سنجیدہ زندگی کا کیا فائدہ؟

میں ایک سُست آدمی ہوں ، آدمی کہاں ہوں ، کالم نگار ہوں۔پچھلے تین گھنٹے سے میں اس تقریب کے لئے مضمون لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر ہر مرتبہ میرا موبائل فو ن مجھے گمراہ کر دیتا ہے ۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس میں ایک ٹوں کی آواز آتی ہے ، فو ن اٹھا کر دیکھتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کسی نے کوئی تصویر یا ویڈیو بھیجی ہے ، ان میں سے نوّے فیصد کلپس یا تصاویر اخلاقی معیار کے عین مطابق ہوتی ہیں سو انہیں میں دیکھے بغیر ہی ڈیلیٹ کردیتا ہوں جبکہ باقی دس فیصد کو احتیاط سے سیو کر لیتا ہوں تاکہ تنہائی میں اطمینان سے دیکھ کر ڈیلیٹ کر سکوں ۔

یہ عمل مجھے ہر دوچار منٹ بعد دہرانا پڑتا ہے ۔ تنگ آکر میں نے اپنا موبائل ’’انداز ہوائی جہاز ‘‘ یعنی ائیر پلین موڈ میں رکھ دیا ہے تاکہ اس کی آواز مخل نہ ہوسکے مگر اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ اب ہر پانچ منٹ بعدمیں خود اسے آن کرتا ہوں ، چیک کرتا ہوں اور پھر دوبارہ ائیر پلین موڈ میں رکھ دیتا ہوں، گویا جو عمل پہلے کم اذیت ناک تھا میں نے اپنی جدت سے اُس میں مزید اذیت پیدا کر دی ہے ۔یہ مضمون لکھنے میں مشکل اس لئے بھی پیش آ رہی ہے کیونکہ سامعین کی زیادہ تعداد سرکاری افسران اور صاحب لوگوں پر مشتمل ہے جن کے چہروںپر مسکراہٹ صرف دو موقعوں پر آتی ہے۔۔۔ایک۔۔۔جب وہ اپنے دفتر میں کرسی پر براجمان ہوں اور اُن کے سامنے پیش ہونے والا سائل مشکل میں ہو اور۔۔۔دوسرے۔۔۔جب اُن کی بیوی پوچھے کہ ڈارلنگ میں موٹی تو نہیں لگ رہی۔۔۔توجواب میں انہیں مسکرا کر کہنا پڑتا ہے کہ بالکل نہیں جانِ من بلکہ یہ سوٹ تو تمہیں ڈھیلالگ رہا ہے۔

سرکاری افسران کے سامنے مزاحیہ تحریر پڑھ کر انہیں ہنسانے کی کوشش کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنی بیوی کو شادی سے پہلے کا کوئی معاشقہ سنا کر ہنسانے کی کوشش کرےاور ریٹائرڈ سرکاری افسران کو مسکرانے پر مجبور کر نا تو اور بھی مشکل ہے ، یہ ایسے ہے جیسے کوئی شخص اپنی ناراض بیوی کو موجودہ معاشقہ سنا کر منانے کی کوشش کرے ۔اسی طرح صاحب لوگوں کے سامنے شعر پڑھنا بھی بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے ۔ میں نے ایک مرتبہ اپنے ایک افسر کو غالب کا شعر سنایا ’’میں نے کہا کہ بزم ناز چاہئے غیر سے تہی، سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں ۔‘‘جواب میں مذکورہ افسر نے سر کو ہلکی سی جنبش دی اور کہا کہ برخوردار یہ شعر درست نہیں ، اصل شعر یوں ہے ــ’’میں نے کہا کہ بزم ناز، اس نے کہا کہ کیا کہا، میں نے کہا کہ کچھ نہیں ، اس نے کہا کہ ٹھیک ہے ! ‘ ‘واضح رہے کہ مذکورہ افسر اب ریٹائر ہو کر شاعری شروع کر چکے ہیں اور خود کو غالب کا ہم پلہ سمجھتے ہیں۔

لکھنا ایک مشکل کام ہے اور مزاح لکھنا تو اور بھی مشکل ۔لیکن آج کل کے نوجوانوں کے لئے کوئی بات مشکل نہیں رہی کیونکہ انہوں نے ہر چیز کا شارٹ کٹ ڈھونڈ رکھا ہے ۔مثلاً اگر انہوں نے پیزا کھانا ہو تو پیزاآؤٹ لٹ جانے کی بجائے آن لائن ڈیلیوری کروا لیتے ہیں ۔۔۔میں سوچتا ہوں کہ جس طرح آج کل آن لائن ڈیلیوری کا رواج مقبول ہو رہاہے وہ دن دور نہیں جب ہر قسم کی ڈیلیوری آن لائن ہوا کرے گی۔شارٹ کٹ کے ماہراِن نوجوانوں میں سے کچھ کو لکھاری بننے کا شوق بھی ہے ،اکثر ایسے نوجوانوں کی مجھے ایل میلز موصول ہوتی ہیں جن میں وہ بتاتے ہیں کہ وہ کالم لکھنا جانتے ہیں سو کیا ہی اچھا ہواگر میں اُن کا کالم ’’جنگ ‘‘ میں شروع کرو ا دوں ۔ جواب میں جب میں انہیں کہتا ہوں کہ وہ اپنی کوئی تحریر لکھ بھیجیں تو کہتے ہیں کہ آپ پہلے کالم تو شروع کروائیں ، پھرتحریر بھی لکھ دیں گے۔ایسی ہی ایک لڑکی نے مجھ سے پوچھا کہ اچھی تحریر لکھنے کا کیا طریقہ ہے ؟میں نے کہا کہ آپ ادب میں دلچسپی پیداکریں ۔جواب میں وہ شرما کر کہنے لگیں ابھی میری عمر ہی کیا ہے ۔

میں نے گھبرا کر کہا محترمہ آپ غلط سمجھ رہی ہیں، میرا مطلب تھا کہ ادب میں دلچسپی پیدا کریں یعنی اچھے ادیبوں کی تحریرں پڑھیں ۔فٹ سے انہوں نے پوچھا کو ن سے ادیب؟میں نے کہا جیسے کہ شفیق الرحمن۔ اگلے دن وہ شفیق الرحمن کی کتابیں خرید لائیں جن کے بیک ٹائٹل پر شفیق صاحب کی جوانی کی تصویر موجود تھی جس میں وہ ہالی وڈ کی کسی فلم کے ہیرو لگتے ہیں ۔ساتھ ہی اُن محترمہ کافون آگیا،پوچھنے لگیں کہ اس بانکے سجیلے لکھاری سے کہاں اور کیسے ملاقات ہو سکتی ہے ۔ میں نے جواب دیا کہ اس کے لئے تو آپ کو عالم بالا کا سفر کرنا پڑے گا ۔ حیرت سے انہوں نے کہا کہ مالم جبا کا تو میں نے سنا تھا ،یہ عالم بالا کہا ں ہے ۔۔۔کیا ناردرن ایریا میں ہے ؟ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اِس گفتگو کا اختتام کن الفاظ پر ہوا۔

اس قسم کی محفل میںکسی خاتون کا قصہ سنانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بزرگ حضرات کے چہروں پر خواہ مخواہ بشاشت آ جاتی ہے اور ُان کی بیگمات سمجھتی ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے۔اصل میں ہماری قوم کے اعصاب پر دو چیزیں بری طرح سوار ہیں۔۔ ۔پہلی۔۔ عورت اور دوسرے ۔۔۔دوسری عورت۔خدا نے مردوں کے دماغ میں بس یہی دو خانے بنائے ہیں ۔اس کے بعد مردوں کے دماغ میں جو جگہ باقی بچتی ہے ، اُس سے وہ دنیا کاباقی کام چلاتے ہیں ۔سو جس بد حالی میں دنیا ہمیں نظر آتی ہے اُس کی وجہ مردوںکے دماغ کی یہی work distributionہے۔ادھر جب سے عورتوں کو آزادی اور حقوق ملنے لگے ہیں انہوں نے ہر میدان میں مردوں کو پچھاڑنا شروع کر دیا ہے۔ لڑکے چونکہ اپنا دماغ کم استعمال کرتے ہیں اس لئے وہ شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ایک مرتبہ ایسے ہی نوجوانوں کا جلوس مال روڈ سے گزر رہا تھا ، یہ لوگ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف نعرے لگا رہے تھے ، کسی بزرگ نے روک کر پوچھا کہ یہ جلوس کہا جا رہا ہے ، نوجوانوں نے جواب دیا کہ ہم بیت المقدس جا رہے ہیں ، اس پر روکنے والے بزرگ نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے کہا، پھر تم لوگ بیڈن روڈ سے جاؤ شارٹ کٹ پڑے گا۔

ہماری قوم میں شارٹ کٹ کے رجحان کی وجہ ہماری طبیعت کی جلد بازی بھی ہے ۔ہم وہ لوگ ہیں جو روزوں میں پکوڑے لینے جائیں تو تیز رفتاری کے باعث بازو تڑوا بیٹھتے ہیں ۔میرا ایک دوست جس کا وزن تقریباً چار سو پاؤنڈ ہے گھر سے افطاری لینے نکلا اور سٹریچر پر واپس آیا۔وجہ اُس کی یہ تھی کہ موصوف نے سواری کے طور پر موٹر سائیکل کا انتخاب کیا، جب آپ اُس پر بیٹھ کر نکلے تو دیکھنے والوں کو یوں لگا جیسے کوئی دیو قامت شخص آٹو میٹک طریقے سے زمین پر گھسٹتا ہوا آ رہا ہے، سامنے سے آنے والا رکشہ ڈرائیور بھی یہی سمجھا مگر الٹا گھبرا کر رکشہ میرے دوست پر چڑھا دیا۔وہ رکشہ ڈرائیور آج کل مزاح نگار ہے ۔

خواتین و حضرات ! اس دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں ، ایک وہ جو ہنستے ہیں اور دوسرے وہ جو ہنساتے ہیں ۔میرا تعلق تیسری قسم سے ہے ، میں خود پر ہنستا ہوں ۔زندگی بظاہر بڑی سنجیدہ اور اذیت ناک ہے مگر بقول ابن صفی بندہ سنجیدہ ہو کر کیاکرے جب ایک دن اُسے اپنی تمام تر سنجیدگی کے ساتھ زمین میں ہی دفن ہونا ہے۔
نوٹ : یہ مضمون لاہور جمخانہ میں منعقدہ محفل مزاح میں پڑھا گیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے