سپریم کورٹ پاکستان نے متعدد آئینی درخواستوں پر 17 جنوری2019 کو اپنا فیصلہ سنایا جو ایک لحاظ سے عدالت کے 1994 کے ”الجہاد ٹرسٹ کیس” کے فیصلے کا تسلسل ہے- یہ فیصلہ تین حصوں پر مشتمل ہے، جس کا ایک حصہ ابھی تصفیہ طلب ہے جو گلگت بلتستان کے متفرق امور سے متعلق ہے ، بقیہ دو حصوں میں سے ایک گلگت بلتستان کے آئینی حقوق اور دوسرا گورننس آرڈر2009 سے متعلق ہے –
جہاں تک آئینی حقوق کا تعلق ہے، فاضل سپریم کورٹ نے تقسیم ہند ، مسئلہ کشمیر کے پس منظر ، سلامتی کونسل کی قرار دادوں اور تحریک آزادئ کشمیر پر سیر حاصل تبصرہ کے بعد قرار دیا ہے گلگت بلتستان (اور آزاد کشمیر بھی )پوری ریاست جموں و کشمیر کی طرح متنازعہ علاقہ ہے ،جس کا ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کافیصلہ آزادانہ رائے شماری کے بعد ہی ہونا ہے لیکن اس کا حتمی فیصلہ ہونے تک یہ علاقہ ان تمام حقوق کا حقدار ہے جو پاکستان کے دوسرے شہریوں کو حاصل ہیں-
فاضل عدالت نے حتمی حل کو پاکستان کے علاوہ ہندوستان ، بین الاقوامی دنیا اور اقوام متحدہ کے ساتھ مشروط کرتے ہوئے پاکستان کے اندر اس علاقے کو جو حقوق دیے جاسکتے ہیں کو2017 کی سرتاج عزیز کمیٹی رپورٹ کو اپنے فیصلے کے پیرا 18 تا 22 زیر بحث لایا ہے . سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ان علاقے کے لوگوں کو ان تمام حقوق کے حق دار قرار دیا گیا ہے جو پاکستان کے باقی لوگوں کو حاصل ہیں، وہ یقینآپاکستان کے آئینی اداروں ، پارلیمنٹ ، NFC, CCI, NSC وغیرہ میں نمائندگی کے حقوق ہیں :
اس مقصد کے لئے آئینی ترمیم ناگزیر ہے جس کا طریقہ کار بھی سرتاج عزیز کمیٹی مین باالصراحت مذکور ہے-اگر یہ ہو جاتا ہے تو اس سے اس علاقے کے لوگوں کی دیرینہ خواہش کی تکمیل اور ایک آئینی خلاء پر ہوگا -سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ دراصل ARJK کی سفارشات کا خلاصہ ہے،امید ہے آزاد کشمیر کی لیڈر شپ بھی سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر اپنے حقیر سیاسی مفادات اور این جی اوز کا یر غمال بنے بغیر آزاد کشمیر کے لئے بھی اس کے مطابق نمائندگی کا مطالبہ کرے گی جو بالآخر ہونا ہی ہے ، اگر کوئی آج ہی اس کا مطالبہ کرکے یہ کریڈٹ لے لے تو وہ امر ہو جائے گا-
فیصلے کا تیسرا حصہ گورننس آرڈر سے متعلق ہے جس میں قرار دیا گیا ہے یہ آرڈر چونکہ حکومت پاکستان نے جاری کیا ہے . اس کو اور اس کے تحت حکومت پاکستان کے بنائے ہوئے کسی قانون کو گلگت بلتستان کی کوئی عدالت منسوخ کر سکتی ہے نہ ہی حکومت پاکستان سپریم کورٹ آف پاکستان کی اجازت کے بغیر اس آرڈر میں ترمیم کر سکتی ہے جو سپریم کورٹ پاکستان نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد تیار کرکے فیصلہ کا حصہ بنایا ہے اور فیصلہ کے پندرہ دن کے اندر صدر مملکت ، حکومت کی تجویز پر یہ آرڈر نافذ کرنے کے پابند ہوں گے-
اس فیصلہ کی رو سے گلگت بلتستان کی سپریم اپیلٹ کورٹ آئینی کورٹ نہیں ہوگی لیکن اس کو اس علاقے کی حد تک وہ سارے اختیارات حاصل ہوں گے جو سپریم کورٹ آف پاکستان کو حاصل ہیں – سپریم کے حکم کا حصہ بننے والے آرڈر کے تحت گلگت بلتستان کونسل 2009 کے آرڈر کے مطابق بحال ہوگی ، جس کے تحت قانون سازی کے اختیارات حکومت پاکستان، گلگت بلتستان کونسل اورگلگت بلتسان اسمبلی اپنی متعین حدود کے اندر استمعال کریں گے- حکومت گلگت بلتستان اور گلگت بلتستان کے دو الگ الگ consolidated فنڈ ہوں گے – اعلی عدالتوں کے ججوں کی تقرری جو ڈیشل سلیکشن بورڈ کی سفارش پر چئیرمین کونسل کریں گے. ان کی عمر ملازمت اور تنخواہ کی حد پاکستان کے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کے برابر ہوگی البتہ سپریم اپیلٹ کورٹ کا چئیرمین اگر سپریم کورٹ پاکستان کا کوئی جج ہوگا، اس کی ریٹائر منٹ کی عمر ستر سال ہوگی-
مرکزی حکومت یا صوبائی حکومتوں ساتھ کسی تنازع کی صورت میں فیصلہ کرنے کا اختیار بھی سپریم کورٹ آف پاکستان کو حاصل ہوگا – اس طرح گلگت بلتستان کی حد تک سپریم کورٹ کو قانون سازی اور فیصلہ سازی کی حد تک مرکزی حیثیت حاصل ہو جائے گی-
مناسب تو یہ تھا کہ پارلیمنٹ اس مسئلہ پر سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر اور سیر حاصل بحث کے بعد خود قانون سازی کرتی-