پاکستانی لڑکوں کی اقسام

یونیورسٹی کے ایک ’’چچڑ‘‘ قسم کے لڑکے نے اپنی مبینہ گرل فرینڈ کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا ’’جان من میںوعدہ کرتا ہوں کہ میں تمہیں دنیا کی سب سے خوش و خرم عورت بنا دوں گا ۔‘‘ جواب میں لڑکی بولی ’’ہائے ….واقعی …..یقین کرو میں تمہیں مِس کروں گی!‘‘

آپ میں سے جن لوگوں نے لفظ ’’چچڑ ‘‘ پہلے نہیں سنا تو اُن کے لئے فقط اتنا عرض ہے کہ انگریزی میں اِس کا قریب ترین ترجمہ ’’leach‘‘ کیا جا سکتا ہے اور اردو میں ’’جونک‘‘ مگر جو بات چچڑ میں ہے وہ leach میں کہاں۔ اسی لئے پاکستانی لڑکوں کے لئے میں ’’چچڑ ‘‘ کا لفظ ہی استعمال کرتا ہوں کہ یہ اکیلا لفظ ہی ہماری شخصیت کی عکاسی کرنے کے لئے کافی ہے ۔لڑکے عموما چچڑ ہوتے ہیں ،خاص طور سے وہ جو کالج یا یونیورسٹی میں اس نیت سے داخلہ لیں کہ پہلے سمسٹر میں ہی کلاس کی تمام لڑکیوں کو فرینڈ بننے کی دعوت دیں گے ، اس تکنیک کے پیچھے یہ شیطانی ذہنیت کارفرما ہوتی ہے کہ اگر قسمت بہت بری بھی ہو تو چالیس میں سے ایک دو لڑکیاں تو مان ہی جائیں گی اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے ۔

جو لڑکی ایسے کسی چچڑ کے جھانسے میں آ جائے توپھر اُس کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے ،پہلی ہی ملاقات میں لڑکا Dos and Donts کی ایک فہرست لڑکی کے ہاتھ میں تھما دیتاہے اور یہ فرض کرلیتا ہے کہ آج سے لڑکی اُس کے تصرف میں آئی ہوئی کنیزکی طرح تابعداری کرے گی۔لڑکے یہ فہرست ایسے بناتے ہیں گویا خود وہ فرعون مصر ہوں اور لڑکی اُن کے محل کی ایک باندی۔

مثلاً…..’’آج سے تم نے کالج میں کسی لڑکے سے بات نہیں کرنی ….. اگر کوئی بات کرے بھی تو جواب میں فوراً ’’جی بھائی‘‘ کہنا ہے…. کسی لڑکے کی طرف نہیں دیکھنا….. سر شبیر سے پرے رہنا ہے ….. کسی سے نوٹس لینے کی کوئی ضرورت نہیں ،لڑکے نوٹس کے بہانے قریب آنے کی کوشش کرتے ہیں (خود موصوف اسی تکنیک کو بروئے کار لا کر دوستی کرنے میں کامیاب ہوئے تھے) ….. اپنی ماڈرن سہیلیوں سے تعلق ختم کرو ، یہ بری لڑکیاں ہیں بلکہ مجھے اِن کا نمبر دو میں خود ان سے نمٹ لوں گا….. کل سے تم نے کالج میں حجاب اوڑھ کر آنا ہے اور ہوسکے تو لڑکیوں سے بھی پردہ کرنا ہے ….کینٹین میں اپنی دوستوں کے ساتھ اونچا اونچا مت ہنسا کرو ، مجھے پسند نہیں ….. بائی دی و ے تم نے ایم بی اے کرکے کیا کرنا ہے ،میں تو کہتا ہوں آرام سے گھر بیٹھو….. !‘‘کوئی جیون جوگی اگرسچے دل سے اِس ’’ہدایت نامہ بوائے فرینڈ ‘‘پر عمل کرنا شروع کربھی دے تو پھربھی لڑکا مطمئن نہیں ہوتا اور مسلسل لڑکی کی جان عذاب میں ڈالے رکھتا ہے۔

لڑکی اگر تنگ آ کر اسے چھوڑنا چاہے تو ایسے لڑکے چچڑ ہو جاتے ہیں(واضح رہے اب ’’چچڑ ‘‘ بطور nounاستعمال ہوا ہے ) اور ترلوں پر اتر آتے ہیں ، قسمیں کھا کھا کر لڑکی کو یقین دلاتے ہیں کہ اگر اُس نے انہیں چھوڑ اتو وہ زہر کھا کر جان دے دیں گے ، اور جس وقت وہ یہ زہریلابیان جاری کر رہے ہوتے ہیں ٹھیک اُسی وقت وہ کسی دوسری لڑکی کو ’’ہدایت نامہ بوائے فرینڈ‘‘ sendکرکے اُسے اپنا بنانے کا وعدہ کر چکے ہوتے ہیں ۔ایسے لڑکوں کا انجام بالآخر اپنی خالہ کی بیٹی سے شادی کی شکل میں نکلتا ہے جو نکاح سے چھتیس گھنٹے پہلے تک انہیں بھائی جان کہہ کر بلاتی ہیں۔

یونیورسٹی میں دوسری قسم لیڈی کلر لڑکوں کی ہے ۔یہ لڑکے اپنے تئیں ہیرو ہوتے ہیں ، نرگسیت کا شکار ہوتے ہیں ، ان کا خیال ہوتا ہے کہ جو لڑکی انہیں ایک مرتبہ دیکھ لے وہ ان کے سحر میں گرفتار ہو جاتی ہے ،یہ لڑکے بظاہر کسی لڑکی کو لفٹ نہیں کرواتے ،جواب میں لڑکیاں بھی انہیں لفٹ نہیں کرواتیں ، سو پہلا سمسٹر یونہی گزر جاتا ہے ، پھر ماسٹرز بھی گزر جاتا ہے، حتیٰ کہ پوری عمر گزر جاتی ہے مگراِن سے کوئی لڑکی بات نہیں کرتی ۔ یہ بیچارے باقی زندگی لوگوں کو قصے سنانے میں گزار دیتے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ یونیورسٹی میں پڑھتے تھے تو تمام لڑکیاں ان پر فریفتہ تھیںاور وہ سلطان راہی کی طرح اُن سے بیزار رہتے تھے ۔

ایسے ہی ایک صاحب کو میں جانتا ہوں ، پھٹے ہوئے جاگر جیسی اُن کی شخصیت ہے ، مگر عالم اُن کا یہ ہے کہ خود کو دنیا کا سب سے ہینڈ سم انسان سمجھتے ہیں۔اپنے کالج کے زمانے سے متعلق کچھ فرضی واقعات انہوںنے بنا رکھے ہیں جن کا لب لباب یہ ہے کہ اُن کی تمام ہم جماعت فقط اِس ادا پر ہی فدا تھیں کہ وہ کسی لڑکی سے بات نہیں کرتے تھے ۔

اتفاق سے اُن کی ایک ہم جماعت سے بھی میری واقفیت تھی سواُس سے میں نے حقیقت پوچھی ،اُس مہ جبیں نے زاروقطار ہنستے ہوئے کہاکہ کہیں میں گینڈے کی بات تو نہیں کر رہا ! پتہ چلا کہ لڑکیوں نے موصوف کا نک نیم گینڈا رکھا ہوا تھا۔لڑکوں کی تیسری قسم یتیموں کی ہے ۔یہ حقیقت میں یتیم نہیں ہوتے مگر صورت سے یتیم لگتے ہیں ، حقیقت میں یہ ’’میسنے ‘‘ ہوتے ہیں (’’میسنے کا اردو ترجمہ ممکن نہیں ، پنجابی میں جو زہر ہے وہ کسی اور زبان میں کہاں)۔یہ لڑکے شروع میں لڑکی کو باجی کہنے سے بھی نہیں چوکتے ، لڑکیوں کو موٹر سائیکل پر گھر تک چھوڑنے کے لئے ان کے پاس تیر بہدف نسخہ یہی ہے کہ تم تو مجھے بالکل اپنی بہنوں جیسی لگتی ہو۔الفاظ کے چناؤ میں احتیاط سے کام لیتے ہیں تاکہ بعد میں کوئی تکنیکی مجبوری آڑے نہ آ جائے ۔اِن کے چہرے پر ہر وقت مسکینی چھائی رہتی ہے ، اکثر لڑکیاں تو ترس کھا کر اِن سے دوستی کر لیتی ہیںکہ اِس نیکی کا ثواب ملے گا۔

پاکستانی لڑکے چچڑ ہوں ، لیڈی کلر ہوں یا مسکین ہوں ، ایک بات سب میں مشترک ہے کہ اِن لڑکوں کو ایسی لڑکی چاہیے جس میں تمام گُن ہوں ،جو شکل سے ہالی وڈ کی ہیروئن لگے اور کپڑوں سے مدرسے کی طالبہ، اس میں لونڈیوں والی تابعداری ہو اور حورم سلطان والی ادائیں، صوم و صلوٰۃ کی پابند ہو اور بیلی ڈانس کی ماہر ،بچوں کی طرح معصوم ہو اور اصغری بیگم کی طرح سمجھ دار، جو گھر بیٹھے فیشن ڈیزائننگ سے لاکھوں روپے کماکر شوہر کے قدموں میں ڈھیر کر دے ، رات کو ساس کی ٹانگیں دبائے ، صبح نند کا ناشتہ تیار کرے اور شام کوخاوند کے گھر آنے پر کرینہ کپور کی طرح تیار ملے۔

دوسری طرف لڑکوںکا اپنے بارے میں خیال ہے کہ اُن کی صرف یہی خوبی کافی ہے کہ وہ لڑکے ہیں ، خدا نے انہیں مرد پیدا کیا ہے سو وہ چاہیں تو ایک وقت میں کئی معاشقے لڑا سکتے ہیں ، بھلے وہ خود گنجے ،موٹے یا بھدے ہوں، اُن کا کوئی ناک نقشہ سیدھا نہ ہو، بی اے کے بعد نوکری نہ ملتی ہو ، گھر میں باپ سے جوتیاں پڑتی ہوں اور محلے میں کوئی ادھار بھی نہ دیتا ہو مگرانہیں ایسی گرل فرینڈ چاہئے جو وفا شعار ہو،سلیقہ مند ہو ، حسین ہواور اپنے باپ کی کروڑوں کی جائداد کی اکلوتی وارث ہو اور لڑکی کا باپ اپنی بیٹی کا ہاتھ لڑکے کے ہاتھ میں دے کر فوراً فوت ہو جائے۔
اِن تمام خرافات کا حل یہ ہے کہ لڑکیوں کو چاہئے کہ وہ تمام لڑکوں کو اُن کی اوقات میں رکھیں تاکہ یہ دُم ہلاتے ہوئے اُن کے آگے پیچھے پھریں ، ہو سکے تو لڑکیاں#MeTooکے طرز پر چچڑ، لیڈی کلر اور میسنے لڑکوں کے خلاف بھی ایک مہم چلائیں جس کا ہیش ٹیگ ہو #FriendsNotMastersخدا نے چاہا تو مردوں کی رہی سہی بالا دستی بھی ختم ہو جائے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے