آئس نشے کے کاروبار سے منسلک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان گرفتار

کراچی میں پولیس نے آئس نشے کے کاروبار سے منسلک ایک ملزم گرفتار کرلیا جو امریکا سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اچھے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔

ایس ایس پی ساؤتھ سرفراز نواز کے مطابق گرفتار ملزم کا نام عدیل عرف وکی ہے جس نے امریکا سے ماسٹرز کیا ہوا ہے، ملزم سے آئس کا نشہ اور اسے استعمال کرنے کے لیے درکار آلات برآمد کرلیے گئے۔

سرفراز نواز نے مزید بتایا کہ گرفتارملزم کا پورا خاندان امریکا میں ہے اور وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، ملزم پورا نیٹ ورک سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک کے ذریعے آپریٹ کر رہا تھا۔

ایس ایس پی سرفراز نواز نے بتایا کہ ملزم پاکستان میں کاروبار کرتا تھا اور کچھ عرصہ پہلے قتل کے مقدمے میں جیل گیا تھا، جیل میں عدیل کو منشیات کی عادت پڑی اور پھراس نے نشہ آور اشیاء کی فروخت بھی شروع کردی۔

ایس ایس پی ساؤتھ کے مطابق ملزم سے آئس خریدنے والوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے اور اس کے خریداروں میں 50 فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔

انکشاف ہوا ہے جہاں پارٹیز میں مفت نشہ دیکر پہلے لت لگائی جاتی ہے، بعد میں جو شخص نشہ خرید نہ سکے اسے سپلائر بنادیا جاتاہے، آئس نشے کی تعلیمی اداروں اور دفاتر میں سپلائی جاری ہے اور تفتیشی حکام نے 50 سے 60 ڈیلرز کی نشاندہی کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

آئس نامی مہنگا نشہ کراچی کی نوجوان نسل کےلیے سب سے بڑا خطرہ بن گیا ہے،تعلیمی ادارے، کارپوریٹ سیکٹرز، بینکنگ سیکٹر اس نشے کے سب سے بڑے شکار ہیں۔

تفتیشی حکام کے مطابق اس نشے کے عادی زیادہ تر افراد کا تعلق پڑھے لکھے طبقے سے ہے، نوجوانوں کو منصوبہ بندی کے تحت اس نشے کی لت لگائی جاتی ہے۔

پوش علاقوں میں مختلف فلیٹس اڈے کے طوراستعمال ہورہے ہیں جنہیں آئس کے ڈیلرز نے خصوصی طور پراسی مقصد کیلئے لے رکھا ہے۔

ملزمان نے ان فلیٹس میں سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب کر رکھے ہیں، فلیٹس میں پارٹیز منعقد کی جاتی ہیں جہاں ابتداء میں مفت نشہ کرایا جاتا ہے،اس نشے سے سب سے زیادہ 15 سے 25 سال کے لڑکے لڑکیاں متاثر ہورہے ہیں۔

ان میں 50 فیصد نوجوان لڑکیاں ہیں، اس نشے کی پہنچ تعلیمی اداروں تک بھی ہے جس کے تدارک پر کام جاری ہے، تفتیشی حکام کے مطابق تین سے چار بار آئس لینے سے اس نشے کی لت پڑ جاتی ہے، لت پڑنے کے بعد جو آئس خرید نہیں پاتا اسے سپلائر بنادیا جاتا ہے۔

سپلائر بننے والوں میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شامل ہوتی ہیں۔ تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ اس نشے کے حصول کے لیے نوجوان لڑکیاں جسم فروشی تک پر آمادہ ہوجاتی ہیں۔

پوش علاقوں میں اب تک آئس کے 50 سے 60 ڈیلرز کی نشاندہی ہوچکی ہے اور حکام کا دعویٰ ہے کہ شہر کے بیشتر ڈی جیز اور پارٹی گرلز بھی آئس کی سپلائی میں ملوث ہیں جبکہ شہر میں آئس زیادہ تر پشاور اور کوئٹہ کے راستے لائی جاتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے