوستان دونوں ریاست جموں کشمیر کو خود مختاری دینے کے حق میں نہیں ہیں، مہاراجہ ہری سنگھ ، شیخ عبداللہ، پریم ناتھ بزاز، مقبول بٹ، عبدالخالق انصاری اور کے ایچ خورشید جیسے بڑے نام ریاست کی خودمختاری کے حق میں تھے اور ان تمام افراد کا ریاست جموں کشمیر میں لوگوں اثررسوخ بھی تھا۔ پچاس کی دہائی اور پھر ستر کی دہائی میں ریاست جموں کشمیر کی خود مختاری کو لے کر بہت ساری سیاسی تنظمیں سرگرم عمل رہیں جن کو بزور طاقت ہندوستان اور پاکستان وقتا فوقتا ختم کرتے رہے ۔
مقبول بٹ کی پھانسی اور نوے کی تحریک کے بعد ریاست کی خودمختاری ریاست جموں کشمیر کے طول و عرض میں تحریک کا حصہ رہی اور ہندوستان اور پاکستان سے الحاق کے حق میں دلائل دینے والے سیاسی اور مذہبی زعما بھی اس کو تسلیم کرتے رہے گزشتہ بیس سالوں میں اور خاص کر نوجوان نسل میں ریاست کے طول و عرض میں ریاست کا خود مختاری کا نعرہ کافی مقبول ہے جبکہ بہت سے ممالک بھی اس حوالے سے قراردادیں پیش کر چکے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان سے چند بڑے نام جن میں صحافی، وکلا، سماجی کارکن، مفکر اور مصنف شامل ہیں ریاست جموں کشمیر کی خود مختاری کو ایک آپشن کے طور پر نہ صرف تسلیم کر چکے ہیں بلکہ وقتا فوقتا اس کے حق میں دلائی بھی دیتے نظر آتے ہیں۔جن میں دائیں اور بائیں بازو دونوں کے لوگ شامل ہیں۔
پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا برطانیہ میں لندن اسکول آف اکنامکس میں یہ موقف یہ ریاست جموں کشمیر کی خود مختاری ممکن نہیں یا پھر خودمختاری کی حمایت کرنے والے چند ایک لوگ ہیں نہ صرف خود پاکستان کے موقف اور بیانیے کی نفی کرتا ہے وہیں پاکستانی حکمرانوں کی لالچ اور طمع کو بھی ریاست کے حوالے سے ظاہر کرتا ہے ۔ پاکستان ریاست کو خودمختاری دینے کے بجائے بھارت سے اس کے الحاق کی حمایت کرتا ہے۔ اسے بھارت سے الحاق تو قبول ہے لیکن کسی بھی صرت میں ریاست جموں کشمیر کی خود مختاری قبول نہیں ہے۔ جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کا ریاست جموں کشمیر کے متعلق ریاستی عوام کی حمایت کا بیانیہ قطعی مشروط ہے اور جہاں پاکستان کو یہ احساس ہو گا کہ ریاست میں خود مختاری کے حامیوں کی تعداد الحاق پاکستان کے حامیوں سے زیادہ ہے کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان بھی بھارت کی طرح ایک ہی رد عمل کا مظاہرہ کرے۔
ریاست جموں کشمیر کی خود مختاری ریاستی عوام کا بنیادی حق ہے اور ریاست کا فیصلہ ریاستی عوام نے ہی کرنا ہے۔ پاکستان کو اگر ریاستی عوام کی حمایت درکار ہے تو اسے اپنے بیانیے میں تبدیلی کر کے نیا موقف اپنانا ہو گا۔ مختلف بین الاقوامی اداروں کے کیے گئے سرویز سے یہ نتائج برآمد ہو رہے ہیں کہ ریاست میں ایک کثیر تعداد خودمختاری کے حامی لوگوں کی ہے اور یہ نتائج مستقبل میں کسی نتیجے پر پہنچنے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں ، اداروں اور پالیسی سازوں کو شاید سمجھنے میں وقت لگ رہا ہے