حافظ صفوان احمد
ملتان
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"انسان ایک خزانہ ہے” یہ جملہ میں نے سب سے پہلے ایک بھیڑیے سے سنا تھا۔
میں پاکستان میں دو یونیورسٹیوں میں پڑھا۔ دینی ذہن شروع سے تھا اور مختلف مذہبی جماعتوں کے سیاسی ونگوں کے لیے کام کرنا چلتا رہا اور پھر تبلیغ میں آنا جانا۔ ایک وقت آیا کہ عملیات کی طرف توجہ ہوگئی اور اس میں خاصی ترقیات حاصل ہوگئیں۔ ایک بار ہمت کرکے ایک خاص عمل کے لیے کئی دن کے لیے قبرستان میں رات کو حصار قائم کرکے اس میں بیٹھنا اور پڑھنا پڑھانا کرنے کا حوصلہ کیا۔ بتایا گیا کہ یہ عمل صفر کی نوچندی جمعرات سے شروع ہوگا۔ اللہ کا کرنا کہ اس میں ابھی کئی دن باقی تھے۔ سوچا کہ ابھی چاندنی راتیں ہیں، کیوں نہ اس عمل کے لیے پہلے تھوڑی سی مشق کرکے وحشت دور کرلی جائے۔ یونیورسٹی سے بعد عشا غائب ہوجانا اور قبل فجر منہ اندھیرے واپس ہونا آسان نہ تھا لیکن ہمت کرے انساں تو کیا ہو نہیں سکتا، یہ بطورِ مشق شروع کیا۔
منتخب کردہ قبرستان یونیورسٹی سے کئی کلومیٹر دور اور شہر کے سب سے بڑے ہسپتال کے قریب تھا۔ ایک شام مغرب پڑھتے ہی بھیڑ کی کھال کا جائے نماز نما ٹکڑا بغل میں دابے قبرستان میں ایک کنارے میں جا بیٹھا۔ عشا وہیں پڑھی، اور دو ڈھائی گھنٹے بیٹھ کر واپس ہو لیا۔ اگلے روز پہلے گورکن سے ملا اور تعلق واسطہ نکالا، اور اسے بتایا کہ میں یہاں کچھ پڑھ پڑھا کے لیے بیٹھوں گا۔ اس نے بہت مشکل سے اجازت دی جس کے لیے اس کی مٹھی گرم کرنا پڑی۔ اس رات کچھ زیادہ وقت بیٹھا۔ تیسری رات مکمل وہیں رہا۔ چاندنی کم ہونا شروع ہوگئی تھی لیکن ابھی اتنی ضرور تھی کہ نظر آتا رہتا تھا۔ پانچویں رات بعد عشا ایک مردے کی تدفین ہوئی۔ میں دور سے دیکھا کیا۔ حصار کی وجہ سے قریب نہیں گیا۔
چھٹی رات چاند کی پچیسویں تھی۔ رات بہت بھیگ گئی تو دیکھا کہ چار لوگ بڑی راز داری سے چلتے چلاتے ایک قبر کے پاس جاکر اسے کھولنا شروع ہوئے۔ میری سٹی گم تھی لیکن حواس بجا تھے۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے بعد یہ لوگ واپس ہوئے تو میں نے دیکھا کہ گورکن ان کے ساتھ تھا۔ اگلی رات گھپ اندھیری تھی اور اس رات میں بھی یہی ہوا۔ نوچندی جمعرات ابھی ایک ہفتے کے فاصلے پر تھی لیکن میں تجسس کی وجہ سے اگلی رات پھر پہنچ گیا۔ آج بھی یہی منظر تھا۔ قصہ کوتاہ، میں ان لوگوں کی واپسی پر ایک بندے کے پیچھے پیچھے اس کے محلے تک پہنچا۔ یہ رات کوئی تین بجے کا عمل تھا۔ ایک چوکیدار ملا جس سے اس بندے کے بارے میں پوچھا۔ اس نے گھر بتایا اور بتایا کہ ہسپتال میں کام کرتے ہیں اور آدھی رات کے بعد آتے ہیں۔ میں اگلی دوپہر یونیورسٹی کے بعد محلے میں گیا اور گھر دیکھا۔ ہسپتال ملازم، جو ایک سرجن کے ساتھ شام کو کام کرتا تھا۔
اس رات میں نے پانچ دوستوں کو ساتھ لیا اور ہم قبرستان کے باہر ان لوگوں کی واپسی کے راستے میں بیٹھ گئے۔ پلان کے مطابق میں آگے بڑھا اور گورکن کو جسے میں چاچا بنا چکا تھا، نام لے کر بلایا اور پوچھا کہ اس وقت کہاں سے آ رہے ہو۔ باقی دوستوں کی ٹارچیں گھومنا شروع ہوئیں۔ اللہ کا شکر کہ نہ تو مار کٹائی ہوئی نہ شور شرابہ۔ بہرحال انھیں گھیر لیا۔ دوستوں نے جھوٹ موٹ ذرا اونچی آواز میں لوگوں کو بتایا کہ چاچا جی ٹھیک ہیں اور کوئی مسئلہ نہیں، لیکن اگر تم دیکھو کہ لڑآئی ہوگئی ہے تو آجانا ورنہ وہیں رہو۔ ان چاروں کو اندازہ ہوگیا کہ یہ کئی لڑکے ہیں اس لیے چاروں کے چاروں سنی مسلمان بن گئے۔ باتیں شروع ہوئیں تو معلوم ہوا کہ یہ لوگ تازہ لاش کے گردے اور بعض اوقات کچھ اور اعضا نکالتے ہیں۔ خیر ہم نے انھیں چھوڑ دیا اور واپس ہوگئے۔
نوچندی سے شروع ہونے والے عمل پر میں لعنت بھیج چکا تھا۔ اگلے جمعے کی صبح (ان دنوں سرکاری چھٹی جمعہ کے دن ہوتی تھی) ہم چھیوں دوست ہسپتال ملازم ہے ہاں پہنچ گئے۔ پھل فروٹ بھی لیتے گئے تاکہ گھر میں بیٹھا آسان رہے۔ اس بھیڑیے نے ہمیں یہ ساری واردات بتائی۔
"ڈاکٹر ۔۔۔ صاحب بڑے مشہور سرجن ہیں۔ گردوں کے سپیشلسٹ ہیں۔ گردے تبدیل کر دیتے ہیں۔ اندھیری راتوں میں ہم لوگ لاشوں سے گردے نکالتے ہیں۔” ہم منہ کھولے سن رہے ہیں۔
"مجھے یا ہمیں برا مت کہیں۔ ہمیں تو ڈاکٹروں کی پوری کرنی پڑتی ہے۔ نئے نئے ڈاکٹروں کو پرانی قبروں سے ہڈیاں نکال کر دیتے ہیں۔ سرجن صاحب کو گردے دیتے ہیں۔۔۔۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ ہسپتال کے مردہ خانے میں کیا ہوتا ہے؟ ایکسیڈنٹ والوں اور لاوارث لاشوں میں تو کچھ بھی نہیں چھوڑتے۔ آنکھیں بھی نکال لیتے ہیں۔۔۔۔ انسان ایک خزانہ ہے۔۔۔۔ جن لوگوں کو یہ معلوم ہے وہ اپنے پیاروں کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم نہیں کرنے دیتے۔ انسان کا جسم بڑا خزانہ ہے جی۔۔۔۔”
یہ ایک بڑا تجربہ تھا جو میں نے اور میرے دوستوں نے حاصل کیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، ہم سرجن خصوصًا پرائیویٹ پریکٹس کرنے والے سرجن کو جس نگاہ سے دیکھتے ہیں، وہ کچھ ہم ہی جانتے ہیں۔ اس وقت ہم ایک شہر میں پڑھائی کے لیے اکٹھے تھے، آج ہم عملی زندگی میں مختلف شہروں میں ہیں، لیکن جب بھی بات ہوتی یا کہیں ملاقات ہوتی ہے، اس موضوع سے متعلق اپنی اپنی یعنی اپنے اپنے شہروں کی معلومات کا تبادلہ کر لیتے ہیں۔ میرے ابو جان فوت ہوئے تو سخت سردیاں تھیں اور راتیں لمبی، لیکن میں بہاول پور میں پہلی دو راتیں قبرستان کے گرد منڈلاتا رہا۔ وہاں پتہ لگا کہ یہ مکروہ کام زیادہ تر اس قبرستان میں ہوتا ہے جو بڑے سرکاری ہسپتال کے قریب ہو۔
پتہ نہیں لوگ قیامت والے دن کیسے اٹھیں گے۔ کس کا جسم پورا ہوگا، اور کس کی آنکھیں، گردے، ہڈیاں، کسی اور میں لگی ہوں گی۔ اللہ دیاں اللہ ہی جانے۔
انسان ایک خزانہ ہے، اور انسان ہی ایک بھیڑیا بھی ہے۔
رکیں گے تجھ سے ملنے تک یہیں ہم
سمجھتے ہیں کہ دنیا ہے سرائے