پبلک ٹرانسپورٹ میں عوام کی خواری پراداروں کی خاموشی۔۔!

جمعرات کے روز اسلام آباد سےپہلی دفعہ جی ٹی روڑکے ذریعے گوجرانوالا جانے کا اتفاق ہوا۔اکیلا جانا تھا اور سفر بھی جی ٹی روڑ کا تھا سوچا اپنےگھر سے میٹروبس پر فیض آباد اور پھرپبلک ٹرانسپورٹ بس/منی بس پر گوجرانوالا کا سفر بہتر رہے گا۔دفتر کے ایک دو احباب نے بھی کہا یہی بہتر ہے۔شادی کی تقریب کا وقت 7:30بجے تھا اور سنا تھا کہ ساڑھے تین گھنٹے میں گاڑی آرام سے گوجرانوالا پہنچ جاتی ہے۔گھر سے آرام سے3:00 بجے نکلا پہلے تو فیض آباد میٹرو اسٹیشن کی تاحال مرمت نہ ہونے کی وجہ سے سٹاپ بند ہے میٹرو نے اگلے اسٹیشن پر اتارا وہاں سے رکشہ پرفیض آباد پہنچا۔تو ایک منی ہائی ایس گوجرانوالا کی زبان میں المعروف”بکسا”میں بیٹھ گیا پہلے تو اس نے 25 منٹ اڈے پر لگائے تقریبا 3:35پر وہ اڈے سے نکلی اور رش ڈرائیونگ کرتے ہوئے ساڑھے پانچ بجے دبئی ہوٹل کھاریاں جاکر چائے کے وقفےکیلئے رکی مگر جب ڈرائیور واپس سیٹ پرآیا تو نئی آٹومیٹک گاڑی سٹارٹ نہ ہوسکی اور پھر ”چراغوں” میں روشنی نہ رہی۔اب ڈرائیور صاحب ہم سب سواریوں کو بھول کر پہلے تو گھنٹہ فونوں پر لگے رہے پھر غائب آٹھ بج گئے کوئی متبادل گاڑی نہ پلان پتہ نہیں کیا کریں۔عورتین بچے سب پریشان مجھے کیونکہ ساڑھے سات پہنچنا تھا تو میں نے ڈرائیور کو ڈھونڈا اور کہا اللہ کے بندے ہمارا نہ سہی عورتوں بچوں کا ہی خیال کر وہ بھی ٹیپیکل گوجرانولا کا بندہ تھا کہتا”بادشاو اسی وی تہاڈے نال ای ذلیل ہورے آں” میں نے موٹروے پولیس کے میڈیا کووارڈینیٹر محمود کھوکھر صاحب کو کال کی اور صورتحال سے آگاہ کیا انکا رسپانس اچھا تھا انہوں نے میرے لیے گاڑی بھجوائی خیراس کےآنےسےپہلے ہی ڈرائیور نے ایک لوکل وین میں خواتین ،بچوں اورہم چند مرد حضرات کو بیٹھا دیا۔اصولا جس گاڑی میں آپ بیٹھتے ہیں اگر وہ خراب ہو جائے تو متبادل پلان اس کی ذمہ داری ہے۔تمہید باندھنے کا مقصد اس ذ لت سے آپکو آگاہ کرنا ہے جو مسافراکثرعملی طور پر کاٹتےہیں۔ میں تو اچھی نئی صاف ستھری گاڑی پر بیٹھا تھا۔مگر عمومی طور پر جو گاڑیاں چلتی ہیں ان کو صورتحال تو اللہ معاف کرے۔
یورپ ،روس،ملائیشیا سمیت اکثر ملکوں میں لانگ روٹ کیلئےپرمٹ ان اشخاص کو دیا جاتا ہے جو تین سے زیادہ گاڑیا ں رکھتے ہوں۔ تینوں گاڑیوں کو پہلے فٹنس سرٹیفیکیٹ کے حصول کی پابندی کرنی ہوتی ہے اور پھر دو چلتی ہیں جبکہ ایک سٹینڈ بائی رہتی ہے،مگرہمارے پیارے پاکستان میں کوئی ضابطہ نہیں ہے۔
شہر کے اندر یا دوسرے شہروں جانے کیلئے ہمارے ملک میں شہریوں کی غالب اکثریت پبلک ٹرانسپورٹ ہی استعمال کرتی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے جس ذریعے کو سب سے زیادہ اختیار کیا جاتا ہے وہ بس اور منی بسیں ہیں۔ ٹرانسپورٹرز زیادہ منافع کی لالچ میں ایک روٹ پر مناسب تعداد میں گاڑیاں نہیں چلاتے تاکہ کم گاڑیوں میں زیادہ مسافر ٹھونس کر زیادہ منافع کمایا جا سکے۔ ان بسوں میں سفر کے دوران مسافروں کو بہت زیادہ ذہنی و جسمانی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ فٹنس کو چیک کرنے کا باقاعدہ نظام موجود ہے لیکن رشوت لے کر بغیر چیکنگ کے گاڑیوں کو فٹنس سرٹیفکیٹ دے دیئے جاتے ہیں۔گاڑیو ں کے سچے حالات پر ویسے تو پنجابی کے یہ شعر تقریبا تمام علاقوں میں اس علاقے کے نام سے بولے جاتے ہیں مگر نمونے کیلئے جس روٹ پر سفر کیا اسی کا شعر عرض ہے۔
لالاموسیٰ کھاریاں دیاں ۔۔لاریاں
بوہےنہ باریاں کتھےجان سواریاں
پچھلے چند سالوں میں ہمارے ہاں میٹرو،کریم ،اوبر سمیت اس حولے سےجو بہتریاں ہوئیں ہیں وہ قابل تعریف ہیں تاہم اس ملک کے عوام کی غالب اکثریت آج بھی منی بسوں، ٹوٹے ہوئے رکشوں اورانیس سو ڈیڑھ کی ٹیکسیوںپر سفر کرنے اور ان پڑھ ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کا توہین آمیز رویہ برداشت کرنے پر آج بھی مجبور ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں میں بنیادی انسانی حقوق کے عالمی اصولوں کےتحت ٹرانسپورٹ کی مناسب سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ریاست کی زمہ داری ہے۔میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ان ملکوں کی اس معیاری ٹرانسپورٹ میں معذورں ،بزرگوں کیلئے سفری سہولیات مفت جبکہ طلبہ و طالبات کیلئے کرایہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ماضی بعید میں یہ اصول کسی حد تک ہمارے ہاں بھی سرکاری طور پرچلنے والی  ٹرانسپورٹ میں لاگو رہا ہے۔تاہم اب یہ سہولیات لانگ روٹ کے علاوہ مقامی میٹرو اور پنجاب سپیڈو بس سروس تک میں بھی میسر نہیں ہے۔ایک شہر سے دوسرے تک نا سہی تاہم شہروں کے اندرفلاحی اقدام کےطورپرحکومت معذروں،بزرگوں کو فری سفری سہولیات اور طلبہ و طالبات کیلئے10روپے کا ٹکٹ جاری کرنے کا اقدام کرے۔اورایک عام مسافر کی فلاح کو یقینی بنانے کے حوالے سےشہروں کے درمیان چلنے والی ٹرانسپورٹ کیلئے مسافروں کی انشورنس اور گاڑیوں کے معیار کو یقینی بنانے کیلئے ضابطہ کار مرتب کرکے ٹرانسپورٹرز کو اس کا پابند بنایا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے