’ریپ کے الزام میں گرفتار مذہبی اسکالر کی خاتون کو خاموش رہنے کیلئے رقم کی ادائیگی‘

بیلجیئم کی عدالت نے کہا ہے کہ فرانس میں ریپ کے الزام میں گرفتار معروف مذہبی اسکالر طارق رمضان نے متاثرہ خاتون کو خاموش رہنے کے لیے رقم کی ادا کی۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اس بارے میں برسلز میں پہلی مثالی عدالت کے صدر لوک ہینرت نے اس بات کی تصدیق کی کہ طارق رمضان نے اپنے اور بیلجیئم نژاد مراکشی خاتون کے درمیان 2015 میں رہنے والے تعلقات کی تفصیلات آن لائن پوسٹ نہ کرنے کے لیے خاتون کو 27 ہزار یورو ادا کیے۔

لوک ہینرت نے بتایا کہ خاتون کی جانب سے ان کے اوپر نفسیاتی گرفت کے حوالے سے کی گئی پوسٹ کے بعد مئی 2015 میں پروفیسر اور خاتون ماجدہ برنوسی کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔

تاہم خاتون کی جانب سے پروفیسر طارق رمضان پر ریپ یا جنسی تشدد کا کوئی الزام نہیں لگایا گیا تھا اور اس معاہدے کے تحت یہ طے پایا تھا کہ خاتون اپنی آن لائن پوسٹ ڈیلیٹ کرے گی اور کوئی نئی پوسٹ نہیں کرے گی اور اس کے لیے پروفیسر کی جانب سے اسے کچھ رقم کی ادائیگی کی گئی تھی۔

اس بارے میں فرانس کی ایک نیوز ویب سائٹ میڈیا پارٹ کا کہنا تھا کہ ماجدہ برنوسی اس بات پر بھی رضا مند ہوئی تھیں کہ وہ پروفیسر اور ان کے اہل خانہ کو دھمکی آمیز پیغامات نہیں بھیجیں گی۔

ان الزامات کے بعد فرانس کی پولیس نے طارق رمضان کو حراست میں لے لیا تھا جبکہ اس وقت ایک خاتون کی جانب سے بھی پروفیسر پر ریپ کا الزام لگایا تھا، تاہم طارق رمضان نے تمام الزامات کو مسترد کیا تھا۔

اس کے علاوہ یورپ کی ایک مشہور اسلامی شخصیت نے طارق رمضان پر لگنے والے تمام الزامات کو بھی مسترد کیا تھا اور اسے ان کے مخالفین کی مہم قرار دیا تھا۔

[pullquote]پیرس: زیر حراست مذہبی اسکالر کے ریمانڈ کی اجازت[/pullquote]

پیرس: فرانس میں ریپ کے الزام میں زیر حراست آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اور اسلامک اسکالر طارق رمضان سے تحقیقات کے لیے ریمانڈ کی اجازت دے دی گئی۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق عدالتی ذرائع کا کہنا تھا کہ فرانس کے ہوٹل رومز میں دو خواتین کے ساتھ مبینہ طور پر ریپ پر اسلامک اسکالر کا ریمانڈ دے دیا گیا۔

خیال رہے کہ طارق رمضان کو 31 جنوری کو حراست میں لیا گیا تھا جبکہ گزشتہ روز ان پر کمزور لوگوں کے ساتھ ریپ کا الزام عائد کیا گیا تھا، تاہم انہوں نے ان الزامات کو مسترد کیا۔

عدالتی ذرائع کا کہنا تھا کہ تحقیقی افسران کی جانب سے آکسفورڈ یونیورسٹی کے 55 سالہ پروفیسر سے دو دن پوچھ گچھ کی گئی اور انہیں تین مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا، جہاں انہیں تجویز دی گئی کہ انہیں اس حوالے سے وسیع تحقیقات کرنی ہیں، جس پر عدالت نے ضمانت کی سماعت زیر التوا کرتے ہوئے ملزم کے ریمانڈ کی اجازت دے دی۔

اس حوالے سے پہلی متاثرہ خاتون ہینڈا ایاری کے وکیل جونس حداد کا کہنا تھا کہ اگر فرانس کے علاوہ کوئی اور متاثرہ خاتون ہے تو اسے یہ جان لینا چاہیے کہ عدالتی نظام اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر جواب دے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسی خواتین جنہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے حوالے سے تین ماہ کی ابتدائی تحقیقات کے دوران نامکمل طور پر گواہی دی وہ بھی ریپ کی شکایات درج کراسکتی ہیں۔

واضح رہے کہ امریکا میں ہاروے وینسٹن کے اسکینڈل کے بعد معروف مذہبی اسکالر کے خلاف دعووں نے متعدد مسلمانوں کو تقسیم کردیا ہے جبکہ کثیر تعداد میں مداحوں کے ساتھ ساتھ ان کے وکلاء کہتے ہیں کہ طارق رمضان کو سمیئر مہم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

تاہم ناقدین نے کہنا ہے کہ طارق رمضان کے ٹی وی پر دیکھائے جانے والے چہرے کے مقابلے میں وہ مسلمانون کو عربی میں بنیاد پرستی کی تعلیم دیتے ہیں۔

[pullquote]پیرس: ریپ کے الزام میں اسلامک اسکالر زیر حراست[/pullquote]

پیرس: فرانسیسی پولیس نے ممتاز اسلامک اسکالر طارق رمضان کو دو خواتین کے ریپ کے الزام میں تفتیش کے لیے حراست میں لے لیا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ ریپ اور تشدد کے الزامات پر آکسفورڈ پروفیسر کو پیرس پولیس کی جانب سے طلب کیا گیا تھا، جہاں انہیں ابتدائی تفتیش کے لیے حراست میں لے لیا گیا۔

طارق رمضان پر الزام لگانے والی مسلمان خواتین کا کہنا تھا کہ ہولی وڈ موگل وینسٹین کے معاملے کے سامنے آنے بعد ان میں یہ حوصلہ پیدا ہوا کہ وہ اپنی خاموشی طور کر سامنے آسکیں۔

دونوں خواتین نے کہا کہ انہوں نے قدامت پسند اسکالر کی رہنمائی حاصل کرنے کے لیے طارق اسلام سے رابطہ کیا تھا۔

اس حوالے سے فرانسیسی اخبار لی پیریس کو متاثرہ خاتون اور حقوق نسواں کی سرگرم کارکن ہیدا ایاری نے بتایا کہ 2012 میں انہوں نے اپنے نقاب نہ پہننے کے فیصلے کے حوالے سے طارق اسلام سے رابطہ کیا تھا، جس پر اسلامک اسکالر نے انہیں پیرس میں ملنے کا مشورہ دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جب وہ ان سے ملنے ہوٹل کے کمرے میں گئیں تو ’طارق رمضان نے انہیں ریپ کا نشانہ بنایا اور مجھے اتنا سخت دبوچا تھا کہ مجھے لگا کہ میں مرنے والی ہوں‘۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک نامعلوم معذور خاتون نے بھی الزام لگایا کہ 2009 میں لیون کے جنوب مشرقی شہر کے ہوٹل میں پروفیسر کی جانب سے انہیں ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

ہیدا ایاری کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس انہوں نے اپنی کتاب میں طارق رمضان کا نام لیے بغیر ریپ کے الزام کے بارے میں تفصیل سے بتایا تھا لیکن اکتوبر میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف ہزاروں خواتین کی جانب سے ’می ٹو‘ اور بیلنس ٹون پور‘ مہم نے انہیں حوصلہ دیا، جس کے بعد انہوں نے عوامی سطح پر طارق رمضان کے بارے میں بتایا اور اکتوبر 2017 کو طارق رمضان کے خلاف ریپ کی شکایت بھی درج کرائی۔

پروفیسر طارق رمضان پر الزام لگانے والی دوسری نو مسلم خاتون نے اخبار کو بتایا تھا کہ طارق رمضان سے ایک سال قبل رابطے کے بعد لیون میں ایک کانفرنس میں ملاقات ہوئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ ملاقات دوران طارق رمضان نے میری ’بے ساکی کو لات ماردی اور مجھے دبوچتے ہوئے کہا کہ تمہیں مجھے اتنا انتطار کرانے کی سزا بھگتنا ہوگی‘۔

خیال رہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی نے نومبر میں اعلان کیا تھا کہ باہمی معاہدے کے تحت طارق رمضان رخصت پر جارہے ہیں۔

اس کے علاوہ امریکا نے بھی 11 ستمبر 2001 ایک کے بعد کئی سال تک ان کے امریکا آنے پر پابندی لگائی ہوئی تھی اور انہیں وہاں کوئی تعلیمی عہدہ لینے سے بھی روک رکھا تھا۔

دوسری جانب حالات حاضرہ پر پروگرام کرنے والے ٹی وی پینلسٹ کے مباحثے میں کہا گیا کہ طارق رمضان پر اسلام کی سیاسی شکل کو فروغ دینے پر سیکولر ناقدین کی جانب سے الزام لگایا گیا۔

تاہم طارق رمضان کی جانب سے دونوں خواتین کے الزامات کے ساتھ ساتھ 1980 اور1990 کی دہائی میں نوجوان لڑکیوں کے جنسی استحصال کے حوالے سے سوئس میڈیا کے تمام الزامات کی بھی تردید کی گئی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے