دنیا کی کم سن ترین صحافی جنیٰ جہاد

اُس دن حسب معمول نماز جمعہ کے لیے مسجد اقصیٰ کے دروازے پر اسرائیلی فوجیوں کی رکاوٹیں اور پابندیاں دیکھیں، تو ایک ننھی سی بچی چیخ اٹھی۔۔۔ ’یہ ہماری زمین ہے، تم کون ہوتے ہو ہمیں آنے جانے سے روکنے والے۔۔۔ ایک دن آئے گا، جب فلسطین آزاد ہوگا۔۔۔!‘

صہیونیوں نے بھی شاید اس سے پہلے کسی معصوم بچی کی ایسی جرأت اور بہادری نہ دیکھی ہوگی، تلملائے فوجی نے اس چھوٹی سی بچی پر پستول تان لی اور چلانے لگا، ’’چپ کرو، ورنہ میں تمہاری ماں کو گرفتار کر لوں گا!‘‘

بہادر فلسطینی بچی کچھ دیر کو خوف زدہ ہوکر پیچھے ہٹ گئی، پھر اس نے فیصلہ کر لیا کہ اب وہ بھی جدوجہد کرے گی، اور اس مزاحمت کے لیے اس نے صحافت کا راستہ چُنا۔۔۔ یوں سات برس کی اُس عمر میں جب بچیاں گڑیوں سے کھیلا کرتی ہیں، وہ اپنی ماں کا آئی فون اٹھا کر اسرائیلی دہشت گردی کو بے نقاب کرنے میں جُت گئی۔۔۔ کیوں کہ صہیونی افواج نے اس کے انکل اور کزن کو شہید کیا، لیکن اس کی خبریں ہی نہ آ سکیں، اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ خود فلسطینی حالات کو دنیا تک پہنچائے گی، تاکہ پتا چلے کہ مقبوضہ فلسطین میں عام شہریوں کے ساتھ ننھے بچوں پر کیا بیت رہی ہے۔

یہ 2013ء کا واقعہ ہے، اور یہ سات سالہ بچی جنیٰ تمیمی تھی، جو آج جنیٰ جہاد کے نام سے معروف ہے۔ اس واقعے سے کچھ ہی دن پہلے عرب کے بنوتمیم قبائل کی ایک 11 سالہ بچی عہد تمیمی غاصب اسرائیلی فوجیوں کے مقابل مُکّا تانے جدوجہد کا استعارہ بن گئی تھی۔ پھر 2015ء میں اسی عہد تمیمی کا پیمانہ صبر لبریز ہوا، تو اس نے صہیونی فوجی کے ایک ایسا چانٹا رسید کر دیا، جس کی گونج آج تک سنائی دے رہی ہے۔ اب اسی کی سات سالہ کزن جنیٰ جہاد بھی کیمرا اٹھائے عالمی ضمیر جھنجوڑنے کی کوشش میں مصروف ہوگئی ہے۔ پہلے اس نے اپنے گھر کے قریب ہونے والے فلسطینیوں کے احتجاج اور اسرائیلی مظالم کی ویڈیو بنا کر اسے سماجی روابط کی ویب سائٹس فیس بک، انسٹاگرام، اسنیپ چیٹ اور یوٹیوب پر مشتہر کرنا شروع کیا، وہ ان ویڈیوز میں بہ یک وقت عربی اور انگریزی میں خبریں دیتی۔ اکثر تازہ صورت حال سے آگاہی دینے کے لیے وہ فیس بک پر براہ راست اپنی ویڈیوز نشر کرتی ہے۔ فیس بک پر اب ان کے پونے تین لاکھ سے زائد فالوورز ہیں۔ جنیٰ جہاد کے بقول وہ کوشش کرتی ہے کہ فیس بک پر سب کو جواب دیں، لیکن جب وہ اسکول میں ہوتی ہیِ، تو اس کی امی اس کے فیس بک کے صفحے کو دیکھتی ہیں۔

اسرائیلی فوجی کو تھپڑ مارنے کی پاداش میں اسیر عہد تمیمی کی گرفتاری کو جنیٰ جہاد اپنے لیے ذاتی طور پر دکھ اور تنہائی کا سبب بتاتی ہے، کیوں کہ وہ نہ صرف اس کی کزن ہے، بلکہ اُس کی بہت اچھی سہیلی بھی ہے، جس کے ساتھ وہ فٹ بال کھیلتی تھی۔ وہ کہتی ہے کہ ایک دن وہ اسے بلانے اس کے گھر چلی گئی، اسے دھیان ہی نہ رہا کہ وہ تو گرفتار ہو چکی ہے۔

ایک انٹرویو میں جب جنیٰ جہاد سے بچپن جی نہ سکنے کا سوال کیا گیا، تو اس نے کہا صرف میں نے نہیں، بلکہ مقبوضہ فلسطین کے ہر بچے نے اپنا بچپن گنوایا ہے، جب ہم کھیل رہے ہوتے ہیں، تو غاصب فوجی آتے ہیں اور ہم پر آنسو گیس برساتے ہیں، جس سے ہمارا دم گھٹنے لگتا ہے اور ہم روتے ہوئے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔۔۔ اب ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بعد آنے والے فلسطینی بچے اپنا بچپن ٹھیک طرح گزار سکیں۔ دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کو آگے آکر فلسطینی بچوں کے لیے عملاً کچھ کرنا ہوگا۔

جنیٰ جہاد فلسطینیوں کو ایک بڑے قید خانے میں مقید قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں، کہ آپ یقین نہیں کریں گے، لیکن ہماری قید ایک حقیقت ہے۔ میں نے بہت سے فلسطینی بچوں سے گفتگو کی ہے، اکثر بچوں کے دل میں دنیا گھومنے اور سمندر دیکھنے کی خواہش مچلتی ہے۔ انہوں نے سمندر صرف تصاویر میں دیکھا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ کبھی اسے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھیں اور اس میں تیریں، لیکن وہ کبھی فلسطین سے باہر نہیں نکلے۔ میں پہلی بار چار سال کی عمر میں امریکا گئی، اس لیے میں چاہتی ہوں کہ باقی ہم وطن بھی اپنی خواہش کے مطابق آزادی سے رہیں اور دنیا میں گھومیں۔

بے خوفی سے برستی گولیوں میں کھڑی ہونے والی جنیٰ جہاد سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا آپ کو کبھی خوف محسوس نہیں ہوتا، تو اس نے کہا کہ ہاں مجھے اپنے اور اپنوں کے گرفتار ہونے سے زخمی اور قتل ہو جانے تک کا خوف ہے۔۔۔ کیوں کہ میرے 13 سالہ ساتھی گرفتار اور قید کیے گئے ہیں، ہم مقبوضہ علاقے میں قطعی غیرمحفوظ ہیں، لیکن ہم نے اس خوف پر قابو پایا ہوا ہے۔ میرا ہتھیار میرا کیمرا ہے، جس سے میں ساری دنیا تک سچ پہنچا سکتی ہوں۔

جنیٰ جہاد کہتی ہے کہ اسرائیلی وزیر نے مجھے اپنے لیے ایک نیا خطرہ قرار دیا ہے، لیکن میں اپنا کام جاری رکھوں گی، وہ مجھے کبھی نہیں ڈرا سکتے، ایک حق پر رہنے والا کس طرح ظلم کرنے والے سے ڈر سکتا ہے۔ فیس بک پر بھی بہت سے اسرائیلی اسے قتل کی دھمکیاں دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک دن اسرائیل آزاد ہوگا اور ہم تمہارے چہرے پر گولی ماریں گے اور ہم تمہارا خون لے کر پارٹی کریں گے۔ میں دنیا کو پکارتی ہوں کہ وہ آئیں اور ہماری مدد کریں، اسرائیلی ہمارے ساتھ ہر ظلم کرتے ہیں، کیوں کہ ہم آنے والی نسل ہیں، جو فلسطین آزاد کرا سکتے ہیں۔
2017ء میں وہ فلسطینی بچوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر آگاہی کے لیے جنوبی افریقا گئی، جہاں اس نے فلسطینیوں کے مسائل پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ آپ بازار جا کر اسرائیلی مصنوعات خریدتے ہیں، اور وہ آپ لوگوں کے پیسے سے ہمارے اوپر ہتھیار برساتے ہیں، اس لیے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیں۔

جنیٰ جہاد نے کہا وہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتی، بلکہ ایک مکمل آزاد فلسطین اُس کی منزل ہے۔ فلسطین کے دو ریاستی تصفیے کے حوالے سے اس نے کہا فرض کریں کہ میں آپ کے گھر میں گھس جاؤں اور آپ کی ماں کو گرفتار کروں، والد کو قتل کردوں، بھائی کو پکڑ لوں، گھر کے بڑے حصے کے ساتھ آپ کی غذا اور پانی پر قابض ہوجاؤں، اور اسے ’جنیٰ کا گھر‘ قرار دے دوں، پھر آپ کے لیے چھوٹا سا حصہ چھوڑ کر کہوں کہ آپ میرے ساتھ محبت سے کیوں نہیں رہتے؟ آپ کے لیے شاید اس کا جواب اثبات میں ممکن نہ ہو، لیکن میں یہ کر سکتی ہوں، بشرطے کہ جب وہ اپنے دماغ سے صہیونیت کا خیال نکال دیں۔ پھر یہ سوال پیدا ہوگا کہ جب مکمل آزاد فلسطینی ریاست کے بعد بے گھر فلسطینی کیمپوں سے اپنے وطن لوٹیں گے، تو ان کی زمینوں پر رہنے والے یہودی کہاں جائیں گے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس جس ملک سے آئے تھے، بالکل اسی حساب سے امریکا، یورپ اور دیگر حصوں میں واپس چلے جائیں۔ ہمیں یہودیوں سے نہیں، بلکہ صہیونیت سے مسئلہ ہے، فلسطین ایک مقدس سرزمین ہے۔ ہماری آزاد فلسطینی ریاست میں مسلمان، یہودی اور عیسائی سب ایک ساتھ رہیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم سب کی آنے والی نسلیں امن وآشتی سے مل جل کر رہیں۔

8اپریل کو جاری ایک براہ راست ویڈیو میں جنیٰ جہاد نے بتایا کہ اردن سے لوٹتے ہوئے قابض اسرائیلی اہل کاروں نے انہیں گرفتار کر کے دو گھنٹے تفتیش کی، یہ ایک کٹھن وقت تھا، وہ کہتی ہیں کہ 12 سال کی عمر کے بعد اسرائیلی قوانین کے مطابق وہ بچی نہیں رہیں، اس لیے اب اسرائیل ان کی قید وبند کے لیے اس ’بندش‘ سے بھی آزاد ہے۔

[pullquote]’’دنیا کو سچ بتانے کے لیے ’سی این این‘ جانا چاہتی ہوں‘‘[/pullquote]

جنیٰ جہاد فلسطین کے مغربی کنارے کے ایک گاؤن ’نبی صالح‘ میں 6 اپریل 2006ء کو پیدا ہوئیں۔ جنیٰ جہاد کی والدہ نوال تمیمی فلسطینی حکومت کی امور خواتین میں ڈائریکٹر ہیں۔ جنیٰ جہاد اپنے آبائی علاقے نبی صالح کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ ان کے چھوٹے سے گاؤں میں فقط 553 افراد بستے ہیں، جو سب تمیمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ جنیٰ نے سات سال کی عمر میں ویڈیوز بنانا شروع کیں، دس سال کی عمر میں اُس کی شہرت پھیل گئی۔ وہ چاہتی ہے کہ اسکول کے بعد وہ امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کریں۔ اس کی خواہش ہے کہ وہ اپنا پیغام پہنچانے کے لیے ’سی این این‘ کا حصہ بنے،’’ کیوں کہ ’سی این این‘ دنیا تک سچ نہیں پہنچاتا۔‘‘ 2017ء میں اسے ترکی میں International Benevolence Award دیا گیا۔ 11مارچ 2018ء کو فلسطینی صحافیوں کی تنظیم کے سربراہ عبداللہ ابوبکر نے اسے باقاعدہ پریس کارڈ بھی جاری کیا، جسے اس نے اپنے لیے ایک بڑا اعزاز قرار دیا۔

[pullquote]’’میں تمہیں مدد کے لیے پکار رہی ہوں‘‘[/pullquote]

سماجی ذرایع اِبلاغ پر مشتہر جنیٰ جہاد کی ویڈیوز عالم اسلام کے بے حس و بے ضمیر ’شاہوں‘ کو ضرور دیکھنی چاہییں، جس میں ننھی جنیٰ جہاد اپنی کم سن سی آواز کو غضب ناک کرکے زرہ بکتر پہنے مسلح صہیونی فوجیوں کو للکارتی ہے کہ نکل جاؤ، یہ تمہاری نہیں، میری زمین ہے! مسلم امّہ کے سربراہان اپنے اپنے مفادات اور طاقت کے کھیل میں فلسطین کو تو فراموش کر بیٹھے ہی ہیں، اب تو ناجائز اسرائیلی ریاست کو مسترد کرنے کی ہمت بھی نہیں رکھتے۔ ماضی قریب کے نام نہاد دو ریاستی حل کے منصوبے کی بازگشت زیادہ پرانی نہیں، کہ جب یہ کہا گیا کہ اگر اسرائیل 1967ء کی سرحدوں پر آجائے اور بیت المقدس کی حامل ایک فلسطینی ریاست چھوڑ دے، تو سارے مسلمان ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے۔ 12 سالہ جنیٰ جہاد آج کے کسی بھی مسلمان حاکم سے کہیں زیادہ ہمت رکھتی ہے۔

کیوں کہ وہ غاصب صہیونیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں دہشت گرد کہتی ہے۔۔۔ دوسری طرف وہ کہتی ہے کہ ’’آجاؤ، میں تمہیں مدد کے لیے پکار رہی ہوں!‘‘ اس نے اپنے گھر کے ارد گرد داغے جانے والے سیکڑوں آنسو گیس کے خول ٹانگ رکھے ہیں کہ دنیا کو دکھائے کہ فلسطین کی دھرتی کتنے مصائب جھیل رہی ہے۔ اسے دنیا سے امید ہے کہ شاید وہ معصوم فلسطینی بچوں کے لیے صرف بچپن جینے کا حق حاصل کر سکے، کوئی تو ہو جو بے لگام صہیونی ریاست کو لگام دے۔ جنیٰ جہاد کی ویڈیوز میں فلسطینی بچوں کا مدعا لے کر کبھی وہ اردن کے شاہ زادے علی بن حسین سے گفتگو کرتی دکھائی دیتی ہے، تو کبھی بھارت سے تعلق رکھنے والے حقوق اطفال کے نوبیل انعام یافتہ کارکن کیلاش ستیارتھ سے محو کلام ہوتی ہے، یہ سوچ کر کہ شاید اس کے ہم وطن ننھے فرشتوں کو بڑے ہونے کی مہلت مل جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے