کیا ہمیں کسی دشمن کی ضرورت ہے؟

بات سیدھی بھی ہے اور سادی بھی ۔ کوئی سمجھنا چاہے تو سمجھنے میں دقت نہیں ہونی چاہئے۔ میاں نوازشریف اور ان سے ناراض ادارے ایک دوسرے کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ عملاً جنگ کے اصول نہیں ہوتے۔

یہاں جنگ میں اور محبت میں سب کچھ جائز سمجھا جاتا ہے ۔ نواز شریف سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ مخاصمت کی بنیاد ذاتی، ادارہ جاتی یا سیاسی ہے لیکن اس کو رنگ کچھ اور دیا جارہا ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے خلاف عدالت، میڈیا اور سیاسی میدان میں جو کچھ کروایا جارہا ہے ، اس سے ملک کی کوئی نیک نامی نہیں ہورہی لیکن ان کی دشمنی میں مخالفین اس قدر غضب ناک ہوگئے ہیں کہ وہ ملکی مفاد کا خیال رکھ رہے ہیں اورنہ اداروں کے مفاد کا ۔ دوسری طرف خود نوازشریف صاحب بھی مکمل جنگی رویے پر اتر آئے ہیں ۔وہ اب ضد اور انتقام کے جذبات کا شکار ہیں اور مخالفین کو زیر کرنا چاہتے ہیں خواہ اس عمل میں اداروں کا نقصان ہو، ملک کا ہویا خود ان کے سگے بھائی اور پارٹی کاہو ۔ قومی سلامتی کے اداروں کا خیال ہے کہ نواز شریف ان پر پوری قوت کے ساتھ حملہ آور ہیں۔اسی جنگ کے ضمن میں نوازشریف صاحب یہ دھمکی دیتے رہے کہ ان کا سینہ رازوں سے بھرا پڑا ہے اور وقت آنے پر وہ زبان کھول سکتے ہیں۔

شاید ممبئی حملوں سے متعلق سوالات اٹھانے کا ان کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ اگر انہیں مزید چھیڑ ا گیا تو وہ اسی طرح کے سوالات کے جواب دینے لگ جائیں گے ۔ میاں صاحب کی نیت جو بھی تھی لیکن بیان چھپتے ہی ہندوستانی میڈیا نے طوفان کھڑا کردیا۔ ہندوستانی میڈیا اور سیاستدان اسے اس انداز میں پیش کرنے لگے کہ پاکستان کے ایک ذمہ دار سیاستدان نے اعتراف کرلیا کہ ممبئی حملہ پاکستان سے کیا گیا تھا اور یہ کہ پاکستانی ریاست ،غیرریاستی عناصر کو ہندوستان کے اندر کارروائیوں سے نہیں روک رہی ہے ۔

یوں تو ان دنوں ہر وقت ہندوستانی میڈیا میں پاکستان کے خلاف اسی طرح کا شوروغوغا رہتا ہے لیکن چونکہ ہم آپس میں الجھے رہتے ہیں ، اس لئے کبھی ان کی طرف توجہ دینے یا جواب دینے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ۔جس بھی غرض سے ہو لیکن بہ ہر حال نوازشریف صاحب نے بہت بڑے بلنڈر کا ارتکاب کرلیا اور اس کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پوری قوم اور سیاسی و عسکری ادارے مل کر ہندوستان کے اس پروپیگنڈے کا جواب دیتے ، آئینے میں اسے اس کا بھیانک چہرہ دکھاتے اور کلبھوشن یادیو جیسے ان کے ریاستی دہشت گردوں کی مثالوں سے اسے خاموش کرتے ۔

خلوتو ں میں یا کسی مناسب قومی فورم پر میاں نوازشریف سے اس بیان کا حساب مانگتے اور ایسا میکنزم بناتے کہ وہ مستقبل میں اس طرح کا بیان نہ دیتے لیکن چونکہ مخالفین بھی نوازشریف سے کم نہیں اس لئے ان کی اس حرکت کو دوسرا ’’نیوز لیکس‘‘ بنانے کی کوشش کی گئی ۔ ہوسکتا ہے ہندوستان کی دو تین دن کی بکواس کے بعد یہ معاملہ دب جاتا لیکن نوازشریف کی دشمنی میں پاکستان کے اندر اس معاملے کو اس قدر اچھالا گیا کہ اب اس پر نہ جانے کہاں تک بحث ہوتی رہے گی اور نہ جانے اس عمل میں نوازشریف اور ان کے مخالفین ہندوستان جیسے دشمنوں کو مزید کتنا مواد فراہم کریں گے ۔

پہلے پورے اہتمام کے ساتھ ایک نجی ٹی وی کا وہ انٹرویو صحافتی اور سیاسی حلقوں میں پھیلایا گیا اور پھر پورے تزک واحتشام کے ساتھ نوازشریف کے سیاسی مخالفین کو میدان میں اتارا گیا ۔ کسی نے غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹے تو کسی نے عدالتوں کا رخ کیا۔ میڈیا پر کسی نے ہندوستانی خرافات کا جواب دینے کی زحمت توگوارا نہیں کی لیکن پاکستان کے اندر نوازشریف کی حمایت اور مخالفت میں ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔چنانچہ اگلے روز ملک کے اہم ترین اور طاقتور ترین ادارے یعنی کابینہ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس بلایا گیا ۔ اس اجلاس کے بعد جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والے ممبئی سے متعلق بیان کوغلط ، گمراہ کن اور حقائق کے منافی قرار دیا گیا ۔

اعلامیہ میں مزیدحوالے دے کر وضاحت کی گئی کہ ممبئی حملہ کیس میں پیش رفت نہ ہونے کا ذمہ دار بھارت ہے ۔ اب یہاں پر معاملہ ختم یا کم ازکم دفن ہوجانا چاہئے تھا لیکن افسوس کہ جس وقت یہ اجلاس منعقد ہورہا تھا، اسی وقت میاں نوازشریف احتساب عدالت کے سامنے کھڑے ہوکر میڈیا کے سامنے اپنے بیان کو دوبارہ پڑھ کر اس کے درست ہونے پر اصرار کررہے تھے ۔ دوسری طرف قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ سے یہ تاثرابھرا کہ جیسے پارٹی یا کم ازکم حکومت نے میاں نوازشریف کے بیان سے اپنے آپ کو الگ کرلیا اور ایک ایسے اجلاس میں میاں نوازشریف کے بیان کی مذمت کی گئی جس کی صدارت ان کے نامزد کردہ شاہد خاقان عباسی کررہے تھے ۔ چنانچہ عدالت سے واپس آتے ہی میاں نوازشریف نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو طلب کرلیا اور ان سے ملاقات کے فوراً بعد شاہد خاقان عباسی نے ہم اینکرز کو وزیراعظم ہائوس طلب کیا۔

یہاں انہوں نے جو موقف اپنایا اس نے معاملے کو مزید الجھا دیا ۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ کمیٹی میں میاں نوازشریف کی نہیں بلکہ غلط رپورٹنگ یا پھر اس کی غلط تشریح کی مذمت کی گئی ہے ۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی ایک بار پھر واضح کیا کہ میاں نوازشریف کل بھی ان کے قائد تھے ، آج بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے ۔ ادھر عمران خان صاحب نے میاں نوازشریف کو میرجعفر اور غداری کا مرتکب قرار دے دیا اور بہت سارے لوگوں نے غداری کا مقدمہ کرنے کے لئے عدالتوں سے رجوع کرلیا ۔ جواب میں بونیر میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے میاں نوازشریف نے ایک بار پھر اپنے موقف پر اصرار کرتے ہوئے تحقیقات کے لئے قومی کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کردیا۔

صرف اس پر بس نہ ہوا بلکہ اگلے روز انہو ںنے احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے قومی سلامتی کمیٹی کے بیان کو مسترد کردیا اور سابقہ موقف کا اعادہ کرتے ہوئے ایک بار پھر قومی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا۔لگتا ہے کہ اب یہ معاملہ لمبا چلے گا اور جتنا یہ لمبا ہوگا اتنا ہی ہم اپنے خلاف دشمنوں کو مزید مواد دیتے رہیں گے ۔اب آپ ہی بتائیے ان حالات میں ہم پاکستانیوں کو کسی بیرونی دشمن کی ضرورت ہے اور کیا ہم خود اپنے لئے کافی نہیں ؟۔

وزیراعظم کی پریس کانفرنس کے دوران میں نے ان سے افغان نائب وزیرخارجہ کی زیرقیادت پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے وفد کے بارے میں پوچھا لیکن نوازشریف کے بیان کے غلغلے کی وجہ سے وہ اس پر بات کرسکے اور نہ ہم میڈیا والوں نے معاملے کو اس طرف جانے دیا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں فاٹا مرجر اور پشتون تحفظ موومنٹ پر بھی کوئی بات ہوئی لیکن وہ اس معاملے پر بات کرنے کے روادار تھے اور نہ کسی صحافی کو اس میں دلچسپی تھی ۔پاکستان میں غدار غدار اور توتومیں میں کا یہ کھیل ایسے وقت گرم ہے کہ جب امریکہ کے ساتھ تعلقات کشیدگی کی آخری حدوں کو چھورہے ہیں اور پاکستانی سفارتکاروں پر امریکہ میں قدغنیں تک لگائی گئی ہیں ۔امریکہ اور ہندوستان یک جان دو قالب ہوچکے ہیں اور ہمیں روز پاکستان کے سلامتی کے محافظین کی طرف سے بتایا جارہا ہے کہ دشمن پوری قوت کے ساتھ فاٹا، بلوچستان، گلگت بلتستان اور کراچی میں سرگرم عمل ہے جو لسانی ، مذہبی اور سیاسی بنیادوں پر نفرتوں کو ہوا دے رہا ہے۔

ہمارے پڑوس میں افغانستان ایک نئی تباہی کی طرف جارہا ہے جس سے نہ صرف ہم بری طرح متاثر ہوں گے بلکہ ذمہ دار بھی ہمیں قرار دیا جارہا ہے ۔ ملکی معیشت تباہی کی طرف گامزن ہے اور سفارتی محاذ پر پاکستان کو تنہائی جیسی صورت حال کا سامنا ہے ۔ صدائیں یہ بلند ہورہی ہیں کہ ملک نازک صورت حال سے دوچار ہے لیکن کوئی وزارت عظمیٰ چھن جانے کی وجہ سے پاگل ہورہا ہے ، کوئی وزیراعظم بننے کے لئے پاگل ہورہا ہے ، کوئی ذاتی انا کی وجہ سےپاگل ہورہا ہے تو کوئی ادارہ جاتی مفاد کی وجہ سے آپے سے باہر ہے۔ سب اپنی اپنی جگہ اس ملک کے دشمنوں کا کام آسان کررہے ہیں لیکن ہر کوئی اس زعم کا شکار ہے کہ اس ملک کی فکر ہے تو صرف اسے ہے ۔

میاں نوازشریف کو یاد رکھنا چاہئے کہ سیاست کی جنگ میں لاکھوں لوگ ان کا ساتھ دیں گے لیکن اگر اس جنگ کا نشانہ پاکستان بن جائے تو پھر ان کا سگابھائی بھی ساتھ نہیں ہوگا ۔ا سی طرح ان کو دیوار سے لگانے والوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ نوازشریف نیلسن مینڈیلا ہے اور نہ پاکستان کا کوئی اور سیاسی لیڈر ۔ انہیں دیوار سے لگایا جائے گا تو وہ اسی انداز میں جواب دیں گے ۔ یہ صرف میاں صاحب کا نہیں بلکہ پاکستان کے ہر سیاسی لیڈر کا رویہ ہے ۔

نوازشریف سے تو اقتدار چھینا گیا لیکن عمران خان کو جب اقتدار نہیں دلوایا گیا تو کیا وہ اسی طرح فوج پر حملہ آور نہیں ہوئے ۔ ابھی چند روز قبل انہوں نے فوج پر 2013کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا اور کیا وہ ماضی میں خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی سے متعلق نوازشریف سے زیادہ سخت زبان استعمال نہیں کرچکے ہیں ۔ یوسف رضاگیلانی کو اقتدار سے ابھی نہیں نکالا گیا تھا لیکن جب ان پر دبائو آیا تو اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر انہوں نے ریاست درریاست کی دہائی دے کر سوال اٹھانے شروع کئے کہ اسامہ بن لادن کو ویزا کس نے دیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے