’میں نے ایک بار فیس بک کا فلٹرڈ میسجز والا آپشن کھولا تو اس میں کچھ نازیبا تصاویر تھیں جو ایسے لڑکوں نے بھیجی تھیں جن کو میں بالکل بھی نہیں جانتی تھی۔ مجھے بہت عجیب لگا کہ آپ جس کو جانتے ہی نہیں ہیں اُسے اتنی ذاتی تصویر بھیج دیں۔‘
’جب پہلی بار (فحش) تصویر موصول ہوئی تو کسی کو بتاتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔ گھر والوں کو تو نہیں بتایا لیکن اپنی چند دوستوں سے ذکر کیا۔ دوستوں نے بھی بتایا کہ ان کو بھی اس طرح کی تصاویر ملتی ہیں۔‘
’جب آپ حقوق پر بات کرو کہ یہاں یہ غلط ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے آپ بہت بولتی ہیں ہمارا کلچر ایسا نہیں ہے اور پھر اس طرح کی تصاویر بھیجی جاتی ہیں۔ انھیں لگتا ہے ہم اپنا اکاؤنٹ بند کر دیں گے۔‘
عائشہ اظہار کراچی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں اور وہ ایسی فحش تصاویر کا نشانہ بننے والی واحد خاتون ہرگز نہیں ہیں۔ یہی کہانی سوشل میڈیا استعمال کرنے والی ہر دوسری عورت کی ہے۔
’عورت مارچ میں جب اس پر پوسٹر آئے تو مزید تصاویر آنا شروع ہو گئیں۔ ہم ٹوئٹر پر بات کر رہے تھے کہ واقعی ایسا ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایسی اور تصاویر ملنا شروع ہو گئیں۔ لوگوں نے کہا کہ آپ اپنی تصاویر پبلک میں لگاتی ہیں، اسی وجہ سے آپ کو ایسی تصاویر بھیجی جاتی ہیں۔ لیکن ہم میں سے اکثر کی تصاویر پبلک ہی نہیں ہیں۔‘
’پہلے ہم (ایسے مواد کو) نظر انداز کر دیتے تھے، ڈیلیٹ کر دیتے تھے یا بلاک کر دیتے تھے۔ لیکن پھر ہم نے سوچا کہ ان کو سامنے لانا چاہیے۔ اب ہم سکرین شاٹس لے کر لڑکیوں کے گروپس میں بھیج دیتے ہیں کہ وہ ہوشیار رہیں۔‘
میڈیکل کی طالبہ عالیہ (فرضی نام) نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے اپنی ایک جاننے والی لڑکی کو موصول ہونے والی نازیبا تصاویر کے بارے میں جب سوشل میڈیا پر آواز اٹھائی تو اس کے جواب میں ان کو بھی مردوں کی جانب سے درجنوں فحش تصاویر ملنا شروع ہو گئیں۔
عالیہ کہتی ہیں ’اتنی ایسی تصاویر ملی ہیں کہ اب عادت ہو گئی ہے۔ شروع شروع میں جب ملتی تھیں تو میں سوشل میڈیا کا استعمال کم کر دیتی تھی لیکن اب میں ایسا نہیں کرتی کیونکہ اگر آپ خود اپنے لیے کھڑے نہیں ہوں گے تو کوئی اور بھی آپ کا ساتھ نہیں دے گا۔‘
’جو خواتین اس سب میں سے گزر چکی ہیں وہ ایک دوسرے کا بہت ساتھ دیتی ہیں، مشورے دیتی ہیں جو کہ اکثر بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔‘
سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل حقوق پر کام کرنے والی تنظیم ‘ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن’ کی شمائلہ خان کہتی ہیں ’خواتین کو فحش تصاویر بھیجنے کا مقصد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر خواتین کو خاموش کرانا اور پریشان کرنا ہوتا ہے۔‘
لیکن عائشہ کے مطابق خواتین کو نازیبا تصاویر بھیجنے والے مرد دراصل نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں جو خواتین کو میسجز میں دھمکیاں دیتے ہیں یا پھر ایسی تصاویر بھجواتے ہیں۔
[pullquote]خواتین فحش تصاویر سے کیسے بچ سکتی ہیں؟[/pullquote]
شمائلہ کہتی ہیں کہ سب سے پہلے ضرورت ہے کہ ایسے معاملات میں خواتین خود کو قصور وار نہ ٹھہرائیں۔
’خواتین کو بار بار یہ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ضرور آن لائن کوئی ایسی بات کہی ہو گی جس کے بعد ان کو فحش تصاویر بھیجی گئی ہیں لیکن خواتین کو کبھی بھی یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ ان کی غلطی ہے۔‘
شمائلہ کہتی ہیں کہ اگر کوئی خاتون یہ محسوس کرتی ہیں کہ ان کی رائے کی وجہ سے ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس طرح کی تصویریں بھیجی جا رہی ہیں تو ڈائریکٹ میسجز کے آپشن پر پرائیوسی لگا کر اس قسم کی تصاویر سے بچا جا سکتا ہے۔
شمائلہ کے مطابق اگر آپ کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے یا ایک دفعہ بھی آپ کو کسی قسم کی بیہودہ تصویر بھیجی گئی ہے تو یہ آپ کا حق ہے کہ آپ اس کو رپورٹ کریں۔
شمائلہ نے بتایا کہ سوشل میڈیا کمپنیاں پرائیویٹ ہیں اور ہر کمپنی کی اپنی کمیونٹی گائیڈ لائنز ہیں۔ کوئی بھی ایسا میسج، تصویر یا مواد جو کمپنی کی کمیونٹی گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی کرتا ہو اسے رپورٹ کر کے ہٹوایا جا سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر کوئی آپ کو میسج میں بھی ایسا مواد بھجوا رہا ہے تو اس شخص کی پروفائل کو بھی رپورٹ کر کے ہٹوایا جا سکتا ہے۔ شمائلہ کے مطابق کچھ کیسز میں ایسا کرنے سے مدد مل جاتی ہے تاہم کچھ کیسز میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ بہت سے لوگ اپنی نئی پروفائل بھی بنا لیتے ہیں۔
عائشہ کا کہنا ہے کہ خواتین کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا مردوں کو لہٰذا انھیں اپنے اکاؤنٹ بند نہیں کرنا چاہییں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی تصاویر بھیجنے والوں کی نشاندہی کر کے یا تو ان کو جرمانہ کیا جائے یا ان کے اکاؤنٹ کو بند کر دیا جائے۔
[pullquote]قانونی راہ کیا ہے؟[/pullquote]
شمائلہ نے بتایا کہ پاکستان میں Prevention of Electronic Crimes ایکٹ کے نام سے قانون بھی موجود ہے جو کہ سنہ 2016 میں پاس ہوا تھا۔ اس قانون کے سیکشن 21 کے تحت آپ ایف آئی اے میں جا کر تمام میسجز کے سکرین شاٹس لگا کر اپنی شکایت درج کرا سکتے ہیں جس کے بعد ایف آئی اے اپنی تحقیقات کا آغاز کر دیتا ہے۔
اس قانون کے مطابق مجرموں کو جرمانے، وارننگ اور جیل بھیجنے کی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
[pullquote]خواتین کو درپیش چیلنج[/pullquote]
شمائلہ کہتی ہیں کہ بیشتر کیسز میں خواتین کے لیے ہراساں کرنے والا شخص اتنا بڑا چیلنج نہیں ہوتا جتنا آپ کے قریبی لوگ ہوتے ہیں۔ اپنی فیملی اور دوستوں کے دباؤ کی وجہ سے خواتین ان کیسز کو رپورٹ کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں۔
شمائلہ کے مطابق یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ خواتین سے ایک مخصوص رویے کی توقع رکھی جاتی ہے اور اگر خواتین اس سے انحراف کریں تو ان کو قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے۔ شمائلہ نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین کو اپنے ارد گرد کسی ایسے شخص کو تلاش کرنا چاہیے جو ان کو اعتماد دلائے اور ان کی مدد کر سکے۔
شمائلہ کا کہنا ہے کہ ہمیں اس رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے کہ جب خاتون کے ساتھ کچھ برا ہو تو ان سے سوال کرنے کی بجائے ان کے ساتھ ہوئی زیادتی کی مذمت کی جائے۔