"مضبوط رشتوں کے کچے دھاگے …… ….. ….،،

آجکل آدھی فراغت ہے ، آدھی پڑھائی ہوتی ہے اور باقی کا کچھ وقت یونیورسٹی کی لائبریری میں ملازمت کا ایک سال کا کنٹریکٹ ہے تو اس میں گزر جاتا ہے۔ گزشتہ دو راتوں سے نیند کے لئے مجھے اوسطاً تین گھنٹے رات کے ملتے رہے۔ آج دن کو کافی سویا بلکہ اپنے ہاسٹل کے کمرے سے باہر بھی نہ نکلا۔ ابھی پھر سونے سے قبل فیس بک پر سٹیٹس اپ ڈیٹ کیا اور لائیٹ آف کی مگر آدھا گھنٹہ گزر گیا نیند نہ آئی۔ اسی دوران پھر فیس بک پر آیا تو اچانک مجھے سبوخ سید بھائی کی ایک پوسٹ نظر آئی تو ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ کافی وقت بیت چکا ہے کچھ نہیں لکھا چلو آج کچھ لکھتے ہیں۔

دو دن قبل میں نے یوٹیوب پر ایک وڈیو دیکھی جس میں ایک گھر کے دروازے پر پولیس گھنٹی بجا رہی ہوتی ہے تو اندر سے ایک عورت نے دروازہ کھول کر کہا کہ خیریت تو ہے ؟ جس پرپولیس آفیسرز میں سے ایک نے کہا کہ ہمیں اس گھر کے ایڈریس سے کسی نے فون کیا ہے، عورت سے حیرت انگیز انداز میں دیکھتے ہوئے کہا کہ یہاں سے کسی نے فون نہیں کیا۔

میں نے فون کیا ہے۔ اندر سے ایک آٹھ سالہ بچے نے باہر آتے ہوئے جواب دیا اور آتے ہی پولیس آفیسر کو کہا کہ میری ماں نے مجھے مارا ہے اور یہ میرا حق بنتا ہے کہ پولیس کو اس بابت بتایا جائے۔۔۔!

پولیس آفیسر نے اسے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ کس نے یہ بات تجھے بتائی ہے تو بچے نے جواب دیا کہ مجھے سکول میں دوستوں نے اس بارے بتایا تھا۔۔۔۔۔! پولیس آفیسر چھوٹے بچے کو ایک طرف لے کر گیا اور اسے کہا کہ اگر اب آپ نے ایسی حرکت کی تو ہو سکتا ہے کہ اگلی بار ہمیں آپ کو پولیس اسٹیشن لے جانا پڑے۔۔۔! جبکہ اس کی ماں نے پولیس آفیسرز کو اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری بات نہیں مان رہا تھا اور بے جا ضد پر اسے میں نے ہلکی سزا دی ہے۔

یہ ایک اسکرپٹڈ کہانی تھی مگر اس میں ایک بہت بڑا سبق تھا تمام والدین اور بچوں کے لئے بھی۔

میرے ذہن میں بھی بہت سے خیالات جنم لینے لگے اور مجھے بھی اس سے مطابقت رکھنے والی حقیقی زندگی کی حقیقی واقعات یاد آنے لگے۔۔۔! مجھے آج بھی اچھی طرح سے یاد ہے کہ وہ ایک سرد شام تھی جب اور میں انگلینڈ کے شہر بلفاسٹ (Belfast) کے ایک پارک میں شام کو ٹہل رہا تھا کہ مجھے ایک بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والا شخص ملا جو ایک بوڑھے کو پارک میں ویل چئیر پر گھما رہا تھا اور اس نے مجھے بتایا کہ میں ہفتے کے چھ دن اس شخص کے ساتھ ہوتا ہوں۔ ان کی دیکھ بھال کرتا ہوں اور ان کے ہی گھر میں میں رہتا ہوں۔۔۔

مجھے اس وقت معلوم ہوا کہ یہ لوگ جو بوڑھے ہو جاتے ہیں ان کو ان کی جائز اولاد بوڑھاپے میں ان نرسنگ ہومز میں چھوڑ جاتی ہے تاکہ ان کی باقی کی بیماری اور تکلیف والی زندگی سرکاری خرچ پر یہاں گزرے۔۔۔ میں نے تجسس بھرے انداز میں کچھ مزید پوچھنا چاہا مگر اس بوڑھے انگریز کو میرا ایسے سوال کرنا پسند نہ آیا اور وہ وہاں سے چل پڑے۔۔۔۔۔!

کچھ عرصہ بعد میں لندن آگیا اور کالج کے ساتھ ساتھ مجھے ویسٹ لندن کے علاقے ویمبلی (Wembely) میں ملازمت بھی مل گئی۔۔۔ میرا کالج ایسٹ لندن میں تھا جو بنگلہ دیش کی کمیونٹی کا مرکز بھی ہے۔ اس دوران مجھے وہاں بھی کافی کچھ سیکھنے کو ملا۔۔۔۔ اکثر مجھے ایسے بوڑھے ایشین افراد بھی ملے جو اپنی اولاد کے ہاتھوں مجبور ہو چکے تھے، کبھی ماں کو پولیس سٹیشن بلایا جاتا تو کبھی باپ کچھ دنوں کے لئے سرکاری مہمان بن جاتا۔۔۔!

ایک دن میں سوچ رہا تھا کہ چلو جیسے ماں باپ نے بچوں کی تربیت کی ہوگی ویسا ہی یہ ان کے ساتھ برتاؤ بھی کرتے ہیں اور اس وقت میں ویمبلی کی مشہور ایلنگ(Ealing) پر رہتا تھا کہ پولیس نے ساتھ والے فلیٹ سے ایک پچاس پچپن سالہ انڈین عورت کو اس لئے گرفتار کیا کہ اس نے گزشتہ رات اپنی جوان سالہ بیٹی کو رات دیر سے گھر آنے پر کیوں ڈانٹا تھا ۔۔۔۔۔!

اب ویسٹ لندن میں آپ کو انگریز کم اور انڈین زیادہ دیکھنے کو ملیں گے۔ ایک اور انڈین گجراتی مسلمان بزنس مین کے ہاں بھی ایسا ہی کچھ دیکھنے کو ملا۔۔۔ ان کے ساتھ میرا بہت گہرا تعلق بن گیا تھا اور وہ آج بھی وقتا فوقتا مجھے سے بات چیت کرتے رہتے ہیں۔۔۔۔ وہ ستائیسویں رمضان کی رات تھی جب ہم اکٹھے ویمبلی سنٹرل مسجد میں نماز تراویح ادا کر ہے تھے کہ دو مسلمان پولیس اہلکاروں نے ان کو مسجد سے پولیس سٹیشن منتقل کیا اور وجہ بچوں پر سختی بتائی گئی۔۔۔۔!

یہ یورپ کے گھر گھر کی کہانی ہے۔ بہت کم ایسے گھرانے ہوں گے جہاں کے بڑوں نے ایسے حالات نہ دیکھے ہوں۔۔۔!

دو ماہ قبل جب میں کوپن ہیگن کی ایک پبلک بس سروس کے مسلمان ڈرائیور سے بات چیت کر رہا تھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنا شروع ہو گے جب اس نے ایسے دل سوز واقعات بتائے۔ اور اس نے کہا کہ ممتاز بھائی میں سات ماہ بعد اپنے وطن کو لوٹتا ہوں۔۔۔ بس ایک جوان سالہ بچے کو ساتھ رکھا ہوا ہے اور باقی بیوی بچے میرے آبائی ملک صومالیہ میں ہیں۔۔۔۔ یہاں آزادی ہے ، یہاں علاج معالجے کی بہترین سہولیات ہیں، مگر آپ کہ بچے اگر یہاں پیدا ہوئے ہیں تو وہ آزادی ان میں منتقل ہو جاتی ہے اور آپ ایک آزاد ملک میں رہتے ہوئے بھی غلام بن کر رہتے ہو۔۔۔۔!

یہ بات میرے ذہن پر ہتھوڑے کی طرح وار کرتی رہی، کہ آزادی آپ کی اس وقت تک ہے ان ممالک میں جب آپ سنگل ہو۔۔۔ کتنی خواہشات ہوتی ہیں کہ انسان اپنی اولاد کی ایسے پرورش کرے گا ایسا کرے گا ویسا کرے گا مگر اولاد جونہی جوان ہوتی ہے وہ آپ کے ہاتھوں سے اور بعض کی زندگی سے نکل جاتی ہے۔۔۔!

میں آج تک یہ سوچتا ہوں کہ آخر اس ڈرائیور نے مجھے یہ کہانی سناتے وقت اپنی آنکھیں کیوں نم کی تھیں ؟

اس نے کہا تھا کہ یہ ہمارا قصور بالکل بھی نہیں کہ ہم نے تربیت میں کوئی کمی چھوڑی ہوتی ہے بلکہ یہ سارا ماحول کا اثر ہے کہ وہ ایسے بن جاتے ہیں۔ اور یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم یہاں آکر اپنے طور طریقے بدل دیتے ہیں، انداز بیان بدل جاتا ہے، ہماری شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔۔۔ ایسے ہی یہ عوامل ہوتے ہیں۔۔۔ اب پھول اور کانٹا دونوں آپ کو ایک ہی ٹہنی پر ملیں گے۔۔۔ پھول کی خوشبو سے ماحول معطر ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ لگا کانٹا آپ کو جبھ جائے تو آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں۔۔۔۔ آنکھیں دھندلا سی جاتی ہیں اور پھر کچھ بھی آپ کو صاف دیکھائی نہیں دیتا۔۔!

مجھے اب گزشتہ سال یاد آنے لگ پڑا جب ایسا ہی ایک افسانہ لکھنے کی کوشش کی تھی۔ میرے یہاں میلان شہر کے قرب و جوار میں دو چار دوست ہیں اور ان میں اگر ابرار بھائی کا نام نہ لیا جائے تو دوستی کا مفہوم مکمل واضح نہیں ہوتا۔ ہم انگلینڈ میں بھی کچھ وقت ساتھ رہے اور اٹلی میں بھی ساتھ رہنے کا موقع میسر آتا رہا۔۔۔ ان کی دعوت پر میں نے ان کے پاس جانے کا پروگرام بنایا۔۔۔۔!

میں نے جلدی سے ڈریس تبدیل کیا اور میٹرو ( انڈرگراؤنڈ) لی۔۔۔ میٹرو میں میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک کوئی ساٹھ پینسٹھ سال کے بزرگ تھے، جو وقفے وقفے سے پوچھتے تھے کہ اب ہم کہاں ہیں ؟ بیٹا میں ہسپتال جا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ میرا اکلوتا بیٹا داخل ہے۔۔۔۔۔۔ بہت دن ہو گے اسے ہسپتال میں۔۔۔۔ ڈاکٹر کچھ بتا ہی نہیں رہے کہ آخر اسے کیا بیماری ہے؟

بیٹا اولاد بڑی نعمت ہوتی ہے اور میرا یہ بچہ ہماری شادی کے سات سال بعد پیدا ہوا تھا۔۔۔۔۔اپنی ماں کے ساتھ ہی رہتا ہے۔۔۔۔ ہمارے درمیان اب علیحدگی ہو چکی ہے۔۔۔۔ جب یہ سات سال کا تھا تو اس کی ماں کو امریکہ جانے کی سوجھی۔۔۔۔۔۔مجھے کام سے چھٹیاں نہ مل سکیں تو اس کی ماں نے طلاق لے لی ۔۔۔۔۔۔۔!!!!!

میں اس وقت کمپنی کے پراجیکٹ پر تھا اور مجھے تین تین ہفتے گھر سے باہر سائیٹ پر رہنا پڑتا تھا۔ میں سائیٹ مینیجر تھا اور بیوی نے عدالت سے رجوع کر کہ طلاق لے لی تھی کہ مجھے مکمل وقت نہیں دے رہے۔۔۔ بس وقت نہ دینے کا کہہ کر اس نے طلاق لے لی اور بیٹا بھی یہاں کے قانون کے مطابق ماں کے ساتھ ہی رہا اور میں نے گھر چھوڑ دیا۔۔۔۔!!!

کیسے بتاؤں کہ وقت کیسے گزرا ؟
مجھے دکھ صرف اس بات کا ہے کہ ہمارے درمیان طلاق کی کوئی بڑی وجہ نہ تھی۔۔۔۔۔خیر پچھتاوا تو اسے بھی ہوتا ہو گا ۔۔۔۔ پر وقت گزر چکا تھا۔۔۔۔۔!!! بابا جی کی آنکھوں میں پانی اتر آیا۔۔۔۔میں نے ٹشوپیپردیا تو بابا جی نے شکریہ ادا کیا۔۔۔۔۔ بابا جی نے یہ بات بغیر کسی وقفے کے سنا دی ۔۔۔۔ دو سٹاپ رہ چکے تھے ہسپتال پہنچنے کے لئے کہ بابا جی کو شدید کھانسی نے آن لیا۔۔۔۔ان کی حالت اچانک خراب ہو گئی۔۔۔۔خیر میں نے فیصلہ کیا کہ پہلے بابا جی کو ہسپتال پہنچاؤں گا تو پھر ابرار بھائی کے پاس جاؤں گا۔۔۔۔۔بابا جی کو جب میں نے کہا کہ میں آپ کو ہسپتال تک لے کر جاؤں گا تو ان کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آ گئے۔۔۔۔۔!!!

خیر پلیٹ فارم پر قدم رکھتے ہی بابا جی اچانک سے فرش پر گر گئے اور ان کی کنپٹی زور سے فرش پر جا لگی اور خون ہی خون فرش پر پھیل گیا۔۔۔۔فورا ایمبولینس کال کی گئی اور بابا جی کو ہسپتال لے جایا گیا۔۔۔۔۔پلیٹ فارم پر سینکڑوں کی تعداد میں لوگ موجود تھے مگر اس واقعے سے بہت سے لوگوں کے چہرے مرجھا گئے تھے۔۔۔۔۔۔!!!!

ہسپتال میں ڈاکٹروں نے بابا جی کو فورا آپریشن تھیٹر میں پہنچایا اور ان کا خون بند کرنے کے بعد معمولی سرجری کر کہ وارڈ میں منتقل کر دیا۔۔۔۔ اتفاق سے اسی وارڈ میں بابا جی کا بیٹا بھی ایک بیڈ پر تھا جس کو دیکھنے بابا جی آ رہے تھے۔۔۔۔۔!!!

بابا جی نے کوئی گھنٹے بعد آنکھ کھولی اور مجھے وہاں قریب کھڑا پا کر مسکرائے کہ اچانک ان کی نظر سامنے والی بیڈ پر پڑی جس پر ان کا بیٹا زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھا۔۔۔۔۔۔!!!

بابا جی نے اٹھنے کی کوشش کی اور بہت اونچی آواز میں اپنے بیٹے کو آواز دی ۔۔۔۔ مگر وہ بیہوش تھا اور اس نے کوئی جواب نہ دیا۔۔۔۔۔۔!!!!

بیٹے کی جانب سے جب کوئی جواب ملا تو بابا جی کو ایک زوردار جھٹکا لگا اور بیڈ سے گرنے ہی والے تھے کہ میں نے مشکل سے قابو کیا۔۔۔۔ اتنے میں نرس بھی آگئی اور تھوڑی دیر بعد بچے کی ماں / بابا جی کی سابقہ بیوی بھی آگئی۔۔۔۔!!!

مجھے ابرار بھائی فون پر فون کر رہے تھے۔۔۔۔ اور میں اس حالت میں بھی نہیں تھا کہ کوئی ایک میسج بھی کر سکتا یا ان کی کال سن سکتا۔۔۔۔۔ میں نے موبائل آف کر دیا۔۔۔۔۔نرسوں نے بابا جی کو آکسیجن لگا دی اور اتنے میں ڈاکٹر بھی وارڈ میں پہنچ گئے۔۔۔۔ بابا جی کے بیٹے کو دوستوں نے شراب کچھ زیادہ ہی پلا دی تھی جس کی وجہ سے وہ سڑک پر گاڑی سے ٹکرا گیا تھا اور کومہ کی حالت میں چلا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!

عورت اپنے سابقہ شوہر اور بیٹے کو ایسی حالت میں دیکھ کر ششدر ہو کر رہ گئی ۔۔۔۔۔۔۔!!!!

میں نے قریب کھڑی نرس کو ساری بات بتائی تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگے۔۔۔۔۔اس نے کہا کہ ہمارے لوگ سال میں ایک بار چھٹیاں منانے کسی دوسرے ملک نہ جائیں تو یہ پاگل ہو جاتے ہیں۔۔۔۔یہ ایک جنون ہے۔۔۔۔ سمندر پر نہانا۔۔۔۔۔ ہوٹلوں میں رہنا۔۔۔۔۔۔ مہنگی مہنگی اشیا خرید کر استعمال نہ کرنا۔۔۔۔۔۔۔!!!
ابھی وہ کچھ اور بھی کہتی کہ بابا جی کی سانسیں اکھڑنا شروع ہو گئیں۔۔۔۔۔!!!!

نرس نے سب کچھ وہاں قریب ٹیبل کر رکھا اور بابا جی کے پاس چلی گئی اور اپنی پوری کوشش کر کہ بابا جی کی سانسیں بحال کرنے پر لگ گئی۔۔۔۔نرس پوری کوشش کر رہی تھی کہ سانسیں بحال ہو جائیں۔۔۔۔مگر بابا جی کی حالت بہت بگڑ گئی۔۔۔۔۔!!! اسی حالت میں بابا جی کو قے آئی اور نرس کی یونیفارم خراب ہو گئی۔ دو تین مزید نرسیں اور ڈاکٹر وہاں پہنچ گئے۔۔۔۔۔۔اب بابا جی کی سانسیں مکمل اکھڑ چکی تھیں اور دوسری جانب بچہ بھی آخری ہچکیاں لے رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔!!!!!

اب بابا جی کی اکیسیجن بند ہوگئی تو پہلے ایک نرس نے بابا جی کی آنکھوں کو اپنے ہاتھوں سے بند کیا اور پھر ایک نرس بچے کے سینے کو زور زور سے دبانے لگی۔۔۔۔۔!!!

وارڈ میں کہرام مچ گیا تھا۔۔۔۔۔ ایسے رقت آمیز مناظر میں نے زندگی میں پہلے نہیں دیکھے تھے۔۔۔۔نرس بھی بہت غمزدہ تھی۔۔۔۔ کہنے لگی کہ ہم روز ہی ایسے مناظر دیکھتے ہیں۔۔۔۔ ہم اپنے حوصلے سے بڑھ کر ان کو حوصلہ دیتے ہیں۔۔۔ہمیں دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ جب ہم پوری کوشش کرتے ہیں کسی مریض کو بچانے کی اور وہ جانبر نہیں ہوتا۔۔۔۔۔!!!

عورت کا تعلق سترہ سال قبل خاوند سے ٹوٹا اور سترہ سال بعد بیٹا اپنے باپ کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ماں کو اکیلا چھوڑ گیا۔۔۔۔۔۔ مجھے ایک لمحے کے لئے وہ بابا جی کی مسکراہٹ یاد آنے لگی۔۔۔۔ اور ان کا وہ بار بار پوچھنا کہ بیٹا اب ہم کہاں پہنچے ہیں؟ میں بیٹے کو دیکھنے جا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔!!!! وہ ہسپتال میں ہے۔۔۔۔۔!!!!

میرےآنسو تھم ہی نہیں رہے تھے کہ دیکھو باپ بیٹے کی طرف سے جواب نہ ملنے پر جان سے گیا ۔۔۔۔۔ اور بیٹا بھی دو گھڑی بعد اس جہان سے کوچ کر گیا۔۔۔ ایک گھر مکمل تباہ ہو گیا اور اس کی وجہ من مانی بنی۔۔۔۔۔۔!!!!!

نوٹ !

یہ ایک افسانہ لکھنے کی کوشش کی ہے۔۔۔۔۔۔ یوروپین زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھا ہے۔۔۔۔۔۔میں نے آکسفورڈ ( انگلینڈ) آئرلینڈ اور اٹلی کے ہسپتالوں میں کچھ وقت گزارا ہوا ہے۔۔۔۔ اور آٹھ سال مجھے بھی ہو گئے ہیں یوروپین زندگی کے نشیب و فراز دیکھتے ہوئے۔۔۔۔۔۔!!!!

میں نے ان سب واقعات کو افسانوی روپ دیا ہے۔اس افسانے کے تمام کردار فرضی ہیں۔ !!!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے