جمہورے

گزشتہ دنوں میاں نواز شریف کی عدالت پیشی کے موقع پر سیاسی جماعتوں اور انکے حواریوں نے خوب واویلا مچایا کہ جناب منتخب وزیر اعظم کو اس طرح بکتر بند گاڑی میں لا کر جمہوریت کی تذلیل کی گئی ہے

یہ ظلم ہو رہا ہے نواز شریف پر یہ غلط ہے ایسا نہیں ہونا چاہئیے تھا وغیرہ وغیرہ تمام دن میڈیا پر بیٹھ کر نواز شریف کے چاہنے والے انکی درویشی کے قصے سناتے رہے اور پولیس کے اس اقدام پر خوب واویلا کیا میڈیا کے چند دوستوں نے اس بکتر بند گاڑی کی ویڈیو موبائلز میں محفوظ کیں اور ویڈیو کو غور سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ میاں صاحب باہر ووٹ کے عزت دو کے نعروں کا جواب دینے کی بجائے کسی گہری سوچ میں گم ہیں

اول تو میاں صاحب شاید یہ سوچ رہے ہوں گے کہ چھوٹا ابھی تک آیا کیوں نہیں ملک بند کیوں نہیں ہو گیا میری گرفتاری پر میری پارٹی کی جانب سے چلائی جانے والی تحریک کا کیا ہوا اور دوسرا یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں پارٹی کا صدر تھا تو ایک جم غفیر میری جانب امڈ آتا تھا کاغذ پر لکھی تحریر جب میں پڑھتا تھا تو میرے دربار کے دانشور واہ واہ پکار اٹھتے تھے اچانک یہ سب کہاں غائب ہو گئے

خیر میاں صاحب کی بے چارگی پر پولیس والوں نے ترا کھایا اور اگلی پیشی پر جناب کے چاہنے والوں کو چکمہ دیکر عدالت کے پچھلے دروازے سے میاں صاحب کی اینٹری کروا دی گئی اور انکے حق میں احتجاج ریکارڈ کروانے والوں کو اپنی حاضری لگوانے کا موقع تک نہ ملا

اب اس ساری صورتحال کو دیکھ کر اسمبلی میں موجود ڈاکٹر عامر لیاقت کی اس تصویر پر بھی تھوڑی روشنی ڈالنا ضروری ہے جس میں موصوف آصف علی زرداری کے سامنے من و عن جھک کر پوچھ رہے تھے "آم کھائے گا آم” اس دعوت کو آصف زرداری نے نو تھینک یو کہہ کر رد کر دیا خیر

نئے پاکستان والے عمران شاہ نے انہی دنوں ایک معصوم شہری کے منہ سر عام تبدیلی چھاپ جڑ دی جسے سوشل میڈیا نے اچھالا تو نیا پاکستان پارٹی نے جناب کو شوکاز نوٹس تھما دیا شاہ جی کو معافی مانگ کر مظلوم کو گلے لگانا پڑ گیا مگر حضور کا یہ تھپڑ انہی کے گلے پڑ گیا اور معاملہ انضباطی کمیٹی کے سپرد کئے جانے کے بعد شاہ جی کو ایک ماہ کے لئے معطل کر دیا

اب شہباز شریف صاحب کو اسی اثنا میں زرداری کا آشیرباد نہ ملنے سے شہباز میاں کی وزارت عظمی والی دوڑ میں نمبر بھی کم رہ گئے ہیں معاملہ بلاول اور زرداری کے ہاتھ میں ہے کیونکہ شہباز شریف نے دعوی کیا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کے آصف زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹے گا

اب باری آتی ہے سپیکر پنجاب اسمبلی کی جس میں چوہدری برادران کو گرین سگنل مل گیا اور پرویز الہی واضح اکثریت سے سپیکر منتخب ہو گئے لیکن اس پر حمزہ شہباز و دیگر نے میں نا مانوں کی گردان پکڑ لی اور ایک بار پھر سے عندیہ دیا کہ تایا جان کے ساتھ ہونے والی گستاخی کا احتجاج نا جانے کب وہ اسمبلی کے اندر اور باہر فرمائیں گے

ان چند واقعات میں بیان کردہ کردار گزشتہ تیس سال سے اپنی اپنی باری پر وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں ملکی ترقی اور عوامی مسائل سے قطع نظر یہ افراد جمہوریت کی بقا کے لئے ایک دوسرے کی ٹانگ شریف کھینچنے کے درپے ہر وقت رہتے ہیں گویا ملکی مسائل کا حل ان مذکورہ افراد کے کرسی پر بیٹھتے ہی حل ہو جائیں گے

الیکشن گزر گیا ان تمام افراد نے اپنی اپنی باریوں کے مزے بھی بھگت لئے کچھ بھگت رہے ہیں اس بیچ بیچاری عوام کا بھردہ بنا دیا گیا ہے

میری تحریر کوئی خاص نہیں ہے اور نا ہی اسمیں کچھ نیا ہے بس اتنا ضرور ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کے روایتی مامے چاچے صرف اقتدار کی حد تک اس ملک کے عوام سے مخلص ہیں وزارت عظمی کے امیدوار عمران خان نے بھی بہت سارے دعوے فرمائے ہیں

گذشتہ تیس سالوں کے تناظر میں یہ دعوے کچھ نئے اور کرسپی معلوم ہوتے ہیں بہت سی رد شدہ سیاسی جماعتیں عمران خان کو ماننے سے انکار کر رہی ہیں اور بہت سی جماعتیں اس نئی حکومت سازی میں اپنا کردار ادا کرنے کی تیاری میں ہیں

سوال بس اتنا ہے کہ اس سارے جھمیلے میں بیچاری عوام کدھر جائے پچھلی حکومت نے دعوے کئے کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ کر کے ملک کو عظیم بنا دیا ہے مگر بھولی عوام نے آج تک یہ سب نہ دیکھا نہ چکھا

عوام روزانہ ٹی وی اور خبروں میں سٹار پلس کے سوپ سیریلز کی طرح ملک میں جاری سیاسی مارا ماری دیکھ کر اپنے رب سے اچھے کی دعا کر کے سو جاتے ہیں لیکن نئے دن کے ساتھ ملک میں جمہورے پھر سے کچھ نیا وبال مچا دیتے ہیں

ملک اور عوام اس سیاسی سٹار پلس کے شو سے تنگ آ گئے ہیں باز تو آپ نے آنا نہیں خدارا آنے والی نسل کو سیاسی دشمنیاں تحفے میں دینے کی بجائے حقیقی طور پر متحد ہو جائیے (ممکن تو نہیں ) لیکن ایک بار کوشش ضرور کیجئیے گا

یاد آیا مولانا فضل الرحمن نے جشن آزادی نہیں منایا البتہ پوری قوم نے مل کر وطن کی آزادی کا جشن خوب منایا اور مولانا جمہورے کو باور کروایا کہ سرکار تواڈی واری ہن نئیں آنی

یہ تمام کردار جمہورے ہیں اور اپنے اپنے مقاصد کے آگے کسی مداری کے سدھائے ہوئے جانور کی طرح خوب رقص کر رہے ہیں البتہ یہ لوگ بھول رہے ہیں کہ ان جمہوروں کے باعث یہ ڈرامہ پوری دنیا دیکھ کر سراپا سوال ہے کہ یہ لوگ اپنے ملک کے لئے کچھ کرنے کی بجائے مداری کے ڈمرو پہ ڈانس کیوں کر رہے ہیں

اسکا جواب شاید ان جمہوروں کے پاس بھی نہیں ہے کیونکہ ان سب کو صرف وہ کرسی چاہئیے جس پر بیٹھ کر یہ نوٹ کما سکیں اور اقتدار کے مزے لوٹ سکیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے