سر رہ گزر دو نمبر فراوانی گیس اور بجلی کی

وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری:اضافی بجلی موجود، ملک میں لوڈ شیڈنگ زیرو ہے ملک میں لوڈ شیڈنگ جاری کئی شہروں میں دورانیہ 5گھنٹے تک پہنچ گیا۔ یوں لگتا ہے وزراء کسی اونچے چبوترے پر بیٹھے آس پاس روشنیاں دیکھ کر اندازہ لگا لیتے ہیں کہ ملک بجلی بجلی ہو گیا ہے، اب بے دھڑک کہہ دینا چاہئے لوڈ شیڈنگ زیرو ہےیا اپنی زیرو کارکردگی کو زیرو لوڈ شیڈنگ سمجھتے ہیں، بہرحال وزیر توانائی نے کہا لوڈ شیڈنگ زیرو ہے زمینی رپورٹوں کے مطابق 5گھنٹے ہے مگر حیرانی ہے کہ بجلی اگر وافر ہے تو لوڈ شیڈنگ زیرو کے بجائے 5گھنٹے ہنوز کیوں ہو رہی ہے؟ گیس کی فراوانی جس کی نوید وزیراعظم عباسی نے دی اس کا یہ عالم کہ مزید کنکشن تو کجا جن کے پاس کنکشن ہے گیس بھی ہے پریشر زیرو ہے، حالانکہ ایل این جی کے معاہدے کے بعد تو وطن عزیز گیسو گیس ہو جانا چاہئے تھا، الزام یہ تھا کہ صارفین کمپریسر لگا کر دوسرے صارفین کا پریشر کم کرتے ہیں، اب اہلکار خود گیس کا پریشر کم کرتے ہیں گویا الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا۔ وزیر توانائی میں تو اچھی خاصی توانائی ہے وہ بجلی گیس کے پیٹ میں بھی توانائی بھر دیں تاکہ صارفین مشکلات کی دلدل سے نکلیں ان دنوں گیس کی جتنی ضرورت ہے اتنی ہی اس کی کمی ہے آخر کیا وجہ ہے کہ سارے ٹیکس اور منہ مانگی قیمت دے کر بھی ان کا بھلا نہیں ہوتا، اویس لغاری وزیر بھی ہیں سردار بھی اور سابق صدر کے فرزند بھی وہ تو کچھ صارفین پر رحم کریں اور اپنے عملے کے کہے کا اعتبار نہ کریں جو انہیں سب اچھا کی تصویر دکھاتے ہیں لوگ بہت تنگ ہیں کہ گیس ہے پریشر نہیں، آخر کب تک محض خالی خولی خوشخبریوں کے زور پر یہ اذیتوں کا سفر جاری رہے گا، وزیر توانائی نوٹس لیں، مگر وہ نوٹس نہیں کہ نوٹس ملیا تے کھکھ نہ ہلیا۔
٭٭٭٭
ڈانس پرفارمنس
عمران خان:جلسے کا تو پتا نہیں، زرداری کی ڈانس پرفارمنس اچھی تھی، پیپلز پارٹی:دھمال ہماری میراث ہے اس پر عمران اور طالبان کا نظریہ ایک سیاست دانوں کی ڈانس کارکردگی کے لئے انہیں ریمپ پر لایا جائے، تاکہ قوم کو معلوم ہو کہ سیاسی کارکردگی نہیں تو کیا رقص کا ہنر تو سیاستدان جانتے ہیں، رقص کے شوقین سیاستدان دو قسم کے ہیں ایک وہ جو دیکھنے کا ذوق رکھتے ہیں دوسرے وہ خود رقاص ہیں، ناچنا بھی کئی طرح کا ہے، ناچنا، نچانا اور ناچ دیکھنا، زرداری نے اسلام آباد جلسے میں اپنے رقص سے کارکنوں کو خوش کیا بلکہ پورے ملک کو دکھایا ان کے رقص میں اتنا زور تھا کہ پریڈ گرائونڈ پر رقص کا زلزلہ آ گیا۔ عالم ان کے بے محابا رقص کا یہ تھا کہ؎
میں اتنا زور سے ناچی آج
کہ گھنگرو ٹوٹ گئے
جلسہ گاہ میں رادھائیں بھی بہت تھیں، اور باقاعدہ رقص کے بھائو دیکھنے کو ملے، ڈی جے بٹ خلاف معمول پی پی کے جلسے میں بھی موجود تھے انہوں نے جیالے جیالیوں کو خوب نچایا، سیاست میں اکثر نچانا ہوتا ہے مگر اب تو یہ ایک اچھی بات ہے کہ ناچنا بھی شامل ہو گیا، دھمال بھی رقص کی ایک قسم ہے اور پی پی کا دعویٰ ہے کہ یہ اس کی میراث ہے عمران اور طالبان کا نظریہ ایک کیسے ہو سکتا ہے جبکہ عمران نے زرداری ڈانس کو سراہا جلسے سے لا علمی ظاہر کی، پی پی کے نعرے روٹی کپڑا مکان فراہم کرنے کا مطلب ہے ؎
مینوں نچ کے عوام مناون دے!
پی پی کے تن مردہ میں زرداری نے اپنا رقص پھونک دیا اپنی دولت نہیں پھونکی البتہ جیالے آج بھی بھٹو کے عشق میں اپنا گھر پھونک رہے ہیں، خان صاحب رقص دیکھنے کے شوقین ضرور ہیں، ان کے پاس بھی ہرے لال کھلاڑی موجود ہیں بلکہ وہ تو اب رقصاں جلسوں کے موجد کہلاتے ہیں، زرداری بظاہر خان کے مخالف مگر اندر سے ان کے سیاسی پیروکار بھی ہیں، کیونکہ انہوں نے بھی پی پی جلسوں کا میک اپ شروع کر دیا ہے۔
٭٭٭٭
تیرے مکھڑے دا کالا کالا تل وے
جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ جسم کے مختلف حصوں پر تل کا ہونا مختلف شخصیتوں کے بارے میں کچھ کہتے ہیں، اس کی تفصیل بڑی طویل ہے تاہم ہم صرف چہرے کے تل تک محدود رہتے ہیں، کیونکہ چہرے کے تل سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں، اب شاید یہ رسم ہے کہ نہیں لیکن پہلے جب کوئی بہت خوبصورت مکان بناتا تو اس کے ماتھے پر یا کونے پر سیاہ ہانڈی لٹکا دیتا تاکہ نظر نہ لگے، حافظ شیرازی نے تل کے مقابل ماضی کے دو عظیم و حسین شہروں کو بھی ہیچ جانا وہ فرماتے ہیں؎
اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دل مارا
نجال ہندو وش بخشم سمرقند و بخارا را
(اگر شیرازی محبوب میرے قابو میں آ جائے تو اس کے چہرے کے کالے تل پر سمرقند و بخارا قرباں کر دوں شیراز حسین محبوب کا توڑ ہمارے پاس پنجابی سیالکوٹی محبوب کی صورت میں موجود ہے ملاحظہ کریں؎
تیرے مکھڑے دا کالا کالا تل وے
ساڈا کڈ کے لے گیا دل وے
وے منڈیا سیالکوٹیا!
مشرقی حسن پر تل کی پہرہ داری وہ دلداری ہے کہ جس کے بیان سے قلم عاری ہے، تل دراصل کنٹراسٹ ہے جو حسن کو چار چاند لگا دیتا ہے، تحقیقات تل میں تو بہت کچھ جسم کے مختلف حصوں پر موجود تل بارے بتایا گیا ہے لیکن ہمارا مشرقی انداز بیاں اس کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم تمام تلوں کا تیل نکال سکیں، اس لئے حسینوں کے چہرے کا تل ہماری رومانوی تحقیق کے مطابق جو کہتا ہے وہ ایک جملے میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ جس حسن والے کے چہرے پر تل ہوتا ہے وہ دشمن دل ہوتا ہے، اور یہ دشمنی اتنی دلچسپ و دلکش ہوتی ہے کہ چاہو تو چہرے کو تل میں دیکھ لو یا تل کو چہرے میں، کالے تل والی دلہن نصیبوں والی یہ کہاوت بھی ہماری ہے، البتہ ایک طبی نکتہ یہ بھی ہے کہ اگر جسم پر جگہ جگہ تل ہی تل ہیں تو پھر ضرور جلدی امراض کے طبیب سے رجوع کر لینا چاہئے، تل جو حسن کی دنیا سے تعلق رکھتا ہے چہرے پر ہی قیام کرتا ہے۔
٭٭٭٭
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے!
….Oمریم نواز:ہر کوئی نواز شریف نہیں ہوتا،
جدید تحقیق کے مطابق سر کا بال بھی دوسرے بال جیسا نہیں ہوتا، یہ تو پھر بھی سابق وزیراعظم نواز شریف ہیں۔
….Oمشرف:ٹرمپ پالیسیاں دنیا کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہیں،
مگر صرف اسلامی دنیا کو۔
….Oسپریم کورٹ:کچھ لوگ دیکھ چکے دبائو ڈال کر عدالت سے فیصلہ نہیں لیا جا سکتا۔
یہی کچھ لوگ ہی تو ہیں اس لئے ان کو منفی کرنا چنداں مشکل نہیں۔
….Oکائرہ:طالبان خان دھمال اور رقص میں فرق نہیں سمجھتے۔
شاید آپ کو معلوم نہیں کہ دھمال، رقص ہی کی ایک قسم ہے۔
….Oزرداری طاہر القادری ملاقات،
قادری صاحب محتاط رہیں،
….Oخورشید شاہ:امریکہ انتشار چاہتا ہے۔
بڑی دیر سے سمجھے، مگر یہ انتشار صرف مسلم امہ تک محدود رہے گا۔
….Oعمران خان نے بار بار عدالت طلبی پر بابر اعوان کو جھاڑ پلا دی۔
بابر اعوان کچھ اپنا ٹھکانہ کر لیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے