مشاہیر ادب کے حقیقی نام (ششم)

مشاہیر ادب کے حقیقی نام کی پانچویں قسط شائع ہوئی تو کئی مہربانوں نے سراہا۔ معروف شاعر صبیح رحمانی صاحب نے نہ صرف تحسینی کلمات سے حوصلہ بڑھایابل کہ اس سلسلے کو کتابی صورت دینے کا مفید مشورہ بھی دیا۔ رحمانی صاحب نے یہ بھی نشان د ہی کی کہ اس تحقیق میں تذکرے کا رنگ بھی موجود ہیں۔ ڈاکٹر فرخندہ ریاض صاحبہ نے کچھ یوں مبارک باد پیش کی ’ مشاہیر ادب کے حقیقی نام کا سلسلہ محنت شاقہ سے مرتب کرنے پر مبارک باد‘‘۔ ان اہلِ علم صاحبان کی حوصلہ افزائی سے مجھے خوشی ہوئی اور جذبے کو تقویت ملی۔ یہی وجہ ہے کہ میں مزید کچھ مشاہیر کے حقیقی نام اپنے قارئین کے لیے یک جا کرنے کے قابل ہوا۔ امید کرتا ہوں کہ میری اس کاوش کو بھی پسندیدگی کا خلعت بخشا جائے گا۔

محمود نظامی:

اردو ادب میں سفر نامے کا ذکر آتے ہیں محمود نظامی کا نام ذہن میں آجاتا ہے۔ محمود نظامی ۲، اگست ۱۹۱۱ء کو قلبِ پاکستان یعنی لاہور میں مرزا احمد بیگ کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ کا اصل نام’ ’ مرزا محمود احمد بیگ‘‘ تھا لیکن پہچان محمود نظامی کے قلمی نام سے بنائی۔محمود نظامی نے اپنے نانا مرزا نظام الدین بیگ کے زیر سایہ تربیت پائی اور اس نسبت سے ’نظامی‘ ہوئے۔ اردو سفر نامے میں ’ نظر نامہ‘’ کی صورت میں بہترین اضافہ کرنے کے علاوہ کلرک، دخترِبابل، سیفی اور نیلوفر جیسے ڈرامے لکھے اور شاعری میں بھی طبع آزمائی کی۔ ۱۱،فروری ۱۹۶۰ء کو انچاس برس کی عمر میں محمود نظامی نے دار بقا کی طرف رختِ سفر باندھا اوراحاطۂ میاں میر لاہور میں تدفین ہوئی۔

نسیم حجازی:

تاریخی ناول نگاری کے لیے شہرت کے حامل جس ناول نگار کو دنیا نسیم حجازی کے نام سے جاتی ہے اس کا اصل نام’’ محمد شریف حسین ‘‘تھا۔ نسیم حجازی سوجان پور ضلع گرداس پور میں ۱۹ مئی ۱۹۱۴ء کو پیدا ہوئے۔ ’خاک اور خون‘ یوسف بن تاشفین، آخری چٹا ن، معظم علی، کلیسا اور آگ، اور تلوار ٹوٹ گئی، داستانِ مجاہد، محمد بن قاسم، پردیسی درخت، سفید جزیرہ سمیت کئی مشہور ناول آپ کے قلم کا شاہکار ہوئے۔ اردو ادب کا یہ خورشید ۲ مارچ ۱۹۹۶ء کو سیٹیلائٹ ٹاؤن راول پنڈی میں غروب ہوا ۔

صبا ؔ اکبر آبادی:

اردو کے معروف شاعر ، ناول نگار اور مترجم جنھیں دنیا صباؔ اکبر آبادی کے نام سے جانتی ہے کا اصل نام’ ’ خواجہ محمد امیر‘‘ تھا۔ صباؔ اکبر ۱۴ اگست ۱۹۸۰ء کومیرؔ و غالبؔ کی جنم بھومی آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ایک سال تک محترمہ فاطمہ جناح کے پرائیویٹ سیکرٹری رہے۔ اوراقِ گل، سخنِ ناشنیدہ، ذکر و فکر، چراغِ بہار، ثبات اور دستِ دعا جیسے مجموعوں کے خالق صبا ؔ اکبر آبادی ۲۹، اکتوبر ۱۹۹۱ء کو اسلام آباد میں فوت ہوئے اور بعدازاں کراچی کے سخی حسن قبرستان میں پیوندِ خاک ہوئے۔

ایک مصرع بھی جو زندہ رہے کافی ہے صباؔ
میرے ہر شعر کی شہرت ہو ضروری تو نہیں

فناؔ بلند شہری:

نصرت فتح علی خان کی آواز میں ایک غزل نے اس قدر شہرت سمیٹی کہ بعد ازاں اس کا ر ی مکس تیار کیا گیا۔ ہر خاص و عام کے لبوں پر اس غزل کے اشعار نظر آتے ہیں۔

میرے رشک قمر تو نے پہلی نظر جب نظر سے ملائی مزا آ گیا
برق سی گر گئی، کام ہی کر گئی آگ ایسی لگائی مزا آگیا

اس کلام کے خالق کو دنیا ’فنا بلند شہری‘ کے نام سے جانتی ہے۔ فنا بلند شہری استاد قمر ؔ جلالوی کے شاگرد تھے۔ آپ کا اصل نام’ ’ حنیف محمد‘ ‘ تھا۔ فنا بلند شہری کا دیوان امان اللہ نقیبی نے مرتب کیااور مظفر آرٹ پرنٹرز کراچی سے اپریل ۱۹۹۴ میں شائع ہوا۔ فنا بلند شہری کی قبر کے کتبے کے مطابق ۲۶، نومبر ۱۹۸۲ء بدھ کے روزآپ کا انتقال ہوا۔ گوجر انوالہ شہر میں آپ کا مدفن بنا۔

اے فناؔ شکر ہے آج بعدِ فنا،اس نے رکھ لی میرے پیار کی آبرو
اپنے ہاتھوں سے اس نے میری قبر پرچادرِ گل چڑھائی مزا آگیا

محبوب ؔ خزاں:
’’اکیلی بستیاں‘‘ جیسے شعری مجموعے کے خالق شاعر جنھیں ادبی دنیا میں محبوبؔ خزاں کہا جاتا ہے۔ یکم جولائی ۱۹۳۰ء کو ضلع بلیہ موضع چندا دائر میں پیدا ہونے والے محبوب ؔ خزاں کا حقیقی نام’ ’محمد محبوب صدیقی‘ ‘تھا۔ ۱۹۴۸ء کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ مجرد زندگی گزاری اور ۳ ،دسمبر ۲۰۱۳ء کو ۸۳ برس کی عمر میں دارِفانی سے رخصت ہو گئے۔

اب یاد کبھی آئے تو آئینے سے پوچھو
محبوبؔ خزاں شام کو گھر کیوں نہیں جاتے

محبوب خزاں کا یہ شعر ضرب المثل کہلایا جو سہل ممتنع کی بھی بہترین مثال ہے۔
ایک محبت کافی ہے
باقی عمر اضافی ہے

سرور ؔ بارہ بنکوی:

سرور ؔ بارہ بنکوی اردو زبان کے معروف شاعر تھے جوفلم ساز اور ہدایت کار کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ سرور ؔ بارہ بنکوی کے نام سے جانے جانے والے اس شاعر کا اصل نام’ ’سعید الرّٰ حمان‘‘ تھا۔۳۰ جنوری ۱۹۱۹ء کو بارہ بنکی ،اتر پردیش ،بھارت میں جنم لینے والے اس شاعر نے دو شعری مجموعے کے ’ سنگِ آفتاب‘ اور ’سوز گیتی‘ اپنی یادگار چھوڑے۔ ۳۰ اپریل ۱۹۸۰ کو بنگلہ دیش کے دارلحکومت ڈھاکے میں حرکتِ قلب بند ہونے سے سرور بارہ بنکوی اللہ کو پیارے ہو گئے۔

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شائد نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

سرورؔ اپنے چمن کی فضا ہے کیا کہیے
سکوت کا تووہ عالم ہے جو قفس میں نہ تھا

نقش ؔ لائل پوری:

۲۴ ،فروری۱۹۲۸ء کو لائل پو(ر موجودہ فیصل آباد) میں جنم لینے والے نقشؔ لائل پوری کا اصل نام’ ’جسونت رائے شرما‘‘ تھا۔ نقشؔ لائل پوری نے بہ طور نغمہ نگار شہرت سمیٹی تاہم ان کی غزل بھی جان دار ہے۔ تقسیم کے وقت لکھن�ؤچلے گئے جہاں سے ۱۹۵۱ء میں ممبئی کا رخ کیا۔ ممبئی میں فلمی صنعت سے وابستہ ہو گئے اور کئی لازوال نغمے تخلیق کیے۔فراقؔ گور کھ پوری اور گلزارؔ کی طرح نقش ؔ لائل پوری کو بھی اکثر لوگ مسلمان سمجھتے ہیں۔ اردو دنیا کا یہ شاعر ۲۲ جنوری ۲۰۱۷ء کو ۸۹ برس کی عمر میں چل بسا۔ان کا یہ شعر ان کے جذبات کا عکاس ہے۔

ہم نے کیا پالیا ہندو یا مسلماں ہو کر
کیوں نہ انساں سے محبت کریں انساں ہو کر

محشرؔ بدایونی:

ضرب المثل شعر:
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا

کے خالق محشر ؔ بدایونی کا اصل نام’ ’فاروق ا حمد‘‘ تھا۔ ۴ مئی ۱۹۲۲ء کو بدایوں شہر میں جنم ہوا۔ تقسیم کے بعد ہجرت کر کے کراچی آ گئے جہاں ۹، نومبر ۱۹۹۴ء کو سخی حسن قبرستان میں پیوندِ خاک ہوئے۔

قیسؔ رام پوری:

اردو کے معروف شاعر ، افسانہ نویس، ناول نگار، اور مترجم قیس ؔ رام پوری کا حقیقی نام’’ خلیل الزماں خان‘‘ تھا۔ ۱۹۰۴ء میں رام پور بھارت میں پیدا ہوئے۔ قیسؔ رام پوری کے افسانوی مجموعے غبار،ضربیں، وغیرہ جب کہ ناولوں میں نگہت، چاند بی بی ، ٹیپو شہید، رضیہ سلطانہ، خون، برہنہ، اپاہج وغیرہ شائع ہوئے۔ عروس البلادکراچی میں ۱۰، فروری ۱۹۷۴ء کو لقمہ اجل بنے اور یاسین آباد کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

انھیں کو ہاں بس انھیں کو اے قیسؔ منزل ملے گی
مصیبتوں کے ہجوم میں بھی لبوں پہ جن کے ہنسی ملے گی

فناؔ نظامی کان پوری:

نصرت فتح علی خاں کی آواز میں ایک غزل بہت معروف ہوئی۔ جس کا مطلع تھا:

ایسا بننا سنورنا مبارک تمھیں، کم سے کم اتنا کہنا ہمارا کرو
چاند شرمائے گا، چاندنی رات میں یوں نہ زلفوں کو اپنی سنوارا کرو

اس خو ب صو رت کلام کے خالق کو فناؔ نظامی کان پوری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ فناؔ نظامی کا حقیقی نام ’’ مرزا نثار علی بیگ‘‘ ان کے قلمی نام کے پیچھے چھپ گیا۔ فناؔ نظامی ۱۹۲۲ء میں بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع کان پور میں پیدا ہوئے۔ سادگی پسند اور دین دار انسان تھے۔’’ فناؔ نظامی کان پوری فن اور شخصیت‘ ‘کے نام سے آپ کی زندگی کے حوالے سے عشرت ظفر نے کتاب مرتب کی جو جگر اکیڈمی کان پور سے ۲۰۰۳ء میں شائع ہوء۔ فناؔ نظامی ۱۸، جولائی ۱۹۸۸ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور کان پور میں ہی آپ کا مدفن بنا۔ فناؔ کا یہ شعر عصر حاضر کا نوحہ سناتا ہے۔

کام آئے نہ مشکل میں کوئی یہاں، مطلبی دوست ہیں، مطلبی یار ہیں
اس جہاں میں نہیں کوئی اہل وفا، اے فنا ؔ اس جہاں سے کنارا کرو

حکیم ناصرؔ :

پی جا یام کی تلخی کو بھی ہنس کر ناصرؔ
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے

عابدہ پروین کی آواز میں گائی گئی اس معروف غزل کے مقطعے میں ناصر تخلص کو دیکھ کر اکثر لوگ اسے ناصرؔ کاظمی کے نام لگا دیتے ہیں۔ لیکن یہ غزل ناصر کاؔ ظمی کی ہر گز نہیں بلکہ حکیم ناصر ؔ کی ہے۔ حکیم ناصر ؔ جن کا اصل نام’ ’ محمد ناصر‘‘ تھا، ۱۹۴۷ء کو تاج محل کے شہرآگرہ میں پیدا ہوئے۔ بعدازاں کراچی آگئے جہاں نظامی دواخانہ کے نام سے ہربل دواخانہ قائم کیا۔ ساٹھ برس کی عمر میں ۲۸، جولائی ۲۰۰۷ء کو حکیم ناصر کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی لیکن آپ کی غزل نے آپ کو ادبی دنیا میں زندہ رکھا ہواہے۔

جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے

عبداللہ حسین:

اداس نسلیں، باگھ، نادار لوگ، جیسے ناولوں کے علاوہ تشیب، فریب کے نام سے افسانوی مجموعے بھی شائع ہوئے۔ ان بے مثال نصانیف کے خالق کو دنیا عبداللہ حسین کے نام سے جانتی ہے۔ عبداللہ حسین نے (۱۹۶۳ء میں) جب اپنا پہلا ناول اُداس نسلیں مکمل کیا تو عبداللہ حسین ہوئے قبل ازیں آپ کا نام’’ محمد خان‘‘ تھا۔ عبداللہ حسین ۱۴ء اگست ۱۹۳۱ کو راول پنڈی میں پیدا ہوئے۔ ۳۰،دسمبر۲۰۱۳ء کو عبداللہ حسین سے جب میری ملاقات ہوئی توانھوں نے بتایا کہ ۱۹۶۳ء میں میاں والی کے قریب سیمنٹ فیکٹری میں ملازمت کے دوران میں فارغ وقت میں وہ کہانی لکھنے بیٹھے جو بعد میں کئی سو صفحات کا نال "اداس نسلیں” کہلایا۔چھے سال کی مدت میں مکمل ہونے والے اسی ناول نے عبداللہ حسین کو پہچان بخشی۔۔ اداس نسلیں کو انگریزی زبان میں "The Weary Generations” کے نام سے ترجمہ بھی خود محمد عبداللہ حسین نے کیا۔میرے ایم فل کے ہم جماعت علی غفور نے’’ عبداللہ حسین کے افسانوں کے کردار،تجزیاتی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے ایم فل اردو کا مقالہ ڈاکٹر شفیق انجم کی زیر نگرانی لکھا۔ قریب ۸۴ برس کی عمر میں ۴، جولائی ۲۰۱۵ء کو اردو ادب کا یہ چراغ لاہور میں گُل ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے