صدیوں کی غلامی اور عشروں کے مصائب کی ماری قوم جاگ اٹھنے کے لیے بے تاب ہے۔ احسن اقبالوں کو یہ گوارا نہیں۔
خواب سے محکوم گر بیدار ہوتا ہے کبھی
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
پی ٹی آئی والوں سے گزارش کی کہ قادیانی کو کمیٹی میں شامل نہ کریں۔ ایسا شدید ردّ عمل ہو گا کہ جان پہ بن آئے گی۔
انہوں نے ہنس کے اڑا دیا۔ وزیر اطلاعات نے ارشاد کیا کہ اعتراض کرنے والے انتہا پسند ہیں۔
مولانا فضل الرحمن‘ سینیٹر سراج الحق ہی نہیں‘ شہباز شریف اور نام نہاد لبرل پارٹیوں نے سینیٹ میں سوال اٹھانے کا فیصلہ کیا تو ہوش ٹھکانے آ گئے۔ فواد چوہدری نے اعلان کیا کہ وزراء کرام عشق رسولؐ کے امین ہیں۔ ایک دن پہلے یہ محبت کہاں تھی؟
میرے محترم دوست عامر خاکوانی کہتے ہیں کہ اخبار نویس بہت دانا ہو گئے۔ تجزیہ کرنے کی بجائے‘ فتوے جاری کرتے ہیں۔ معلوم نہیں کس طرف ان کا اشارہ ہے۔ اس حد تک یہ بات صحیح ہے کہ کبھی ہم بھی حد سے زیادہ اعتماد کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کاتا اور لے دوڑی۔ سونڈھ ہاتھ لگے تو پنساری بن جاتے ہیں۔ بعض بعض تو خبطِ عظمت کا شکار ہیں۔ با ایں ہمہ سیاست دانوں کا حال بھی پتلا ہے۔ زرداری اور شریف خاندان کو ہمیشہ ہر وقت‘ دولت بٹورنے کی پڑی رہتی۔
پی ٹی آئی والوں کا معاملہ مختلف ہے۔ حقیقی دنیا میں کم‘ خوابوں اور خیالوں کی بہشت میں زیادہ رہتے ہیں۔ سوچے سمجھے بغیر‘ فیصلہ کرتے ہیں۔ کوئی دن میں واپس لینا پڑتا ہے۔ نون لیگ کے بعض بزرجمہر ان سے بھی بڑھ کر ہیں۔
مثال کے طور پر احسن اقبال۔ نچلا بیٹھنا ان کے بس میں نہیں۔ وزیر تھے تو اپنے بھائی کے لیے لارنس گارڈن میں اربوں روپے کی پانچ ایکڑ اراضی ہتھیانے کا ارادہ کیا۔ باغبانی کا تحقیقی ادارہ بنانے کے بہانے سے۔ وہ تو ایاز امیر سدِّ راہ ہو گئے۔ ٹی وی پہ انہوں نے واویلا کیا۔ اتنا بڑا سکینڈل وگرنہ وجود پاتا کہ برادرِ خورد کے باقی کارنامے بھی طشت از بام ہو جاتے۔ تحریک انصاف میں کیڑے ڈالنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ قادیانی کی شمولیت پہ‘ مگر حکومت وقت کی تائید فرمائی۔ اپنی قوم کے مزاج اور موڈ سے ناآشنا‘ لبرل حلقوں سے اس پر داد بھی وصول کی۔ فوراً بعد نون لیگ نے جب اس تجویز پہ عمران خان کو زچ کرنے کا ارادہ کیا‘ تو جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔
ایک مربوط منصوبہ بندی کے تحت قادیانی نون لیگ‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی قیادت کو رام کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ہدف ان کا وہ آئینی ترمیم ہے‘ جس کے تحت وہ غیر مسلم قرار دیئے گئے۔ کیا وہ غیر مسلم نہیں؟
تین دن پہلے احسن اقبال نے مہم شروع کی کہ ڈیم چندوں سے نہیں بنتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ عمران دشمن تمام لبرل‘ ملاّ اور خود ان کی پارٹی کے چیخنے والے اس کارِ خیر میں شریک ہو گئے۔
اللہ کے بندو‘ یہ کس نے کہا کہ چندے سے ڈیم بن جائے گا۔ سوال تو یہ ہے کہ اس کے لیے عوامی عطیات وصول کرنے میں خرابی کیا ہے۔ کون سی برائی اس سے پھیل سکتی ہے۔ ملک اور معاشرے کو کیا نقصان پہنچے گا؟
بے شک ذاتی ایثار سے قومی بجٹ نہیں بنتے‘ عظیم منصوبے مکمل نہیں ہوتے مگر قوم قربانی ہی سے بنتی ہے۔ یہ بات آپ کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی؟
ظاہر ہے امریکہ بہت بڑی معیشت ہے۔ اس کے باوجود ابھی کچھ دن پہلے‘ پانچ امریکی صدور جمی کارٹر‘ بش سینئر‘ بل کلنٹن‘ بش جونیئر اور اوباما قطار میں کھڑے قوم کی تحسین کر رہے تھے۔ یہ کہ قطرینہ طوفان کے ہنگام امریکیوں نے 42 بلین ڈالر دیئے۔
ٹیپو سلطان کو تاوانِ جنگ ادا کرنا تھا۔ ہارا ہوا لشکر دارالحکومت کو روانہ تھا کہ عوام امڈ پڑے۔ انصاف پسند ہی نہیں‘ ان کا بادشاہ مہربان اور رقیق القلب تھا۔ اس ہندوستان میں جہاں راجوں‘ مہاراجوں کی ساری دولت عیاشیوں پہ اٹھ جاتی‘ میسور میں غیر سودی قرضے جاری کیے جاتے۔ عین حالتِ جنگ میں ٹیپو نہروں کی کھدائی کے لیے فکر مند رہتا۔ دیہات سے لوگ اٹھے اور راستے میں آن کھڑے ہوئے۔ سونے اور چاندی کے سکّے ہی نہیں خواتین نے زیورات کی پوٹلیاں راہوں میں بچھا دیں۔ تاوان کا ایک حصّہ انہی عطیات سے ادا کیا گیا۔ ٹیپو کی رعایا غیر مسلم تھی مگر اعتبار اس کا اتنا تھا۔ اس قدر خلق کو اس سے محبت تھی۔
مکّہ کے مہاجر سب چھوڑ چھاڑ کے مدینہ پہنچے تھے۔ آپﷺ نے ہر مہاجر کو ایک انصاری کا بھائی بنا دیا۔ ترغیب دی کہ اپنے مال کا ایک حصّہ وہ اسے دے ڈالے۔ قرآنِ کریم اور اللہ کے آخری رسولﷺ نے بتا دیا تھا کہ صدقے سے مال بڑھتا ہے۔ انصاریوں نے اپنے گھر بار دیئے‘ سازوسامان دیا۔ تاریخ انسانی کا معزز ترین گروہ‘ آنے والے زمانوں میں جنہیں اجالا کرنا تھا۔ انہوں نے کم سے کم لیا۔ ایک شہسوار نے کہا: مجھے منڈی کا راستہ دکھا دو‘ چیزوں کے نرخ بتا دو‘ مقامی تجارت کے قرینے سمجھا دو‘ یہی بہت ہے۔
یہ جنگ تبوک کا موقعہ تھا۔ صحرا میں آٹھ سو میل کا سفر۔ دنیا کی سب سے بڑی قوت سے درپیش جنگ۔ آپﷺ نے عطیات کی اپیل کی تو سیدنا عمر ابن خطابؓ گھر کا آدھا سامان اٹھا لائے۔ سیدنا صدیق اکبرؓ سارے کا سارا۔ آپﷺ نے پوچھا: گھر میں کیا چھوڑا ہے؟ فرمایا: بس اللہ اور اس کے رسولﷺ کا نام ۔ یہ ان دنوں میں سے ایک تھا‘ جب مسلمانوں نے دریافت کیا کہ ابوبکرؓ اتنے افضل کیوں ہیں؟ فقط ذہانت‘ دولت اور ریاضت سے نہیں‘ آدمی اپنے اخلاق سے ابھرتا ہے… اور کریمانہ اخلاق میں ایثار افضل ترین ہے۔ ایک دوسرے موقع پر‘ کسی نے پکار کر کہا تھا: اے ابوبکرؓ کے گھرانے والو! یہ پہلا خیر نہیں‘ جو تمہارے طفیل ہمیں عطا ہوا۔
ہجرت سے قبل‘ ایک موقع پر اذیتیں پہنچانے والوں سے تنگ آ کر جب ابوبکرؓ نے مکّہ کو خیرباد کہا تو ایک عرب سردار نے راستہ روکا۔ پناہ دی اور یہ کہا: بے کسوں کے آپ دردمند اور مسافروں کا درماں کرنے والے ہیں۔ اس آدمی کا احساس یہ تھا کہ ابوبکرؓ کے بغیر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بستی‘ مفلس ہو جائے گی۔
اعتراض کرنے والے اعتراض کرتے ہیں کہ خلق پہلے سے درماندہ ہے۔ عامیوں سے چندہ مانگنے کی بجائے‘ زرداروں کو پکڑنا چاہیے۔ امراء کے خزانے خالی کرنے چاہئیں۔ ناروے سے ایک خاتون نے پیغام بھیجا ہے کہ عمران خان اپنا زمان پارک والا گھر دے دیں‘ وہ پچاس ہزار ڈالر عطیہ کر دیں گی۔ 1992ء سے اب تک عمران خان‘ ہر سال شوکت خانم کو پچاس کروڑ روپے سالانہ سے زیادہ دیتے رہے۔ اپنی پوری کی پوری بچت۔ جیسا کہ کل عرض کیا تھا‘ نمل یونیورسٹی میں سب سے بڑا عطیہ عمران خان کے والد اور خود کپتان نے دیا تھا۔ اتنے ہی ایک عشرے سے علیم خاں دیتے ہیں۔ تب بھی جب پارٹی میں شامل نہ تھے۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد قائد اعظم نے مہاجر فنڈ قائم کیا۔ چک نمبر 42 جنوبی سرگودھا میں نہر کنارے‘ ڈاک بنگلے میں ڈپٹی کمشنر تشریف لائے۔ یہ میرے بچپن کی دل گداز یادوں میں سے ایک ہے۔ ایک جاگیردار نے 500 روپے کا عطیہ دیا۔ چچا رفیق بریگیڈیئر کے والد سبکدوش صوبے دار لمبے تڑنگے چراغ دین اٹھے۔ کہا: 550 روپے۔ یہ پنشن کی تقریباً تمام بچت تھی۔ زمیندار اس قدر بگڑا کہ آئندہ شب گائوں کے تمام مویشی اٹھوا لیے۔ یہ الگ بات کہ پھر اس سے بات کی گئی۔ ایسے مراسم استوار ہوئے کہ تیسری نسل میں بھی پھل پھول رہے ہیں۔
تین برس ہوتے ہیں کہ اس زمیندار کی بہو نے میرے بھائی میاں محمد خالد حسین سے کہا ”مہر صاحب نال تہاڈا جیہڑا تعلق سی‘ تسی اودے وچوں کجھ نہیں بھوریا‘‘ مہر صاحب مرحوم سے آپ کا جو تعلق تھا‘ اس میں سے ایک ذرہ بھی آپ لوگوں نے گرنے نہیں دیا۔ ایسا بندھن بندھا کہ ہمارے خاندان کی شادیوں میں‘ ان کی طرف سے رنگین چارپائیاں اور پیڑھیاں تحفہ کی جاتی ہیں۔ دستکاری کے نادر نمونے۔ اس دیار سے گزر ہو تو ضیافت برپا ہوتی ہے۔ ایثار کا ہر پہلو خیر کی فصل اگاتا ہے۔ اس کے ہر زاویے پر چراغ جلتے رہتے ہیں۔
صدیوں کی غلامی اور عشروں کے مصائب کی ماری قوم جاگ اٹھنے کے لیے بے تاب ہے۔ احسن اقبالوں کو یہ گوارا نہیں۔
خواب سے محکوم گر بیدار ہوتا ہے کبھی
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری