کمسن لڑکیوں کی شادی کے خلاف قانون سازی کا بل تعطل اور ہنگامہ آرائی کی نذر ہوا۔ اسی دوران شکار پور میں ایک 40 سالہ شخص، ایک 10 سالہ بچی سے شادی کرنے پر پکڑا گیا۔
واضح رہے کہ سندھ میں سنہ 2014 سے شادی لیے لڑکے اور لڑکی کی عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے۔
پاکستان اور انڈیا میں لڑکیوں کی شادی بہت کم عمری میں کر دی جاتی ہے اور یہ بلا تخصیص مذہب، سرحد کے آر پار جاری ایک ایسی رسم ہے جو آج کے مہذب معاشرے کے منھ پہ طمانچہ ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تین فی صد لڑکیاں 15 سال کی عمر سے پہلے بیاہ دی جاتی ہیں اور 21 فی صد، 18 سال کی عمر تک۔
چونکہ پاکستانی معاشرہ قدم قدم پر رنگ بدلتا رہتا ہے اس لیے مجھے ان اعداد و شمار کی صحت پر بھی شک ہے۔ ممکن ہے جس یونٹ سے یہ اعداد و شمار حاصل کیے گئے ہوں وہاں ایسی ہی صورت حال ہو لیکن میرا تعلق چونکہ دیہات سے ہے اسی لیے میں نے آج تک کسی مزدور کی بیٹی کو 18 سال کی عمر تک بن بیاہا نہیں دیکھا۔
حد سے حد 15 سال تک ان کی شادیاں ہو جاتی ہیں، غذائی قلت کا شکار یہ بچیاں، شادی شدہ زندگی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتیں۔ کم عمری کی نادانی کے باعث ہمہ وقت بد کرداری کے طعنے اور گھریلو تشدد کا شکار رہتی ہیں۔ اکثر یہ بچیاں شوہروں یا سسرالی رشتے داروں کے ہاتھوں قتل بھی ہو جاتی ہیں۔
کم عمری میں کی جانے والی ان شادیوں کے پیچھے بہت سے عوامل کار فرما ہیں۔ وٹے سٹے میں اکثر کسی عمر رسیدہ رشتے دار، باپ، بھائی، ماموں، چچا کے وٹے پر کم سن لڑکی بیاہ دی جاتی ہے۔
دوسری صورت میں پیسے کے حصول کے لیے کم عمر لڑکی کی شادی کر دی جاتی ہے۔ پنجاب کے بہت سے علاقوں میں لڑکے والے ہی شادی کا خرچ اٹھاتے ہیں بلکہ کچھ رقم لڑکی کے ماں باپ کو بھی دیتے ہیں۔