[pullquote]پہلے پارے کے مضامین[/pullquote]
سورۃ الفاتحہ:یہ ترتیب کے اعتبار سے قرآن کی سب سے پہلی سورت ہے ‘اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ اس کی قرأت کو ہرنماز کی ہررکعت میں واجب قرار دیا گیاہے ۔یہ سورت سات آیات پر مشتمل ہے اور ایک حدیثِ قُدسی میں اسے ”صلوٰۃ‘‘ سے تعبیر کیاگیاہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ ” میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیاہے ‘یعنی جب بندہ ”اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘ پڑھتاہے ‘تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نداآتی ہے کہ میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب بندہ ”اَلرَّحْمَنِ الرَّحِیْمِ‘‘ پڑھتاہے ‘تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نداآتی ہے کہ میرے بندے نے میری ثنا کی اور جب بندہ ”مَالِکِ یَومِ الدِّیْنِ‘‘ پڑھتاہے ‘تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نداآتی ہے کہ میرے بندے نے میری عظمت وجلالت بیان کی یا بندے نے اپنے آپ کو میرے سپرد کردیا اور جب بندہ ”اِیَّاکَ نَعْبُدُوَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن ‘‘ پڑھتاہے ‘
تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نداآتی ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے ‘یعنی عبادت صرف میری کی جائے گی اور ہرمشکل میں مدد کے طلب گار بندے کی مدد کی جائے گی اور جب بندہ ”اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمِ‘ ‘سے ”وَلَاالضَّآلِّیْن‘‘ تک پڑھتاہے ‘تو چونکہ یہ کلماتِ دعاہیں اور بندہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صراطِ مستقیم پر قائم ودائم رہنے کی دعا مانگتا ہے‘تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نداآتی ہے کہ یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے نے یہ سوال کیاہے ‘وہ اُسے عطاہوگا‘‘۔ (صحیح مسلم ‘رقم الحدیث:877)
سورۃ الفاتحہ کو سورۃ الدعا‘ سورۃ المسئلہ ‘ سورۃ الشفاء ‘ سورۃ الکنز ‘ سورۃ الواقیہ ‘ سورۃ الکافیہ‘ سورۃ الرُّقیہ اور سورۃ الحمد کے ناموں سے بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنااور اس کی عظمت کا بیان ہے‘ اس امر کا بیان ہے کہ عبادت کی حق دار صرف ‘اسی کی ذات پاک ہے اور بالذات صرف اسی سے مدد طلب کی جائے ‘اس میں اللہ کی بارگاہ سے دعا والتجاکے آداب بیان کئے گئے ہیں ۔
سورۃ البقرہ:سورۃ البقرہ کی دوسری آیت میں یہ بتایا گیا کہ اگر قرآن کی حقانیت کے دلائل پر کوئی ٹھنڈے دل سے غور کرے‘ تو اس پر عیاں ہوگا کہ اس کتاب میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔کفار ومشرکینِ مکہ قرآن کے کلام اللہ ہونے کا انکار کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ یہ نبیِ کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنا بنایا ہوا کلام ہے؛ چنانچہ سورۂ بقرہ کی آیات 22اور 23میں ایسے تمام معاندین اور منکرین کو چیلنج کیا گیا کہ اگر تمہیں قرآن کے کلام اللہ ہونے میں شک ہے ‘ تمہیں اپنی فصاحت وبلاغت پر بڑا ناز ہے ‘تو تم سب مل کر اس جیسا کلام بنا کر لے آؤ اور تاریخ میں ایسا کوئی حوالہ نہیں ہے کہ قرآن کے اس چیلنج کو قبول کیا گیا ہو۔
آیت نمبر:3تا 5میں مومنین کی صفات ‘ ایمان بالغیب ‘ اقامتِ صلوٰۃ ‘ انفاق فی سبیل اللہ ‘ کتبِ الٰہیہ پر ایمان اور آخرت پر ایمان کا ذکر ہے۔آیت نمبر:5اور 6میں ان لوگوں کا ذکر ہے ‘ جن کا کفر ظاہر وعیاں ہے اور وہ اپنی سرکشی میں اس حدتک آگے جا چکے ہیں کہ اب ان کا ہدایت پانا عملاً ناممکن ہے ‘ ان کی سرکشی اس حدتک پہنچ چکی ہے کہ ان کے دل ودماغ قبولِ حق کی صلاحیت سے محروم ہوچکے اور اُن پر ابدی شقاوت اور بدبختی کی مہر لگ چکی ہے۔ آیت نمبر:8تا 20میں منافقین کا ذکر ہے ‘ یہ انسانیت کا وہ طبقہ ہے ‘ جن کے ظاہروباطن میں تضاد ہے ‘ دنیوی مفاد کے لئے ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں‘ لیکن دل ایمان سے خالی ہیں۔
آیت نمبر:21اور 22میں توحید کی دعوت اور شرک سے باز رہنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی مختلف نعمتوں کا ذکر کر کے بتایا گیا کہ نعمتیں عطا کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے ‘ وہی حیات دینے والا ہے اور وہی موت دینے والا ہے اور آخر کار سب کو اسی کی عدالت میں جانا ہے ۔ آیت نمبر:30تا39میں ہے کہ فرشتوںکے سامنے اﷲتعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ میں آدم کو زمین میں اپنا خلیفہ بنارہا ہوں ‘ فرشتوں نے اپنی فہم کے مطابق؛ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ عرض کیا کہ بنی آدم زمین میں فساد کریں گے‘ خون ریزی کریں گے اور اے اﷲ!ہم ہمہ وقت تیری تسبیح وتقدیس میں مشغول رہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں جن اَسرار اور حکمتوں کوجانتا ہوں‘ تم نہیں جانتے اور پھر نعمت ِ علم کے ذریعے آدم علیہ السلام کی فضیلت اور برتری کو فرشتوں پر ثابت کیا‘پھر فرشتوں کو حکم ہوا کہ آدم کو سجدہ کرو اور ابلیس لعین کے سوا تمام ملائک نے حکمِ ربّانی کی بلا چوں وچِرا تعمیل کی ۔
یہ سجدہ عبادت کا نہیں تھا‘ بلکہ ” سجدۂ تعظیمی‘‘ تھا ‘پھر آدم وحوا علیہما السلام کے جنت میں داخل کرنے اور وہاں اُن کے لئے اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں سے استفادے کی اجازت کے ساتھ ساتھ ایک درخت کے قریب نہ جانے کی پابندی کا ذکر ہے ۔ اسی کے ساتھ ابلیسِ لعین کے آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے ‘ حضرت آدم وحوا علیہما السلام کو بہکانے اور جنت سے نکالے جانے کا ذکر ہے اور‘ پھر آدم علیہ السلام کوتوبہ کے کلمات اِلقاء کئے جانے ‘ ان کلمات سے ان کی توبہ اور توبہ کی قبولیت کا ذکر ہے۔ یہ کلماتِ توبہ سورۂ اعراف ‘ آیت:23 میں مذکور ہیں‘ جن کا ترجمہ یہ ہے”اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی‘ پس اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ فرمائے ‘ تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے‘‘۔
اس کے بعد متعدد آیات میں بنی اسرائیل اور اُن کی طرح طرح کی عہد شکنیوں‘ اُن پر مختلف انعامات اور اُن کی سرکشی کے مختلف انداز بیان کئے ہیں۔ پہلے تواللہ تعالیٰ نے ان پر نازل کی گئی اپنی کئی نعمتوں کا ذکر فرمایا جو یہ ہیں :فرعون اور فرعونیوں کے تسلُّط اور نسل کشی سے نجات دلانا‘ ان کے لئے سمندر کو پاٹ کر وادیِٔ سینا میں پہنچانا‘ وادیِ ٔسینا میں اُن پر طویل عرصے تک بادلوں کا سایہ فِگن ہونا‘ مَنّ وسَلویٰ کی صورت میں تیار خوانِ نعمت کا نازل کرنا‘ چٹان پر عصائے موسیٰ کی ضرب سے بارہ قبیلوں کے لئے بارہ چشموں کا جاری ہونا‘ گائے ذبح کرکے اس کے مقتول پر لَمس (Touch)سے قاتل کا پتا چلانا ‘ ان کو اپنے عہد کے لوگوں پر فضیلت دینا ‘ بنی اسرائیل میں بکثرت انبیائے کرام کی بعثت‘وغیرہ‘پھراس کے بعداُن کی سرکشی کا تفصیلی بیان ہوا ‘ جس کی تفصیل یہ ہے:
اﷲتعالیٰ سے کئے ہوئے عہد وپیمان کو توڑنا‘ ان کے علماء کے قول وفعل کا تضاد ‘ دنیاوی مال کی لالچ میں بااثر لوگوں کے لئے اَحکامِ الٰہی میں ردّوبدل کرنا یا اَحکامِ الٰہی کو جان بوجھ کر چھپانا‘ موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر گئے توان کی عدم موجودگی میں بچھڑے کی پوجا کرنا‘ مَنّ وسَلویٰ کی گراں قدراور تیار سَماوی نعمت کو ٹھکرا کر گندم ‘ سبزی ‘ ککڑی ‘ مسور کی دال اور پیاز (یعنی زمینی پیداوار)کی فرمائش کرنا‘گویا اعلیٰ کو رد کرکے ادنیٰ کو طلب کرنا‘ انبیاء کو ناحق قتل کرنا‘ سَبت(ہفتہ) کے دن کی حرمت کو پامال کرنا‘گائے ذبح کرنے کے سیدھے سادے حکم کو ماننے کی بجائے اس کے بارے میں کئی سوالات اٹھانا‘ کلامِ الٰہی میں لفظی ومَعنوی تحریف (رد وبدل) کرنا‘ تورات وانجیل میں سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بیان کی گئی بشارتوں کو چھپانا‘ شوہر اور بیوی میں تفریق کے لئے جادو سیکھنا اور اس کا استعمال ‘ اِشارات وکنایا ت اور لفظی رد وبدل کے ذریعے رسول اللہ ﷺ کی شان میں اہانت کرناوغیرہ؛ چنانچہ آیت نمبر:
104میں واضح ارشاد ہوا کہ ”اے اہلِ ایمان!(جب تمہیں نبی کی کوئی بات سمجھ میں نہ آئے ‘ تو دوبارہ بیان کے لئے ) ”رَاعِنَا‘‘ (یعنی ہماری رعایت کیجئے) نہ کہو (کیوں کہ اسے یہود اور منافقین اہانت کے معنی میں بھی استعمال کرتے ہیں‘ لہٰذا یوں کہو کہ) یارسول اللہ! ہم پر توجہ فرمائیے اور( اس سے بھی زیادہ ادب کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے ہی نبی کی بات کو)خوب توجہ سے سنو!‘‘یعنی مومنوں کو رسول اللہ ﷺ کی شان میں ایسا ذومعنی کلمہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے‘ جس کو کوئی بدفطرت شخص اشارۃً ‘ کنایۃً یا صراحۃً اہانت کے معنی میں استعمال کر سکتا ہو‘پھر بتایا گیا کہ بچھڑے کی پرستش کے جرم کی توبہ اِس طرح قبول ہوئی کہ ان پر اندھیرا مسلّط کردیا گیااور ہزاروں کی تعداد میں انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ایک دوسرے کو قتل کیا‘ ان کی صورتوں کو مسخ کرکے انہیں ذلیل وحقیر بندر کی شکل دے دی گئی اور پھروہ موت سے ہمکنار ہوئے ۔
بنی اسرائیل جبرئیل امین علیہ السلام سے اس لئے عداوت رکھتے تھے کہ ان کے ذریعے بنی اسرائیل پراللہ کا عذاب نازل ہوا‘ تو اللہ نے فرمایا : کہ جبرئیل ومیکائیل اللہ تعالیٰ ہی کے احکام کو نازل کرتے ہیں‘ پس جو ان کا دشمن ہے‘ وہ اللہ کا دشمن ہے۔بنی اسرائیل کی اس خوش فہمی کو بھی رَد کیا گیا کہ وہ کسی استحقاق کے بغیر اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں اور آخرت وجنت پر یہود ونصاریٰ کا اجارہ ہے ۔اہلِ ایمان کو یہ بتایاگیاکہ جب تک تم یہودونصاریٰ کی خواہشات کی پیروی نہ کرلو ‘وہ تم سے راضی نہیں ہوسکتے ۔سورۂ بقرہ کی آیت نمبر:123اور اس کے بعد کی آیات میں حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کے منصبِ امامت پر فائز کئے جانے کا تذکرہ ہے ۔
حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کے بیت اللہ کو تعمیر کرنے کاذکر ہے اوراس امر کا بیان ہے کہ تعمیر ِ بیت اللہ کے بعد انہوں نے اﷲتعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا کی:اے ہمارے رب اِن (اہلِ مکہ) میں ‘ انہی میں ایک عظیم رسول کو مبعوث فرما ‘ جو ان لوگوں پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دے اور ان کے نفوس کی اصلاح کرے‘ اسی لئے رسول کریم ؐ فرماتے تھے کہ میں حضرت عیسیٰ کی بشارت اور حضرت ابراہیم کی دعا کا ثمر(نتیجہ) ہوں ۔ اس کے بعد اس سورت میں اولادِ ابراہیم حضرت اسماعیل‘ حضرتِ اسحاق ‘ حضرت یعقوب اور ان کی اولاد حضرت موسیٰ وعیسیٰ اور اجمالی طور پر دیگر انبیائِ کرام علیہم السلام کا ذکر ہے اور یہ بھی کہ اہلِ ایمان سب انبیاء پر ایمان لاتے ہیں اورایمان کے لانے میں رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور یہ بھی کہ حضرات ابراہیمؑ ‘ اسماعیل ؑ‘ اسحاق‘ ؑیعقوب ؑاور ان کی اولاد یہودی ونصرانی نہیں تھے‘ بلکہ سب کے سب ایک ہی دینِ اسلام کے علمبردار اور داعی تھے ۔
چنانچہ اُن میں سے اگر کوئی تورات میں بیان کی گئی نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام کی علامات کو بیان کرتا ‘تو یہود اُس سے کہتے ”کیا تم اُن (مسلمانوں) کو وہ (حق) باتیں بتا دیتے ہو‘ جو اللہ نے تم پر عیاں کی ہیں ‘‘ (بقرہ:76)۔ ان آیات میں یہ حقیقت بھی بیان کردی گئی کہ ”وہ اِس (بعثت مصطفی ﷺ) سے پہلے (اس نبی کے وسیلے سے) کفار کے خلاف فتح کی دعا کرتے تھے اور جب اُن کے پاس وہ آگئے ‘ جن کو وہ پہچان چکے تھے‘ تو انہوں نے ان کے ساتھ کفر کیا‘‘(بقرہ:89)۔