کوئی کہتا ہے کہ حکومت نے فوج کی ثالثی میں جو معاہدہ راولپنڈی اسلام آباد کو ملانے والے علاقہ فیض آباد میں احتجاج کرنے والوں کے ساتھ کیا وہ ریاست کی طرف سے مکمل ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ اس معاہدہ سے حکومت کی رٹ ختم ہو گئی۔ کسی کا کہنا ہے کہ اس معاہدہ نے ریاست اور حکومت دونوں کو کمزور کیا۔ اس معاہدہ کے فوری بعد ملک بھر میں امن ہو گیا، تمام راستے کھل گئے لیکن میڈیا اور سیکولر کا ایک طبقہ یہاں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ جیسے پاکستان پر بہت بڑا ظلم ہو گیا ہو۔ وفاقی حکومت نے فیض آباد میں دھرنا دینے والوں کے خلاف جس انداز میں ایک ناکام آپریشن کیا اور جس طرح میڈیا نے اس آپریشن کی کوریج کر کے پورے پاکستان میں اشتعال پیدا کیا اس سے جو حالات پیدا ہوئے وہ انتہائی سنگین ہو رہے تھے۔ راولپنڈی اسلام آباد سمیت کئی شہروں میں ہنگامے شروع ہو چکے تھے جس سے نہ صرف کئی لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں بلکہ قومی و نجی املاک کو نقصان پہنچا۔ ن لیگ کے رہنمائوں کو دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں اور کچھ پر اور اُن کے گھروں پر تو حملے بھی ہوئے۔ ایک کے بعد ایک شہر میں کئی کئی احتجاج اور دھرنےشروع ہو رہے تھے اور ڈر یہ تھا کہ اگر حالات پر فوری طور پر قابو نہ پایا گیا تو ملک بھر میں شدید ہنگامے شروع ہو جائیں گے اور ایسا انتشار پیدا ہو گا جس کا پاکستان کو بہت بڑا نقصان ہو سکتا تھا۔میری ان دنوں میں کچھ حکومتی عہدیداروں سے بات ہوئی تو پتا چلا کہ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے اور کس طرح حالات کو تیزی سے بگڑنے سے بچائے۔
ان دو روز کے دوران عوامی رد عمل کو دیکھتے ہوئے کئی ن لیگی پارلیمنٹیرینز نے تو پارٹی سے استعفی دینے کا بھی عندیہ دے دیا۔ حالات ایسے تھے کہ سنگین انتشار اور انارکی کا نقشہ سب کے سامنے تھا، حکومت مکمل طور پر بے بس اور حکومتی رٹ کا کوئی نام نشان نظر نہیں آ رہا تھا۔ حکومت کا قائم رہنا اور چلنا تو مشکل نظر آ ہی رہا تھا، صورتحال تو ریاست کے لیے بھی خطرناک ہو چکی تھی۔ ایسے حالات میں حکومت نے فوج کے ذریعے مظاہرین کے رہنمائوں سے بات چیت کی اور ایک معاہدہ کے ذریعے مسئلہ کا پر امن حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ایک روز پہلے ڈر خوف یہ تھا کہ نجانے ملک کا کیا بنے گا اور کتنے معصوم اور اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے، لیکن اس معاہدے کے نتیجے میں نئی صبح امن کا پیغام لائی۔ دھرنے ختم ہو گئے، احتجاج رک گئے اور ہر پاکستانی نے سکون کا سانس لیا کہ پاکستان بہت بڑے حادثے سے بچ گیا۔ لیکن معاہدے کے سامنے آتے ہیں میڈیا فوج اور حکومت پر برس پڑا جبکہ سوشل میڈیا میں ایک خاص طبقے نے تو گالم گلوچ اور فوج مخالف پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔ اعتراض بلکل کیا جا سکتا ہے کہ فوجی افسران کے نام معاہدے میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھے لیکن فوج نے یقینی طور پر ملک کو ایک بڑے انتشار سے بچایا۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ فوج احتجاج کرنے والوں کے خلاف ڈنڈا استعمال کرتی تو اس کے نتیجہ میں مزید بگاڑ پیدا ہوتا کیوں کہ احتجاج کرنے والوں کا جذبہ ایسا تھا کہ وہ موت کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے۔ میڈیا کے سیانوں کے لیے بڑا آسان ہے کہ اب لاٹھی لے کر حکومت اور فوج کے پیچھے پڑ جائیں۔ کسی سیانے نے یہ تو بتایا نہیں کہ اُن حالات میں اگر یہ نہ کیا جاتا تو دوسرا اور کوئی حل کیاموجود تھا؟؟ کہتے ہیں کہ حکومت کی رٹ ختم ہو گئی اور ریاست کمزور ہو گئی۔ حکومت کی رٹ تو اُن دو دنوں کے دوران ویسے ہی ختم ہو چکی تھی، ریاست کو تو شدید خطرہ کا سامنا تھا۔ اس معاہدے نے تو حکومتی رٹ بحال کی، ریاست کو انتشار سے بچایا۔ اس معاہدے سے لبرلز کا ایک طبقہ تو بہت پریشان تھا۔ محسوس ایسا ہو رہاتھا کہ وہ اس پرامن حل سے ناخوش ہیں اور جیسے عمران خان نے کہا چاہتے تھے کہ مذہبی جماعت کے احتجاجیوں کو مارا جائے، اُن کا خون بہایا جائے۔ میڈیا جس کو معاہدے پر اعتراض رہا،اس نے اپنے منفی کردار پر کوئی بات نہیں کی۔ جس روز حکومت نے آپریشن کیا اور جس انداز میں اُسے میڈیا نے دنیا بھر میں دکھایا اُس سے بڑی فتنہ انگیزی ہو نہیں سکتی۔
اس پر تو بہت بات ہوئی کہ ٹی وی چینلز کو کیوں بند کیا گیا لیکن کیا کوئی ایک ٹاک شو ایسا ہوا جس میں میڈیا کے منفی کردار اور شر انگیزی پر بات ہوئی ہو اور کسی نے یہ کہا ہو کہ دوسروں کو ہر حال میں نکتہ چینی کرنے والے میڈیا کو بھی سدھرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ویسے تو میں آپریشن کے آپشن کے سخت خلاف تھا لیکن سمجھتا ہوں کہ اگر آپریشن کرنا ہی تھا تو ٹی وی چینلز کو بند کر کے آپریشن کیا جانا چاہیے تھا۔ حیرانگی اس بات پر بھی ہے کہ حکومتی وزراء جن کی اس معاہدہ کے نتیجے میں جان میں جان آئی، وہ بھی اب میڈیا کے ڈر سے اُسی کی زبان بول رہے ہیں اور اعتراض کر رہے ہیں کہ یہ معاہدہ کیوں کیا گیا۔ میاں نواز شریف نے بھی معاہدہ پر اپنی ناخوشی کا اظہار کر دیا۔ کوئی پوچھے اگر یہ معاہدہ اتنا بُرا ہے تو وقت پرکوئی بہتر حل کیوں نہیں دیا۔